"MSC" (space) message & send to 7575

بیلٹ بکس اور جلسہ

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری بدستور ''دھرنا زن‘‘ ہیں، اگرچہ کہ دونوں دھرنے اپنی ابتدائی ہیبت کھو چکے، لیکن پھر بھی انہوں نے آخری ہچکی نہیں لی۔خان صاحب گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تین جلسوں کا انعقاد کر چکے۔کراچی اور لاہور سے ہوتے ہوئے میاں والی پہنچے اور ہر جگہ اپنے وجود کا احساس دلایا۔کہیں بھی ان کا جلسہ ناکام نہیں رہا۔ چند روز کے نوٹس پر طلب کئے جانے والے جلسوں میں لوگوں کا اژدحام یہ ثابت کرتا تھا کہ دھرنے نے اگرچہ کہ اعلان شدہ ہدف حاصل نہیں کیا، یعنی وزیراعظم کا استعفیٰ حاصل نہیں کر سکا، لیکن اس کے باوجود ''انصافیوں‘‘ کی سیاست پسپا نہیں ہوئی۔ ان میں جوش و خروش بدستور موجود ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس میں اضافہ ہو چکا ہے۔ پہلے جو کام وہ بڑی تیاریوں کے ساتھ کرتے تھے، اب تیاری کے بغیر کرنے لگے ہیں۔پہلے بڑے جلسے کا انعقاد ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالنے کے مترادف تھا، اب یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہو چکا ہے۔اِدھر آواز دی، اُدھر لوگ اُمڈ آئے۔ میانوالی میں تو خواتین کی بڑی تعداد بھی جلسہ گاہ میں موجود تھی، اسے اس شہر کی تاریخ کا عجوبہ قرار دیا جا رہا تھا۔ نوجوان میڈیا پرسنز گلے اور پھیپھڑوں کا پورا زورلگا کر یہ خبر دور دور پھیلا رہے تھے کہ پہلی بار میانوالی کے کسی جلسے میں خواتین کا پنڈال بنایا گیا اور انہیں نعرہ زن پایا گیا ، لیکن بڑے بوڑھوں نے یہ خبر دی کہ محترمہ فاطمہ جناح جب اپنی صدارتی انتخابی مہم میں یہاں آئی تھیں اور پورا شہر ان کے استقبال کو اُمڈ آیا تھا تو عورتیں بھی پیچھے نہیں تھیں۔وہ مردانہ وار میدان میں نکلی تھیں اور نئی تاریخ رقم کردی تھی۔ تحریک انصاف کے ایک نقاد نے تو یہ خبر بھی دی کہ عمران خان کے گزشتہ جلسے میں بھی خواتین موجود تھیں، اس لئے اسے پہلا واقعہ قرار نہ دیا جائے۔اس بحث میں الجھے بغیر، یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ جلسے نے اپنا آپ منوایا۔ میاں والی جو خان کا ہوم ٹائون ہے، جس نے 2002ء میں انہیں اس وقت اپنی نمائندگی کا حق دیا تھا، جب ملک کے کسی حصے سے تحریک انصاف کا کوئی اور رکن کامیاب نہیں ہوسکا تھا، اب بے اعتنائی کی شکایت بھولنے پر تیار ہے۔2013ء کے انتخاب میں یہاں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد خان نے یہ نشست خالی کر دی تھی اور یہاں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نے قبضہ جما لیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں عمران تین نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے، میاں والی ان کا آبائی شہر تھا، جبکہ پشاور اس خیبرپختونخوا کا دارالحکومت تھا جس نے انہیں اپنے صوبے میں حکومت کرنے کا حق دے دیا تھا۔راولپنڈی میں وہ مہمان تھے، لیکن انہوں نے حنیف عباسی کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ حنیف عباسی پہلی بار جماعت اسلامی کے ذریعے اسمبلی تک پہنچے تھے، بعد میں مسلم لیگ(ن) کے ذریعے انہوں نے اپنے آپ کو مستحکم کیا اور شیخ رشیدکے مقابلے میں خم ٹھونک کر آ گئے۔ لگتا تھا کہ جناب شیخ کی سیاست کو انہوں نے بھسم کر دیا ہے اور اب تادیر ان کا طوطی بولتا رہے گا۔ لیکن عمران خان نے ان کے مقابلے کی ٹھان لی اور ان کے ساتھ وہی سلوک کیا، جو وہ شیخ صاحب کے ساتھ کر چکے تھے۔عمران خان نے راولپنڈی کی نشست اپنے پاس رکھی، پشاور اورمیاں والی کی محفوظ نشستیں ضمنی انتخاب کے سپرد کر دیں، دلچسپ حادثہ یہ ہوا کہ دونوں جگہ ان کے نمائندے ہار گئے۔ پشاور میں غلام احمد بلّور کا مردہ زندہ ہو گیا تو میاں والی میں شادی خیل کی خانہ آبادی ہو گئی۔ عمران خان نے کراچی اور لاہور کے فوراً بعد میاں والی کا رخ شاید اس لئے کیا کہ وہاں کے لوگوں سے تعلق کو از سر نو استوار کر سکیں۔لگتا ہے کہ اس شہر نے اس بے اعتنائی کو معاف کردیا ہے اور اب ایک بار پھر وہ اسے اپنا قرار دے سکتے ہیں۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ عمران خان عید کی نماز ڈاکٹر طاہرالقادری کی امامت میں ادا کریں گے اور ''دھرنا گاہ‘‘ ہی کو قربان گاہ بنا دیں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کئی ''دھرنا قیدیوں‘‘ کی رہائی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔سندھ اور پنجاب کے کئی شہروں کے باسیوں کو واپسی کا حکم یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ وہ جا کر ان کے جلسوں کے انتظامات کریں۔عمران خان کے جلسوں سے شہ پکڑ کر قادری صاحب بھی جلسوں پر تُل گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی عوامی تحریک کو باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے کا فرمان بھی جاری کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر انتخاب میں حصہ لیں گے، بلدیاتی، صوبائی اور قومی اداروں کے لئے نمائندے کھڑے کریں گے اور ان کی امیدواری کا فیصلہ مقامی کارکنوں کے ذمے ہوگا۔قادری صاحب 2002ء کے انتخابات میں بھی پوری توانائی کے ساتھ حصہ لے چکے ہیں، اس سے پہلے پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں بھی انہوں نے سرگرمی دکھائی تھی ، ان کے تخلیق کردہ پوسٹر اب تک لوگوں کو یاد ہیں، جن پر جلی حروف میں پرویز مشرف کو مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ جی ہاں، قوم کو آپ کی ضرورت ہے۔ قادری صاحب کو امید تھی کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے سر پر اس طرح ہاتھ رکھے گی کہ وزارتِ عظمیٰ ان کے قدموں میں ہوگی۔لیکن قرعہ فال (ق) لیگ کے نام نکل آیا۔ قادری صاحب کے اکثر امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔وہ خود اسمبلی میں پہنچ گئے لیکن ان کا دل اچاٹ ہو گیا۔جلد ہی لاحول پڑھتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ پاکستان سے کینیڈا پہنچ گئے، وہاں کی شہریت حاصل کرلی اور یہ سمجھا جانے لگا کہ اب وہ کوچہ ء سیاست میں کسی طور قدم نہیں رکھیں گے۔لیکن کرنا خدا کا یہ ہے کہ وہ پھر پاکستان میں ہیں، اپنی تنظیمی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں اور ایک بار پھر اپنی جماعت کو انتخابی اکھاڑے میں اتارنے کا فیصلہ کرکے داد طلب نگاہوں سے ہر طرف دیکھ رہے ہیں۔ان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے کہ دستور کے دائرے میں جدوجہد کرنے اور ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کرنے کا حق ہر پاکستانی کو حاصل ہے۔ نوازشریف اور زرداری صاحبان ہی کی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اپنے جوہرآزما سکتے ہیں۔دیکھنا یہ ہوگا کہ عمران خان اور قادری اتحاد انتخابات کے دوران بھی قائم رہتا ہے یا وہ اپنا اپنامورچہ الگ لگاتے ہیں۔ اگر دونوں مل کر چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی ''روحانی‘‘توانائی کے ساتھ آگے بڑھے تو ان کی طاقت میں ڈھیروں اضافہ ہو جائے گا، لیکن اگر انہوں نے الگ الگ انتخابی مارچ کا فیصلہ کیا تو بھی ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اچھی خبر یہی ہے کہ انتخاب کے بغیر اقتدار کا راستہ کھولا نہیں جا سکا۔ جلسے خواہ ہزاروں کے ہوں یا لاکھوں کے،بیلٹ بکس پر اثر انداز تو ہو سکتے ہیں، اس کا متبادل نہیں بن سکتے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں