دو روز پیشتر صبح 11بجے کی پرواز سے برادرم عارف نظامی کے ہمراہ کراچی جانا پڑا۔اے پی این ایس کے صدر اور ''ڈان‘‘ کے چیف ایگزیکٹو برادر عزیز حمید ہارون کی والدہ محترمہ پروین سعید ہارون طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔ان کے جنازے میں شرکت اس لئے ممکن نہیں ہو سکی تھی کہ 11ستمبر کو قبل از دوپہر لاہور سے کراچی کے لئے کوئی پرواز ہی شیڈولڈ نہ تھی(اسے جمہوریت کا انتقام کہہ لیجئے یا حُسنِ انتظام)۔ان کے سوئم میں شرکت کے لئے رختِ سفر باندھا۔گزشتہ کئی سال سے حمید ہارون اپنی والدہ کی تیمار داری میں محو تھے۔ان کی تمام مصروفیات اس فریضے کی ادائیگی کے ساتھ مشروط ہوتیں ۔ کوئی بیرونی دورہ ہوتا، تنظیمی سرگرمی یا کوئی ثقافتی یا تقریباتی تقاضا، اندرون ملک سفر یا بیرون ملک ، وہ سب سے پہلے اپنی والدہ کی طبی ضرورت اور سہولت کا جائزہ لیتے اور پھر کوئی وعدہ کرتے یا ارادہ باندھتے۔ والدہ کو علاج کے لئے جب بھی بیرون ملک لے جانا پڑتا، حمید ساتھ ہوتے، اندرون ملک ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا تو تب بھی وہ کسی ملازم یا رشتے دارپر معاملہ نہ چھوڑتے۔ حمید کے بڑے بھائی حسین ہیں جو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب رہے اور اپنی دریا دلی اور مہمان نوازی کی داستانیں وہاں چھوڑ آئے۔ دونوں بھائیوں نے شادی نہیں کی، اس لئے وہ اپنی والدہ کی خدمت ان کی بہو بن کر بھی کرتے تھے اور پوتے بن کر بھی۔والدہ کی دنیا میں ان کی وجہ سے زندگی کی رمق تھی تو ان کی دنیا میں والدہ کی بدولت رونق تھی۔حمید کو ان کے احباب گزشتہ کئی سال سے رشک بھری نگاہوں سے جنت کمانے میں مصروف دیکھتے رہے۔ ان کے والد سعید ہارون، تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، یوسف اور محمود ہارون ان سے بڑے تھے، لیکن اس دنیا کو خیر باد انہوں نے ان سے کہیں پہلے کہہ دیا۔محترمہ پروین نے عشرے بیوگی میں گزار دیئے۔سعید ہارون عملی سیاسیات میں سرگرم تھے، براہ راست انتخابات میں حصہ لیتے اور کراچی کی مسلم لیگی سیاست میں نمایاں رہے۔میری صحافتی زندگی کا آغاز کراچی سے ہوا تو ایک نوجوان اخبار نویس کے طور پر ان کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک عام سیاسی کارکن کی سی بے تکلفی اور کشادہ دلی ان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ تحریک پاکستان سے بقا حاصل کرنے والے معروف اورممتاز ہارون خاندان کا مستقبل اب محمود ہارون کی بیٹی امبر کے ہاں رونق افروز ہے۔
میریٹ کے سامنے عبداللہ ہارون ہائوس میں سینکڑوں سوگوار جمع تھے۔حسین گھٹنوں کے ہاتھوں مجبور بیٹھے تھے اور حمید کی صحت بھی قابلِ رشک نہیں ہے۔ ذیابیطس نے ان کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ لوگ آتے، برائے فاتحہ ہاتھ اٹھاتے اور رخصت ہو جاتے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی آئے، دعائے مغفرت کے بعد دھرنا سیاست چپکے چپکے زیر بحث آ گئی۔ ان کو عمران خان کے حوالے سے شدید تاسف میں مبتلا پایا۔بار بار کہتے کہ مستقبل کا ایک بڑا سیاسی لیڈر اپنی شخصیت کو دائو پرلگا بیٹھا ہے۔اگر وہ استعفے کی ضد میں مبتلا نہ ہوتے اور توجہ انتخابی نظام کی اصلاح پر مرکوز رکھتے تو ان کی شخصیت ایک اور ہی رنگ میں جلوہ گر ہوتی۔ خورشید شاہ شاکی تھے کہ عمران خان نے جو زبان استعمال کی، جس طرح اپنے سے اختلاف رکھنے والوں پر برستے رہے اور جس طرح پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو ہدف تنقید بنایا، اس نے ان کا قد اونچا نہیں کیا۔ خورشید شاہ کے ریمارکس توجہ کے قابل تھے۔ حالیہ دھرنا بحران کے دوران میں ان کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی اور انہوں نے جس طرح واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا، اس نے ان کو بالا کیا۔پیپلزپارٹی پنجاب کے بعض عاقبت نااندیش رہنمائوں کے غم و غصے سے قطع نظر،سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی پالیسی نے اس کے جمہوری چہرے کو دھندلانے نہیں دیا۔ زرداری اقتدار کے مشکل ایام میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اعلیٰ رہنمائوں کے رویئے کی تلخ یادیں ان کو اپنے راستے سے ہٹا نہیں پائیں۔ہارون ہائوس پہنچنے سے پہلے کچھ دیر (عارف نظامی کی بدولت) شوکت ترین صاحب کی صحبت کا لطف اٹھایا۔سلک بینک کے صدر دفتر میں لذیذ مگر مختصر سا لنچ ہمارامنتظر تھا۔ ترین پاکستانی معیشت اور سیاست پر ان مٹ نقوش چھوڑ چکے ہیں۔پیپلزپارٹی دور کا این ایف سی ایوارڈ ان کی وزارت خزانہ کا انتہائی خوشگوار تحفہ تھا۔نوازشریف حکومت کے ابتدائی ایام میں وہ ان کے حلقۂ مشاورت میں نمایاں تھے، لیکن اب کچھ فاصلے پر نظر آئے۔بجھے بجھے سے، اکھڑے اکھڑے سے۔
لاہور سے کراچی آتے ہوئے، بیرسٹر اعتزازاحسن کی رفاقت میسر رہی۔وہ کاروانِ تعزیت کا حصہ تھے۔ یوسف صلاح الدین بھی دھرنے سے لبریز یادوں کے ساتھ موجود تھے کہ انہوں نے گزشتہ چند روز عمران خان کے ساتھ گزارے تھے۔ ان کا کپتان سے خصوصی ذاتی تعلق ہے اور اسی کی وجہ سے وہ دھرنے سے قریبی تعلق استوار کئے ہوئے تھے، لیکن اس طرح کہ ... بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں... اعتزازاحسن کی نشست، میری نشست کے ساتھ تھی۔میں ان سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ نوازشریف سے ان کی رفاقت کب تک قائم رہے گی؟ وہ ان کو ''ڈِچ‘‘ کرنے کی کوشش تو نہیں کریںگے؟ مسکراتے ہوئے بولے کہ معاملہ نوازشریف کا نہیں ہے، ان کو اس کا فائدہ البتہ پہنچ گیا ہے۔ایک ماہر وکیل کی طرح انہوں نے دلائل دینا شروع کر دیئے کہ اس طرح وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کی روش شروع ہو گئی تو ہمارے سیاسی مستقبل کا خدا ہی حافظ ہے۔ لشکروں کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سسٹم کو تہہ و بالا کر دیں۔آج ایک لشکر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا گیا تو کل دوسرا لشکر دوسرے وزیراعظم کے لئے موجود ہوگا اور دارالحکومت لشکریوں کی زد میں رہے گا۔مسئلہ نوازشریف کی ذات اور دھرنوں کے درمیان نہیں، دستور، نظام حکومت اور دھرنوں کے درمیان ہے۔اس لئے ہم کسی بھی حالت میں اور کسی بھی طور لشکریوں کے مقابلے میں وزیراعظم کے منصب کو ہیٹا اور چھوٹا نہیں کریں گے۔وزیراعظم پاکستان کے کروڑوں عوام کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے۔ یہ بہت بڑا منصب ہے، اس کی بے توقیری سے کسی کی توقیر میں اضافہ نہیں ہوگا۔یہی وہ نکتہ ہے جسے ''دھرنا سیاست‘‘میں بار بار نظر انداز کیا جا رہا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جسے ایک لمحے کے لئے بھی نظر انداز کرکے مستقبل کی سیاست کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)