جمعرات،18ستمبر2014ء کو ''برطانیہ عظمیٰ‘‘ کی حدود میں عجب منظر دیکھنے میں آیا۔ 1707ء سے برطانوی وفاق کا حصہ رہنے والے سکاٹ لینڈ کے باشندوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیا۔ دہائیوں سے تحریک چل رہی تھی کہ اس خطے کو ''تاج ِ برطانیہ‘‘ کا بوجھ سر سے اُتار دینا چاہئے۔1934ء میں سکاٹش نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، جو ابتداً داخلی خود مختاری کا مطالبہ کر رہی تھی، لیکن جوں جوں اس کی قوت میں اضافہ ہوتا گیا، اس کے تیور بدلتے گئے۔ 1998ء میں سکاٹ لینڈ کی علیحدہ اسمبلی کا قیام عمل میں آ گیا۔2007ء کے انتخابات میں سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری اور واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت بنانے کی حق دار ٹھہری۔ اس کے انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کہ سکاٹ لینڈ کا مستقبل طے کرنے کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد ریفرنڈم کے انعقاد کے لئے مجوزہ بل کا مسودہ مشتہر کر دیا گیا، جس میں تین متبادلات تجویز کئے گئے تھے، پہلے دو خودمختاری کی حدود سے متعلق تھے کہ ان میں کس قدر وسعت ہونی چاہئے، جبکہ تیسرا واضح طور پر مکمل آزادی کا تھا۔ 2011ء میں ایک بار پھر ایس این پی نے اپنے انتخابی منشور میں ریفرنڈم کا نعرہ لگایا، ان انتخابات میں اس نے129 کے ایوان میں 69نشستیں حاصل کر کے واضح اکثریت حاصل کر لی۔ سوال یہ تھا کہ کیا سکاٹش اسمبلی کو ایسے کسی ریفرنڈم کے انعقاد کا قانونی حق حاصل ہے ، اس کا جواب ماہرین نفی میں دے رہے تھے، سو ''وفاقی حکومت‘‘ سے مذاکرات کا آغاز ہوا اور بالآخر یہ طے پا گیا کہ سکاٹ لینڈ کے لوگوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے، اس مقصد کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی گئی۔ طریق کار اور دیگر تفصیلات طے ہوئیں، پوچھے جانے والے سوال کو واضح اور دو ٹوک بنانے پر اتفاق ہوا۔ ''کیا سکاٹ لینڈ ایک آزاد ملک ہونا چاہئے‘‘۔ رائے دہندگان اس کے حق میں یا خلاف ووٹ دے سکتے تھے۔
42لاکھ سے زائد سکاٹس نے ووٹ کا حق استعمال کیا، گویا ٹرن آئوٹ84.59فیصد رہا۔ 44.7فیصد نے آزادی کے حق میں، جبکہ55.3فیصد نے برطانیہ عظمیٰ کا حصہ رہنے کے لئے ووٹ دیا اور یوں آزادی کا خواب پریشان ہو گیا۔ سکاٹ لینڈ بدستور اپنی قسمت لندن سے منسلک رکھے گا اور صدیوں پہلے لڑی جانے والی لڑائیوں کو اپنے مستقبل کا حصہ نہیں بننے دے گا۔ اس پر لندن کے ساتھ ساتھ واشنگٹن میں بھی اطمینان کا سانس لیا گیا کہ ''برطانوی وفاق‘‘ کے بکھرنے کو امریکی زعما بھی اپنی پریشانی بنائے ہوئے تھے۔ امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی کی کمزوری کو اس کی اپنی کمزوری سمجھا جا رہا تھا۔
برطانیہ میں چلنے والی علیحدگی کی اس تحریک کو اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ سکاٹش حکومت اس کے حق میں پورا زور صرف کر رہی تھی، اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جا رہا تھا کہ علیحدگی پسندوں کے دلائل پوری قوت کے ساتھ ووٹروں تک پہنچ جائیں۔ بی بی سی سکاٹش حکومت کی زد میں تھی، سکاٹ لینڈ میں اس کے سربراہ کو اسمبلی میں بُلا کر اس کی سرزنش کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ یہ علیحدگی کے خلاف تعصب کا ثبوت دے رہا ہے۔ بی بی سی نے اس الزام کو قبول نہیں کیا، اس کی طرف سے اپنی معروضیت پر زور دیا جاتا رہا۔ علیحدگی کی کسی تحریک کے لئے ایسی مراعات کا تصور شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں کیا جا سکے۔ پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ رائے دہندگان نے اپنی رائے کا اظہار کیا، نتائج سامنے آتے ہی آزادی کے علمبرداروں کا سر تسلیم خم تھا۔ سکاٹش نیشنل پارٹی نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے نتائج کو تسلیم کر لیا تھا۔
ایک طرف ووٹ کی طاقت سے یوں معاملات طے ہو رہے تھے، تو دوسری طرف اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے جاری تھے۔ مذاکرات کے کئی ادوار بھی فریقین کو قریب لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ وزیراعظم کے استعفے پر ہر دو جماعتوں کا اصرار جاری ہے اور وزیراعظم کی طرف سے انکار بھی جوں کا توں ہے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس کئی روز جاری رہنے کے بعد ختم ہو گیا ہے، دھرنوں کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کی کوشش کو اس نے غیر آئینی قرار دے کر، وزیراعظم کی پشت پر اپنے آپ کو کھڑا کر دیا ہے۔ منصفانہ انتخابات اور مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے عمران خان کے مطالبات کو وسیع پذیرائی حاصل ہے، لیکن ''استعفیٰ بذریعہ دھرنا‘‘ کو بھرپور حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ بھاری اکثریت اسے آئین سے بالاتر اقدام قرار دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی بھی شہری یا جماعت صدر، وزیراعظم یا کسی وزیر سے استعفے کا تقاضا کر سکتی ہے۔ یہ بذات خود غیر آئینی نہیں ہے، لیکن اس پر ان کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ جب بیان سے بڑھ کر بات اقدام تک پہنچ جائے، تو پھر اسے آئینی قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔
برصغیر پاک و ہند کی سیاست برطانوی حکمرانوں کی آغوش میں پروان چڑھی ہے، پارلیمانی نظام انہی کا عطا کردہ تحفہ ہے، لیکن برطانوی سیاست دانوں کی معاملہ سازی کی روایت ہمارے ہاں مستحکم نہیں ہو پائی۔ بھارت کو دیکھ لیجئے، اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کا شوق ہے، لیکن کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دینے پر وہ تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے سامنے ریفرنڈم کا جو عہد اُس نے کیا تھا، اُسے پورا کرنے سے انکاری ہے۔ ہزاروں کشمیری شہید کئے جا چکے۔ ہزاروں کئی بار جیلیں بھر چکے، ہولناک جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا چکا، لیکن سامراجی ہتھکنڈوں کا استعمال جاری ہے۔ سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم نے کشمیر کے ریفرنڈم کو ایک نیا جواز فراہم کر دیا ہے۔ برطانوی حکمران اس طرف بھی متوجہ ہوں کہ جو مسئلہ ان کے ''بزرگوں‘‘ کا پیدا کردہ ہے، اُس سے وہ خود کو لاتعلق کیسے رکھ سکتے ہیں؟
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)