نواز شریف سے استعفیٰ مانگا جا رہا ہے، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں وزیراعظم ہائوس کو اُن سے خالی کرانا چاہتے ہیں۔ آزادی اور انقلاب مارچ شاہراہ دستور پر پڑائو ڈالے ہوئے ہیں اور اپنی مرضی پورے ملک پر مسلط کرنے پر بضد ہیں۔ اول الذکر کو عمران خان صاحب نے ایجاد کیا ہے تو ثانی الذکر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تخلیق سمجھا جا رہا ہے۔کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اُن پر ایک تہمت ہے۔ اس بحث سے قطع نظر، یہ ایک حقیقت ہے کہ لاکھوں افراد جمع کرنے کے جو دعوے کئے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ اسلام آباد سے لاہور تک یا شاہراہ دستور سے زیرو پوائنٹ تک تو کُجا‘ پوری شاہراہ دستور پر بھی سر ہی سر نظر نہیں آ رہے۔ چند ہزار افراد ضرور پُرجوش ہیں، ان کا حوصلہ اور جذبہ بھی قابل ِ داد ہے، لیکن اس کی جو بھی قدر کی جائے ان کی خدمت اقدس میں نظامِ مملکت پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اوّل اوّل تو دونوں مارچوں کے قائدین مذاکرات پر آمادہ ہی نہیں تھے، وہ اپنے اپنے رنگ میں نواز شریف کا استعفیٰ پیشگی شرط کے طور پر مانگ رہے تھے، اُن کا کہنا تھا کہ پہلے استعفیٰ اُن کو دکھایا جائے، پھر وہ بات کریں گے، لیکن آئی ایس پی آر کی طرف سے ''بامقصد مذاکرات‘‘ پر زور دیا گیا، تو پھر ان پر آمادگی ظاہر کر دی گئی، اس اعلان کے ساتھ کہ بات چیت میں بھی استعفیٰ سرفہرست رہے گا۔ اب دونوں جماعتوں کے وفود سے مسلم لیگ(ن) اور اس کے حلیفوں پر مشتمل وفود ملاقاتیں کر رہے ہیں اور جھٹکوں کے باوجود بات چیت کا عمل ٹوٹنے نہیں پایا۔ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری کی تمام تر قادر الکلامی کے باوجود سیاسی دائو پیچ سے ناآشنا ہے اس کے لئے اُسے ادھار کے گرگوں پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسے سانحہ ٔ ماڈل ٹائون نے جذباتی توانائی بخشی ہے اور اس سانحے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی روحیں اس نے اپنی پشت پر کھڑی کر رکھی ہیں، لیکن اس کی جو ایف آئی آر اس کی طرف سے درج کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ پنجاب کے روایتی کلچر کی غماز ہے۔ وزیراعلیٰ اور چند صوبائی وزرائے اعلیٰ تک ہی معاملہ محدود نہیں رکھا گیا، وزیراعظم اور کئی وفاقی وزراء کو بھی ملزم نامزد کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کے دیہی کلچر کے مطابق کسی ایک قتل کی ایف آئی آر میں حقیقی ملزموں کے ساتھ ساتھ ان کے اعزا و اقربا کے نام بھی لکھوا دیے جاتے ہیں، تاکہ کوئی پیروی کرنے والا بھی جیل سے باہر نہ رہے۔ اس حرکت سے کئی بار مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے۔ بے گناہوں کو پھنسانے کی خواہش گناہ گاروں کی رہائی کا ذریعہ یوں بن جاتی ہے، کہ وقوعے کی ڈرامائی تشکیل میں کہیں نہ کہیں غلطی ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے صلاح کار بھی21ملزم نامزد کر بیٹھے ہیں اور ہر ایک کو حوالہ ٔ زنداںکرنے کے در پے ہیں۔ بعض ٹی وی میزبان اور تجزیہ کار ان کی سُر میں سُر ملا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ''جوڈیشل مرڈر‘‘ قرار دینے والے، نواز شریف اور ان کے اسلام آباد میں بیٹھے رفقا کو ذوالفقار علی بھٹو بنانے کے در پے ہیں اور ان کے معاملے میں ''انصاف کے تقاضے‘‘ اُس سے کہیں آگے بڑھ کر پورے کرنا چاہتے ہیں، جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے معاملے میں ہوئے تھے۔ ان بے چاروں کو قانون کی ابجد تک سے واقفیت نہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ بھٹو مقدمے سے سانحہ ٔ ماڈل ٹائون کی تفصیل کس قدر مختلف ہے اور اگر انصاف کی آنکھیں ایک ہزار مرتبہ بھی پھوڑی جائیں تو وہ نواز شریف اور ان کے تمام رفقا کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے سکتا۔ اس سانحے کی تحقیقات یقینا ہونی چاہئیں، ذمہ داروں کو سزا بھی ملنی چاہئے، لیکن کسی زیادتی کے زخم کو زیادتی سے مندمل نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور اُن کے اتحادیوں کی خواہشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر تحریک انصاف کی طرف توجہ کی جائے تو اس کی مذاکراتی ٹیم بڑی مشکل میں ہے۔ کپتان کی ضد اسے یک نکاتی ایجنڈے پر کھڑا کر رہی ہے، جبکہ اس کے اکثر ارکان نئے انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو سیاسی معاملات کی کچھ بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اور پاکستان کا جمہوری عمل بھی اسے پیارا ہے، وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر انتخابی عمل کی خرابیوں کو دور کرنے اور آئندہ انتخابات کو شفاف تر بنانے پر توجہ دی جائے تو انصافی بھائی جمہوریت کو توانا کرنے میں حصہ دار بن سکتے ہیں اور اس حوالے سے اپنے کردار کو یاد گار بنا سکتے ہیں، لیکن اگر انہوں نے نواز شریف کے استعفیٰ پر ضد جاری رکھی، تو پھر وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
کئی دانشور اور ٹی وی میزبان نادیدہ قوتوں سے دن رات ڈرانے میں مصروف ہیں، اگر ان کی بد خبریوں میں ذرہ بھر بھی صداقت ہے تو بھی ''احتجاجیوں‘‘ کے ہاتھ کوئی ''مالِ غنیمت‘‘ نہیں لگے گا۔ نواز شریف اگر خود مستعفی ہو کر اپنی جگہ کسی اور کو بٹھانا چاہیں تو اُن کی مرضی، انہیں اس کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکے گا۔ ایک ایسا وزیراعظم جس کے حق میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوان قرار دادیں منظور کر چکے ہوں، جسے منتخب اداروں میں موجود کل 12میں سے11جماعتوں کی حمایت حاصل ہو۔ قانونی، سماجی اور تجارتی حلقے جس کی پشت پر ہوں، اسے اگر چند ہزار افراد کے احتجاج کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا جائے، تو پاکستان کی وحدت، اس کی سالمیت، اس کے دستور اور اس کے قانون کی اس سے بڑی رسوائی اور بے حرمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ یاد رکھا جائے، ملک سنگ و خشت کے ڈھیر نہیں ہوتے، ان کے اندر موجزن خود توقیری کا جذبہ ہی انہیں توانا و تنو مند رکھتا ہے۔ اگر مرئی یا غیر مرئی ہاتھوں کو اپنی مرضی چلانے کا شوق پیدا ہو جائے اور اُس کے لئے وہ ہر حربہ اختیار کرنے پر خود کو آمادہ کر لیں،تو کسی بھی ملک کے عوام بے توقیری کے گہرے احساس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا ردعمل کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ کسی (مصنوعی یا حقیقی) بحران کا جو بھی حل ڈھونڈنا ہے، وہ کسی اور بحران کا پیش خیمہ نہیں ہونا چاہئے۔ آئین کی رسی کو سختی سے پکڑ کر ہی ہم آگے بڑھ سکیں گے، غیر آئینی ہتھکنڈے، مزید غیر آئینی ہتھکنڈوں کو ہلا شیری دیں گے اور ملک (مسلح یا غیر مسلح) جتھوں کے (مزید) سپرد ہوتا جائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)