"MSC" (space) message & send to 7575

شک کا فائدہ؟

پاکستان میں فوجی مداخلت کئی بار ہوئی ہے، لیکن ہر بار وجوہ مختلف تھیں۔ یہ کہنا تو آسان ہے کہ فوجی قیادت کو اقتدار کا چسکا لگا ہوا ہے، لیکن ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ، ہر ''ٹیک اوور‘‘ کا جائزہ لیں تو ہر ایک کے معاملات مختلف نظر آئیں گے۔ اگر سیاسی قیادت چوکس اور مستعد ہوتی، تاریخ پر اس کی نظر گہری ہوتی، تو حادثات کو ٹالنا ممکن تھا۔ ایوب خان نے اگرچہ بہت سوچ سمجھ کر اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اقتدار سنبھالا تھا، ان کا اصلاحات کا اپنا ایجنڈا تھا اور سسٹم میں مطلوب تبدیلیاں بھی ان کی نظر میں واضح تھیں، اس کے باوجود ان کے ''انقلاب‘‘ کی پیش بندی بھی ہو سکتی تھی، اور جو نظام سیاسی جماعتوں نے نو سال کی محنت شاقہ (یا غیر شاقہ) کے بعد وضع کیا تھا، اسے چلنے کا موقع مل سکتا تھا۔ ایوب خان کی (آرمی چیف کے طور پر) میعاد عہدہ پوری ہو چکی تھی، سیاسی قیادت اردگرد ہونے والے واقعات کو عمیق نگاہ سے دیکھ رہی ہوتی تو سر پر منڈلاتا ہوا ''فوجی انقلاب‘‘اوجھل نہیں رہ سکتا تھا۔ ان دنوں ترقی پذیر ممالک میں فوجی قبضوں کا رواج عام تھا اور اکثر مقامات پر کامریڈ صاحبان کی براہ راست یا بے راہ راست کوششوں سے سیاسی نظام تلپٹ کئے جا رہے تھے۔ فوج کی منظم طاقت کے ذریعے اپنے مقاصد کو پورا کرنا آسان سمجھ لیا گیا تھا اور عوام کے اندر کسی انقلابی جماعت کی جڑیں گہری کئے بغیر انتشار اور افراتفری سے بذریعہ فوج فائدہ اٹھانا گویا سیدھی انگلیوں سے گھی نکلوانا تھا۔ فوج نے مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں کئی مقامات پر سیاستدانوں کو چلتا کیا تھا اور عوام کی طاقت کا نعرہ لگا کر اپنا قبضہ پکا کر لیا تھا۔ پاکستان میں بھی جو سیاسی ابتری اور بے یقینی پھیلی ہوئی تھی، جس طرح کولیشن حکومتیں بن اور ٹوٹ رہی تھیں اور عوام کا تعلق اہل اقتدار کے ساتھ کمزور پڑ رہا تھا، اس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے تھے۔ وزیراعظم فیروز خان نون اور وزیر دفاع ایوب کھوڑو اگر صدر سکندر مرزا کے بھرے میں نہ آتے اور اپنے کمانڈر انچیف کی میعاد ِعہدہ میں توسیع نہ کرتے تو نقشہ یکسر مختلف ہو سکتا تھا۔ اگر ایوب خان کو ریٹائر کر دیا جاتا تو پھر ان کا ''شوقِ انقلاب‘‘ ان کو سیاست میں آنے پر مجبور کر سکتا تھا اور ان کی رعب دار شخصیت عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو سکتی تھی۔اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان میں سیاسی عمل مستحکم ہوتا اور جس جرنیلی آن بان نے اسے تہہ و بالا کیا، وہ اس میں نئی روح پھونک دیتی۔
اسے ایک دور از کار تاویل بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ ایوب خان جیسی شخصیت اگر بروقت اپنے منصب سے الگ ہو جاتی تو منظر نامہ مختلف ہوتا۔ ایوب خان نے اقتدار سنبھال کر بہت کچھ بدلا۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو ایک نئی سمت دی۔ بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا، پارلیمانی نظام کو صدارتی میں بدل دیا، بالغ حق رائے دہی کو ختم کر دیا۔ پاکستان کی گزشتہ67سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایوب خان کئی حوالوں سے ممتاز اور سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے ادارے آج بھی ان کے ''وژن‘‘ کی کہانی سناتے اور پاکستان کی ہم جہتی ترقی کی تصویر دکھاتے ہیں۔ ''ایوبی آمریت‘‘ کی تمام تر دانشورانہ مذمت کے باوجود عوام میں اس کی جڑیں آج بھی موجود ہیں، جگہ جگہ لوگ اسے یاد کرتے، بلکہ اس کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں۔
ایوب خان کے کئی کارناموں کے باوجود پاکستانی قوم کو انہی کی بدولت دل کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ اس کے ہاتھ اور پائوں تو مضبوط نظر آئے، چہرے پر لالی بھی دیکھنے میں آئی، لیکن دل میں اٹھنے والی ٹیسوں نے معاملات کو چوپٹ کر دیا۔ ایوب خان کی ذات چونکہ اختیارات کا محور اور مرکز تھی، اس لئے اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ جنگ میں مبتلا ہونے کے شوق سے خود کو نہ روک سکے۔ اس جنگ کے جو بھی اسباب اور کردار تلاش کئے جائیں، فیلڈ مارشل کو اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا۔1965ء کی جنگ ان کے اقتدار کے لئے زوال کا پیغام لائی اور پاکستانی معیشت اور سیاست کو بھی تہہ و بالا کر گئی۔ یہ درست ہے کہ اس جنگ میں ہماری فوج بہادری سے لڑی، قوم اور فوج کے درمیان اعتماد کے نئے رشتے اور زاویے دیکھنے میں آئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حتمی تجزیے میں اس جنگ کی ''شان و شوکت‘‘ ایوبی عہد ہی کی چکا چوند کی طرح ''مصنوعی‘‘ ثابت ہوئی۔ 1965ء کی جنگ نے بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کے اعتماد کو مجروح کیا، کسی فیصلہ کن نتیجے پر نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے ایوب خان کی شخصیت ''زخمی‘‘ ہو گئی، مشرقی پاکستان کو غیر محفوظ ہونے کا احساس دوچند ہوا اور اس ہی کے ملبے سے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی وہ چنگاریاں برآمد ہوئیں جنہوں نے بالآخر جسد ِ قومی کو خاکستر بنا ڈالا۔
ایوب خان کے ''انقلاب‘‘ سے پہلے حکومت اور فوج ایک دوسرے کی طاقت تھے، اہلِ سیاست اہل ِ حرب کا دلی احترام کرتے اور ان کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھتے تھے، لیکن7اکتوبر 1958ء کے بعد دونوں کے تعلقات میں ''شک‘‘ کا ایک ایسا عنصر داخل ہو گیا، جو ابھی تک نہیں نکل پا رہا۔ سیاسی اور فوجی قیادت کو ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر شک رہتا ہے اور فریقین ایک دوسرے کی ایک ایک حرکت پر چونک چونک جاتے ہیں۔ ان کے درمیان ماں اور بیٹی کا نہیں، ساس اور بہو کا رشتہ قائم ہو چکا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہوں، تو بھی کچھ نہ کچھ کھٹ پٹ رہتی ہے، ایک چھوٹی سی غلط فہمی بھی کسی بڑے جھگڑے کو جنم دے ڈالتی ہے۔
چھپن سال گزرنے کے باوجود فوج اور سیاست کے درمیان محبت کا تعلق مسلسل نہیں رہا۔ آج بھی جب ''سول ملٹری‘‘ تعلقات کی بات ہوتی ہے تو شک کا کانٹا نکل نہیں پاتا، کسی ایک کا دل بھی اس پھانس سے نجات حاصل نہیں کر پایا۔ اونٹ کی کمر پر (فی الحال) آخری تنکا ''جیو‘‘ کے خلاف آئی ایس آئی کی شکایت ہے۔ حکومتی سطح پر اس معاملے کو جس طرح ڈیل کیا جا رہا ہے اس نے حیرتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ پیمرا نے معاملے کو نبٹانے کے بجائے لٹکانے کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ وزارت قانون کی رائے لینے کے لئے فائل ادھر بھیج دی گئی ہے۔ ایک ''خود مختار ادارے‘‘ کی اس بچگانہ حرکت کی داد دینا کسی بھی طور ممکن نہیں۔ اس نے حکومت کے بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے۔ اولاً تو وزیراعظم کو پہلی فرصت میں مداخلت کر کے معاملے کو سلجھا دینا چاہئے تھا، ایسا ممکن نہیں ہو سکا تھا، تو پیمرا اپنے فرائض تیزی سے ادا کرتی، لیکن اس نے (کوئی بھی) فیصلہ کرنے کے بجائے حکومت کے ایک اور ادارے کو ملوث کر کے ، کسی کی بھی کوئی خدمت نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ''شک‘‘ کا فائدہ کون اٹھائے گا، بلاشک و شبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ سیاسی نظام یا استحکام تو ایسا کرنے سے رہا۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں