"MSC" (space) message & send to 7575

عمران خان کا چیلنج؟

ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے انقلابی اور آزادی مارچ لاہور سے روانہ ہو کر بخیرو خوبی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان کے کارواں کو گوجرانوالہ میں پُرجوش مسلم لیگی کارکنوں کے نعروں اور پتھروں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مقامِ شکر ہے کہ کوئی بڑا سانحہ نہیں ہوا۔ چند کارکنوں کو چوٹیں آئیں۔ عمران خان کے کنٹینر اور خورشید محمود قصوری صاحب کی کار کو چند پتھر لگے، لیکن یوں سمجھئے کہ ان کو ''چوم‘‘ کر گزر گئے۔ اسلام آباد پہنچ کر عمران خان نے نمازِ فجر سے کچھ پہلے خطاب مکمل کیا، شدید بارش میں ان کے ہزاروں کارکن جم کر بیٹھے رہے اور اپنی ہمت اور کمٹ منٹ کا ایک گہرا نقش قائم کیا۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے جارحانہ خطاب کیا۔ وزیراعظم، وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت پر تابڑ توڑ حملے کئے۔ جس لہجے میں خادم اعلیٰ شہباز شریف گزشتہ دورِ حکومت میں صدر آصف علی زرداری کو مخاطب کیا کرتے تھے، اس کی یاد ایک مختلف رنگ میں تازہ ہوئی۔ شاہ محمود قریشی کے اندر بھی خاصی شدت اور حدت پیدا ہو چکی ہے، انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو خون لیگ قرار دیا اور اپنے گرم الفاظ سے اپنے (سامنے موجود) حامیوں کو گرمایا۔ ''باغی‘‘ جاوید ہاشمی نے عمران خان وزیراعظم کے نعرے لگوائے اور اعلان کیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔
عمران خان نے اپنے مختصر خطاب میں اپنے اس موقف کو دہرایا کہ وہ نواز شریف کا استعفیٰ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ (ان کے نزدیک) وہ ایسے انتخابات کی بنیاد پر وزیراعظم بنے ہیں، جن میں دھاندلی کی گئی۔ موسلا دھار بارش میں تقریر ختم کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ کل3بجے دھرنا ہو گا اور اب وہ ''جلسہ گاہ‘‘ سے رخصت ہو رہے ہیں۔ ابتدائی اعلانات کے مطابق تو دھرنے کا آغاز ہو چکا تھا اور اس میں کسی وقفے کی گنجائش نہیں تھی۔ خان چالیس گھنٹے سے جاگ رہے تھے، اور ان کا ٹمپریچر(مبینہ طور پر) 102 ہو چکا تھا۔ شاید اس لئے انہوں نے گھر جانے میں عافیت جانی۔ اس فیصلے نے ان کے مخالفوں کو تنقید کا موقع فراہم کر دیا۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں نے فوری طور پر سوالات پوچھنا شروع کر دیئے کہ ہزاروں افراد کو کھلے آسمان کے نیچے چھوڑ کر وہ اور اُن کے ساتھی لیڈر کیوں رخصت ہوئے؟ ان کے نزدیک یہ کارکنوں سے بے وفائی تھی اور ان کی بے سرو سامانی کا مذاق اڑانے کے مترادف تھی... لیکن دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ خان نے وقفے کا اعلان کر کے اپنے آپ کو اور اپنے کارکنوں کو سستانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ دھرنے کے شرکا اِدھر اُدھر جا کر حوائج ضروریہ سے نبٹ سکتے اور تازہ دم ہو کر دوبارہ آ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا قافلہ اس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر خیمہ زن ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی اس کا حصہ ہیں۔ وحدت المسلمین اور سُنی اتحاد کے زعما بھی شانہ بشانہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے (تادمِ تحریر) خطاب نہیں کیا، وہ اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ان کے بقول ان کا اجتماع دھرنا نہیں، انقلابی کارواں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے جانثار (جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں) ہزاروں کی تعداد میں ہیں، وہ انہیں لاکھوں قرار دے رہے ہیں، یہ پاکستانی سیاست کا عام چلن ہے۔ ہر رہنما کو اپنے جلسے بہت بڑے اور مخالفین کے بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں اور دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی رات بھی اپنے عقیدت مندوں کے درمیان نہیں گزری تھی، لیکن اب وہ اعلان کر رہے ہیں کہ کارکنوں کے ساتھ رہیں گے۔ شاید عمران خان کے معاملے سے انہوں نے عبرت حاصل کر لی ہے۔
عمران خان کا آزادی مارچ یقینا وہ تو نہیں تھا، جس کا وہ دعویٰ کرتے چلے آ رہے تھے۔ اس میں دس لاکھ افراد شریک نہیں ہوئے۔ اسے مائوزے تنگ کا لانگ مارچ قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن پاکستان کی تاریخ میں جو لانگ مارچ ہوتے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں اس کا قد لمبا نہ ہو تو بہت چھوٹا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خان صاحب کو داد دی جانی چاہئے کہ وہ تن تنہا میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا کوئی متحدہ محاذ ہے، نہ مذہبی جماعتوں کا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور وہ ایک دوسرے سے تقویت حاصل کر رہے ہیں، لیکن دور دور رہ کر۔ خان صاحب وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ چاہتے ہیں، لیکن وزیراعظم اس پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان کے حامیوں کے نزدیک ''آزادی مارچ‘‘ ناکام ہو چکا ہے۔ دھرنا کس طرح جاری رہتا ہے اور اپنا دبائو کس طرح بڑھاتا (یا کم کرتا) ہے، یہ آنے والے چند روز بتائیں گے۔ فی الحال حالات دگر گوں ہیں۔
عمران خان نے اپنے کارکنوں اور حامیوں کو نئے سرے سے متحرک ضرور کر دیا ہے۔ انتخابی مہم کا سا جوش و خروش ان کے اندر بھر دیا ہے۔ (ڈاکٹر طاہر القادری اپنے طور پر یہ کام اپنے حلقے میں کرگزرے ہیں) انہوں نے حالات کو معمول پر نہ رہنے دینے کی قوت اور صلاحیت کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے برعکس 70لاکھ رائے دہندگان نے ان کی شخصیت کو نئی معنویت عطا کر رکھی ہے۔ اس لئے ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف انتخابی دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل کمیشن کے قیام کا فیصلہ کر کے درخواست چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا چکے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ (کسی نہ کسی لمحے) وہ قبل از وقت انتخابات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو آمادہ کر سکتے ہیں۔
مختلف سیاسی رہنمائوں کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اپنے وزن کو توازن قائم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان سب نے انتخابی دھاندلی کا ہنگامہ اُٹھا کر اور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر، ایک دوسرے کا مُنہ کالا کرنے کی جو کاوش گزشتہ ایک عرصے سے جاری رکھی ہوئی ہے وہ اب ان کا تعاقب کر رہی ہے۔ عام طور پر پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتیں وہاں دھاندلی کا شور مچاتی ہیں، جہاں ان کو دھاندلی کا موقع نہیں ملتا۔ ہمارے اہل سیاست نے شفاف انتخابات کو کبھی اپنی ترجیح اول (عملی طور پر) قرار نہیں دیا۔ مختلف جماعتوں کے جیتے ہوئے حلقوں کو سکین (SCAN) کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ الا ماشاء اللہ سب نے ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے سے بڑھ کر حربے اختیار کئے ہیں۔ نئے کھلاڑی البتہ پرانے کھلاڑیوں کے دائو پیج سے ناواقف ہونے کی بنیاد پر پیچھے رہ سکتے ہیں۔ عمران خان ایک چیلنج بن کر اُبھرے ہیں، لیکن ان کے پاس ویٹو نہیں ہے۔ وہ حالات کو سو فیصد اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا حق نہیں رکھتے، نہ ہی ان کے مارچ یا دھرنے نے انہیں یہ استحقاق عطا کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے پاس''فری ہینڈ‘‘ نہیں ہے۔ افہام و تفہیم سے کام لے کر ہی قدم جمائے یا بڑھائے جا سکتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں