اس بار عید کی نماز بوسٹن سے قریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع شیرن کے اسلامی مرکز میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ مرکز 55 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، لیکن اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی۔ ہال میں 500 افراد بخوبی نماز ادا کر سکتے ہیں، وہاں پہنچے تو تیسری''شفٹ‘‘ کا اہتمام ہو رہا تھا۔ عید کی نماز یہاں کئی مقامات پر کئی بار ادا ہوتی ہے۔ شیرن میں بھی پہلی نماز صبح 7 بجے ادا ہو چکی تھی۔ دوسری کوئی 9 بجے کے لگ بھگ ادا کی گئی، تیسری اور آخری نماز ساڑھے دس بجے ادا کی جانا تھی۔ امریکہ میں نمازِ عید ادا کرنے کے لئے تمام اہل ِ خانہ آتے ہیں، بیگم اور بچے گھر میں بیٹھ کر سویاں نہیں کھاتے۔ اس لئے اہلیہ، بیٹے، بہو اور ان کے بچے قافلے میں شریک تھے۔ خواتین کے لئے ہال کا عقبی حصہ مختص تھا، سنٹر کے صدر نے ایک پُرجوش تقریر کی اور غزہ کے حوالے سے (خاص طور پر) مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ اس کے بعد امام صاحب نے، جو کہ عرب معلوم ہوتے تھے، بارہ تکبیروں کے ساتھ امامت کا فریضہ ادا کیا۔ خطبے کے بعد کئی پاکستانی پہچان کر میری طرف لپکے اور لاہوری معانقوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ یہاں نماز کے بعد رخصت ہونے کی جلدی کم ہی لوگوں کو ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے سے عید ملتے اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ مرکز کے سبزہ زار میں ٹولیوں کی ٹولیاں لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ کئی دوسرے ممالک کے رہنے والے بھی اپنے وجود کا احساس دِلا رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ پورا عالمِ اسلام یہاں سمٹ آیا ہے۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر، متعدد ملکوں سے تعلق رکھنے والے یہاں ایک ہو کر ایک جیسی خوشی منا رہے تھے۔ اشیائے خورونوش بھی دستیاب تھیں۔ ایک عزیزہ کے اصرار پر ہمیں بھی کافی کا پیالہ مُنہ کو لگانا پڑا۔
پاکستانی بھائیوں میں سے اکثر کھانے اور چائے کی دعوت دے رہے تھے، لیکن مجھے ایک دن بعد بوسٹن سے کوچ کر جانا تھا، اس لیے معذرت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ میری نقل و حرکت کی ذمہ داری عمر شامی صاحب پر عائد ہوتی ہے کہ مَیں تو اب لاہور میں بھی کار ڈرائیو نہیں کرتا، امریکہ میں کیسے یہ حرکت کر سکتا ہوں۔ وہ بالعموم خندہ پیشانی سے یہ فریضہ ادا کرتے ہیں اور میری خواہشات کو اپنی مصروفیات پر مقدم جانتے ہیں۔ نئے دوستوں میں سے کئی یہ بوجھ بھی اٹھانے کے لئے بسرو چشم تیار تھے، شرط یہ تھی کہ چائے، اُن کے ہاں پی لی جائے یا کھانا کھا لیا جائے، لیکن وقت تنگ ہو چکا تھا، اس لیے آئندہ کا وعدہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
ہم سبزے پر کھڑے تصاویر بنواتے، اپنے حلقہ احباب میں توسیع پر خدا کا شکر ادا کرتے، سوالات کا سامنا کر رہے تھے۔ ہر پاکستانی کچھ پوچھنا چاہتا تھا، جب کان اس کی طرف متوجہ ہوتے تو معلوم ہوتا کہ الفاظ خواہ مختلف ہوں، سوال ایک ہی ہے۔ یہ سوال ایسا تھا جو گزشتہ ایک ماہ سے پیچھا کرتا آ رہا تھا۔ نیو یارک سے لے کر نیو جرسی تک، واشنگٹن ڈی سی سے کنیکٹیکٹ تک اور بوسٹن سے شیرن تک، جہاں بھی پاکستانی ملے، ایک ہی سوال ان کی زبان پر رہا۔ عمر شامی اس سے اُکتا چکے تھے، لیکن میں مسکراتے ہوئے کہتا تھا، پاکستانی قوم کی فکری وحدت ملاحظہ ہو، کہ نیم خواندہ سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ تک، ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر ہارٹ سپیشلسٹ تک اور ایک طالب علم سے لے کر ایک بڑے دانشور تک، ایک ہی سوال دہرایا جا رہا ہے۔ نمازِ عید کے بعد بھی یہی سوال سامنے کھڑا تھا۔ 14اگست کو پاکستان میں کیا ہو گا؟ ضمنی سوالوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان بھی سمٹ رہے تھے۔ ہر سوال کرنے والے کو یقین تھا کہ ہمارے پاس کوئی ''اندر کی بات‘‘ ضرور ہے۔ ہمیں خوب اچھی طرح پتہ ہے کہ مستقبل کے پردے سے کیا نکلنے والا ہے؟ کون کس کی ڈوریاں ہلا رہا ہے، یا کس کی ڈوریاں خودبخود ہلتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے بھی سوال کنندہ تھے اور اس سے بالکل ناواقف بھی اِسی میں اُلجھے ہوئے تھے۔
مَیں کہ اس سوال کا درجنوں، سینکڑوں بار جواب دے چکا تھا، جب اپنے دل کو ٹٹولتا تھا، تو اس میں بھی یہ سوال آن موجود ہوتا تھا، 14 اگست کو کیا ہو گا؟... لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش تو ہو رہی تھی، لیکن اپنے پاس کوئی ایسا جواب موجود نہیں تھا، جو مجھے مطمئن کر سکتا... ہر جواب سے پھر یہ سوال نکل آتا اور مُنہ چڑاتا۔ اب جبکہ وطن واپسی ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ارشادات سے براہ راست استفادہ ہو رہا ہے۔ عمران خان صاحب کے تیور بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پنجاب حکومت اور وفاقی وزراء کی بدحواسیاں بھی نمایاں ہو رہی ہیں۔ سیاست دانوں کی ملاقاتیں، پریس کانفرنسیں، سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ یہ سوال بدستور جواب کی تلاش میں ہے،جو جواب بھی تلاش کیا جاتا ہے، اس میں سے یہ سوال پھر نکل آتا ہے۔ نیویارک میں جناب عارف سونی کے گھر تو برادرم رئوف کلاسرا کی اوٹ میں پناہ مل گئی تھی۔ سینیٹر طارق چودھری کی گھن گرج بھی خاموشی کا پردہ ڈھانپ گئی تھی، لیکن اب مدد کو کون آئے؟ کون بتائے کہ14اگست کو کیا ہونے والا ہے؟ سب اہل ِقلم کے کالم کھنگال ڈالے ہیں، جواب یہی ہے کہ کوئی جواب نہیں۔ 14 اگست ہی 14 اگست کا جواب دے گا۔
غیبی طاقتوں کا بھید اُسی دن کھلے گا!!!
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)