برادرِ عزیز حامد میر پر قاتلانہ حملے کو (گنتی کے اعتبار سے) پانچ ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن اس کے بعد قومی سیاست اور صحافت میں جو کچھ دیکھنے میں آیا ہے، اُس سے یوں معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے پانچ عشروں کی کمائی دائو پر لگ گئی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو عوام کے ذریعے اور عوام کے لئے وجود میں آیا، لیکن قیام کے چند ہی سال بعد اسے جمہوریت سے محروم کر دیا گیا۔ بانیان ِ پاکستان کے ذہن میں ایک لمحے کے لئے بھی یہ بات نہیں آئی ہو گی کہ پاکستان میں چند سال کے اندر اندر فوج کی حکومت قائم ہو جائے گی اور پھر حالات اس سطح پر پہنچیں گے کہ یہ روز کا مشغلہ بن جائے گا۔
روزِ اوّل سے نظم و نسق سنبھالنے والے ناتجربہ کار سیاست دانوں نے 7سال کی محنت ِ شاقہ سے نئی مملکت کا آئین بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تو یہ الزام لگا کر دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی گئی کہ یہ دستور بنانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ جس وقت گورنر جنرل یہ فرمان جاری کر رہے تھے، دستور ساز اسمبلی دستور کے مسودے کی (غالباً) پہلی خواندگی مکمل کر چکی تھی۔ یہ ایک ''سول کُو‘‘ تھا جو عوام کے منتخب نمائندوں کے خلاف برپا کیا گیا۔ اس کے بعد معاملات کو یوں سنبھالا مل گیا کہ گورنر جنرل کی آمرانہ خُوبُو کے سامنے، اُسی فیڈرل کورٹ نے دیوار کھڑی کر دی جو پہلے اُس کے ساتھ مل کر دیوار گرا چکی تھی۔ فیصلہ سنایا گیا کہ گورنر جنرل کو کسی غیر منتخب اجتماع کے ذریعے آئین مرتب کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس کے لئے دستور ساز اسمبلی کے انتخابات از سرِ نو ہونے چاہئیں اور چونکہ1947ء کی دستوریہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے منتخب ہوئی تھی، اس لیے اب نئی دستور ساز اسمبلی کا حلقہ ٔ انتخاب بھی صوبائی اسمبلیاں ہی ہوں گی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں وفاقی سطح پر عام انتخابات تو نہیں ہو پائے تھے کہ ان کے لیے دستور سازی کا مرحلہ مکمل ہونے کا انتظار لازم ہوتا، لیکن تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہو چکے تھے اور تاریخ میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ برطانوی عہد میں ووٹر کے لئے بھی شرائط مقرر تھیں، اس لیے عوام کے ایک محدود حلقے ہی کو حق انتخاب حاصل تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بالغ رائے دہی کا حق تسلیم کیا گیا اور ہر بالغ شہری کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرکت کا حق مل گیا۔ تمام صوبائی اسمبلیوں میں اب مسلم لیگ کو بلِا شرکت غیرے اکثریت حاصل نہیں رہی تھی۔ مشرقی بنگال سے حسین شہید سہروردی اور مولوی فضل الحق انتخابی پہلوان بن کر اُبھرے تھے۔ نئی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی اور اس نے ''دلِ ریزہ ریزہ‘‘ کو جمع کر کے دو سال کے عرصے میں دستور منظور کر لیا۔ یہ کوئی مثالی دستاویز نہیں تھی، اس کے ناقد موجود تھے، لیکن مشرقی اور مغربی پاکستان کے منتخب نمائندوں کے اتفاق رائے کا مظہر ضرور تھی اور اس حوالے سے اسے پاکستانی سیاست کا سنگِ بنیاد قرار دیا جا سکتا تھا۔
1958ء میں مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو اقتدار سنبھالنے کا حکم دیا اور1956ء کا دستور منسوخ کر دیا گیا۔ سکندر مرزا اس دستور ہی کے تحت پاکستان کے صدر بنے تھے اور پہلے باقاعدہ منتخب صدر کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ جنرل محمد ایوب خان نے بھی اس دستور کی حفاظت کی قسم اُٹھا رکھی تھی، لیکن دونوں میں سے کسی کو بھی حلف شکنی پر کوئی ندامت محسوس نہیں ہوئی اور اس دستاویز کو تاراج کر ڈالا گیا، جو 9برسوں کی عرق ریزی سے وجود میں آئی تھی۔ جنرل محمد ایوب خان نے نئے دستور کے تحت نیا نظام دیا، بنیادی حقوق کو محدود کر ڈالا، بالغ رائے دہی کا حق واپس لے لیا، پارلیمانی نظام کو ختم کیا، آزادیٔ اظہار پر قد غن لگا دی اور اخبارات کے لئے ڈیکلریشن کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا۔ اس نئے دستور اور نئے نظام کے حق میں وہ اتفاق رائے نہ ہو سکتا تھا جو عوام کے منتخب نمائندوں کی مرتب کی ہوئی دستاویز کو حاصل تھا، پس ملک میں ایک ایسی کشمکش کا آغاز ہو گیا جسے ایک طرح کی ''سول وار‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ باشعور طبقات کی بڑی اکثریت نئے دستور کو صبح بے نور قرار دیتی اور 1956ء کے دستور میں طے شدہ اصولوں پر اصرار کرتی رہی۔ ایوب خان کے مخالفوں کو غداری کے سرٹیفکیٹ دیئے جاتے رہے، مقدمے قائم کیے جاتے رہے، گرفتاریاں ہوتی رہیں، آزادیٔ صحافت کا نعرہ بھی ناپسندیدہ رہا، اس کے لیے جدوجہد کرنے والے گردن زدنی سمجھے جاتے رہے۔ ایوب کا دور ختم ہوا، لیکن اپنا دستور بھی ساتھ لے گیا۔ اقتدار پھر فوج کے حوالے ہوا اور وہ کچھ ہو گیا جس کا ذکر ہی سوہانِ روح ہے، مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی تک نوبت پہنچی اور بالآخر بھارتی فوجوں کی مداخلت سے بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔
تاریخ کا احاطہ مقصود نہیں ہے، نئے پاکستان میں نیا دستور بنایا گیا، لیکن نوبت پھر فوجی مداخلت تک پہنچی۔ کئی سال بعد گاڑی پھر پٹڑی پر چڑھی، لیکن پھر اُتار ڈالی گئی، جمہوریت اور مارشل لا کے درمیان کشمکش جاری رہی، یہاں تک کہ ایک بار پھر ملک دستوری راستے پر گامزن ہو گیا... گزشتہ چھ سال سے پاکستانی جمہوریت ازسر نو چلنا سیکھ رہی ہے،لیکن جنرل پرویز مشرف کے اثرات سے اب تک باہر نہیں آ پائی۔ اس دور میں مخالف اہل ِ سیاست کے ساتھ جو ہوتا رہا اور جس طرح حساس اداروں کو استعمال کیا گیا، اُس سے بیک جنبش قلم قطع تعلق ممکن نہیں ہے:
رکتے رکتے رکیں گے آنسو
رونا ہے یہ ہنسی نہیں ہے
حامد میر پر قاتلانہ حملے کا الزام ڈی جی آئی ایس آئی پر لگایا گیا اور ان کے ادارے نے ان کو جس طرح ہدف بنایا، اس پر بہت بحث ہو چکی ہے، اس کی تائید کرنے والے خود ''جیو‘‘ میں بھی بہت ہی کم ہوں گے، لیکن اس سانحے کے اثرات پورے معاشرے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ کنفیوژن اور الجھائو میں اضافہ ہوا ہے۔آئی ایس آئی نے ''جیو‘‘ کے خلاف اپنی شکایت وزارتِ دفاع کے ذریعے پیمرا کو بھجوائی تو فوری طور پر سماعت کے بعد کوئی فیصلہ سنانے کے بجائے اسے لٹکا دیا گیا۔اس دوران ''جیو‘‘ ہی کے ایک مارننگ شو میں ایک قابل ِ اعتراض منقبت کو قابل ِ اعتراض عکاسی کے ساتھ پیش کیا گیا جس نے مذہبی جذبات کو مجروح کر دیا۔اس پر الگ ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا۔اس کے خلاف بھی پیمرا کو ہزاروں درخواستیں موصول ہوگئیں، جگہ جگہ مقدمات درج کرائے جانے اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جانے لگے۔ اب ''جیو‘‘ خود یہ استدعا لے کر سپریم کورٹ پہنچا ہے کہ اس کے (اور جنگ گروپ کے) خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے چینلوں کے خلاف پیمرا کو کارروائی کرنے اور درج کیے جانے والے مقدمات کو یکجا کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔ مزید یہ کہ کیبل آپریٹرز کو جیو کی نشریات بند کرنے سے روکا جائے کہ ''پیمرا‘‘ کی طرف سے حرکت نہ کرنے کے باوجود بہت سی حرکتیں ہو چکی ہیں۔''جیو‘‘ کی نشریات جگہ جگہ بند کی جا چکی ہیں اور کیبل آپریٹرز اس کا جواز برانگیختہ مذہبی جذبات سے تحفظ میں تلاش کررہے ہیں۔اخباری مدیران اور مالکان کی تنظیمات سی پی این ای ، اے پی این ایس اور الیکٹرانک میڈیا کی پی بی اے سے حکومت کی مشاورت کا عمل معطل نہیں ہوا، لیکن حکومت جب تک حکومت نہیں بنے گی، یا خود کو ایسا نہیں سمجھے گی، معاملات کو سلجھانا ممکن نہیں ہو گا۔ ماضی کے الجھائو سے بچتے ہوئے آگے قدم بڑھانے کے لئے جس حوصلے کی ضرورت ہے، اس کے فقدان سے معاملات خراب ہوں گے۔قانون کے تحت قائم ادارے کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں تو پھر قانون کوہاتھ میں لینے والے دھماچوکڑی مچاگزرتے ہیں۔یہ حقیقت سامنے کی ہے کہ پیمرا کی طرف سے کارروائی نہ ہونے کے باوجود کارروائی ہو چکی ہے اور وفاقی حکومت معاملات کو سلجھا نہیں پا رہی۔وہ آئی ایس آئی اور جیو گروپ کو دو فریق قرار دے کر ان میں معاملہ کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی، لیکن اگر معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو خدشہ ہے کہ سانپ زندہ رہے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)