"MSC" (space) message & send to 7575

نیا اور پرانا جال

''دھرنا سیاست‘‘ ابھی تک جاری ہے، عمران خان اور ان کے سیاسی کزن ڈاکٹر طاہرالقادری شاہراہِ دستور خالی کرکے ''ڈی چوک‘‘ لوٹ آئے ہیں، واپسی کا یہ سفر جاری رہتا ہے یا ''ڈی چوک‘‘ کا پڑائو طویل ہوجاتا ہے، اس بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ ملک کے بڑے حصے میں بارشوں نے طوفان اٹھادیا ہے، ڈیڑھ سو سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں، بستیاں تاراج ہوگئی ہیں اور شاہراہیں ادھڑ گئی ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا دل اس پر اس طرح پسیجا کہ انہوں نے دھرنا ملتوی کرنے کی اپیل کردی، لیکن ایئرکنڈیشنڈ کنٹینروں میں سونے والوں نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ عمران خان بدستور ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ وزیراعظم کے استعفے کے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے، تادم تحریر طاہرالقادری کا عزم بھی یہی ہے۔ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے پیش رفت کی نوید سنائی جارہی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ البتہ کسی بات چیت کی کوئی خبر نہیں مل رہی۔
تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کی دو دھواں دھار پریس کانفرنسوں نے دھرنے کو خاصا آلودہ کردیا تھا، لیکن خان صاحب دھوئیں کے اس بادل کو (بزعم خود) پھونکیں مار کر اڑاچکے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ کے اجلاس سے بھی خطاب کیا اور اپنا استعفیٰ داغ کر باہر نکل آئے۔ تحریک انصاف کے صدر کے طور پر انہوں نے اپنے چیئرمین کے اشارے پر جو حرکت کی تھی، اس کو بے برکت کرنے کے لئے خود کو آمادہ نہیں کرپائے، لیکن ان کی جماعت کے کسی اور رکن نے استعفیٰ نہیں دیا، یا اپنے استعفے کی منظوری پر زور دیتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔ خان صاحب کے حکم پر شاہ محمود قریشی اپنی جماعت کا نقطہ نظر بیان کرنے پارلیمنٹ کے اجلاس میں پہنچے۔ ''دھرنا خطاب‘‘ میں اعلان کیا گیا تھا کہ شاہ صاحب تقریر کے فوراً بعد باجماعت استعفے دے کر باہر آئیں گے لیکن انہوں نے اس طرح کی کوئی انقلابی جست نہیں بھری۔
وزیراعظم نواز شریف کی پشت پر پوری پارلیمنٹ کھڑی ہے،تحریک انصاف کے علاوہ ہر جماعت اس معاملے میں بلند آواز ہے کہ وزیراعظم کو دھرنے سے دھمکا کر ان کا استعفیٰ نہیں لیا جاسکتا ،یہ غیر آئینی ہے۔ بہت سی آنکھیں، دھرنا سیاست کے پیچھے اور آگے بہت کچھ دیکھ رہی ہیں ۔ جاوید ہاشمی نے تو ڈنکے کی چوٹ کہا تھا کہ خان صاحب کو غیر سیاسی حلقے تصادم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ دھرنا سیاست انہی کے کھونٹے پر جھوم رہی ہے، اس دھماکے کے اثرات واضح تھے کہ ایک اور دھماکہ ہوگیا، چودھری نثار علی خان اور چودھری اعتزاز احسن کی ''جنگ‘‘ حالات کو ایک نئے موڑ پر لے آئی۔ چودھری اعتزاز احسن کی ناقدانہ تقریر کے بعد نثار علی خان کے اندر کا چودھری اس طرح بیدار ہوا کہ انہوں نے ان پر ذاتی حملے کردئیے۔ وزیراعظم کو اس پر ذاتی طور پر معذرت کرنا پڑی، لیکن ان کی معذرت اعتزاز احسن کے جوابی حملے کو نہ روک سکی۔ انہوں نے چودھری نثار علی کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزام لگایا کہ ان کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خان نے جو کہ 1999ء میں سیکرٹری دفاع تھے، نواز شریف کے مقرر کردہ آرمی چیف خواجہ ضیاء الدین بٹ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا... خورشید شاہ نے بھی چودھری نثار کو آستین کا سانپ قرار دیا اور کہا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے خواہشمند ہیں۔نثار علی جوابی تقریر کرنے پر بضد تھے، لیکن وزیراعظم نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا۔ اب وہ پریس کانفرنس پر تلے ہوئے ہیں، اگر انہوں نے پرزور جوابی حملہ کیا تو ان کا راستہ وزیراعظم نواز شریف سے الگ ہوجائے گا، بصورت دیگر وزیراعظم کے قلعے ... پارلیمنٹ ... میں شگاف پڑ سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی کئی آنکھیں اِدھر اُدھر اڑنے (یا لڑنے) کے لئے بے تاب ہیں۔
اسی دوران یہ خبر بھی پھیلی کہ چین کے صدر کا مجوزہ دورہ خطرے میں پڑ گیا ہے، ان کی سکیورٹی ٹیم نے اسلام آبادی دھرنے کا جائزہ لینے کے بعد ''سکیورٹی کلیئرنس‘‘ دینے سے انکار کردیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس اطلاع نے دھرنے والوں کو نفسیاتی طور پر نقصان پہنچایا اور وہ شاہراہ دستور سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ معاملات بگڑ کر سنورتے اور سنورتے سنورتے بگڑ جاتے ہیں۔ دھرنوں کے ذریعے حکومت کے خاتمے کا منصوبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد تجربہ تھا، اس کے منصوبہ ساز باآسانی ہار ماننے پر تیار نظر نہیں آتے۔ اب تک کے واقعات سے واضح ہے کہ وہ نہیں ہوسکا، جس کا خواب دیکھا یا دکھایا گیا تھا، اسی کا نتیجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین جیسا زیرک انسان جھنجھلا کر فوج کی براہ راست مداخلت کی تجویز پیش کر بیٹھا ہے، گویا اپنے عجز کا اعلان کرچکاہے۔ چودھری صاحب دُور کی کوڑی بھی لائے کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں، اوّل الذکر نے ریٹرننگ افسر مقرر کئے تھے، کیانی صاحب کا قصور یہ تھا کہ چودھری صاحبان کو ایک سپاہی نے گنتی کے وقت پولنگ سٹیشن میں جانے سے روک دیا تھا، چودھری صاحب نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ کیانی صاحب ذاتی طور پر اس کے ذمہ دار تھے، ادارے کے طور پر نہیں، گویا انہوں نے گجرات کے ایک پولنگ سٹیشن پر متعین سپاہی کو براہ راست حکم دیا تھا کہ چودھری صاحبان کو دروازے پر روک لینا۔ چودھری صاحب کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ انتخابی مہم کے دوران (یا اس سے پہلے) وہ جنرل پاشا کی شکایت لے کر کیانی صاحب کے پاس گئے تھے کہ وہ موصوف تحریک انصاف کی حمایت کررہے ہیں۔ ایک آرمی چیف کو یوں کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بعد موجودہ آرمی چیف کی طرف اس توقع سے دیکھنا کہ وہ ''دھرنے‘‘ میں شریک ہوجائے گا، چودھری صاحب ہی کا حوصلہ ہے۔ گویا... پرانے شکاری نئے جال میں شکار نہیں پھنسا سکے، اس لئے اب جال پرانا ہی لانا پڑے گا... ہاہاہا
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا ‘‘اور روزنامہ ''پاکستان ‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں