بنگلہ دیش سے المناک خبریں آتی چلی جا رہی ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئی تھی کہ مطیع الرحمن نظامی کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ نظامی صاحب نے پروفیسر صاحب کے بعد جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی امارت کا منصب سنبھالا تھا اور اب تک یہ ذمہ داری اُن کے پاس ہے۔ متحدہ پاکستان میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، ذہانت اور صلاحیت نے انہیں ممتاز بنا دیا تھا۔مشرقی پاکستان میں طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان وہ فاصلہ برقرار نہیں رکھا جاتا تھا جس کا اہتمام مغربی پاکستان میں کیا جاتا ۔ وہاں طالب علم رہنما کھلم کھلا سیاسی جماعتوں کے ساتھ سرگرم نظر آتے تھے۔ یحییٰ خانی مارشل لاء کے دوران جنوری1970ء میں انتخابی مہم کا آغاز ہوا تو جماعت اسلامی نے اپنا پہلا عام جلسہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میںمنعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ پروفیسر غلام اعظم اور مطیع الرحمن نظامی پُرجوش تھے کہ اس جلسے سے جماعت اسلامی کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ ڈھاکہ میں طلبہ کنونشن کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ خیال تھا کہ پورے مشرقی پاکستان سے جمع ہونے والے طالب علم جلسے کی طاقت اور رونق کا سامان بن جائیں گے۔ مَیں ایک اخبار نویس کے طور پر اس ''تاریخی اجتماع‘‘ کی کوریج کے لئے پہلی بار ڈھاکہ پہنچا اور پور بانی ہوٹل میں قیام پذیر ہو گیا، جو شہر کے وسط میں واقع تھا۔ مقررہ دن بڑے ذوق و شوق سے پلٹن میدان کی طرف روانہ ہوئے، لیکن وہاں منظر ہی دوسرا تھا۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے جلسہ گاہ کو گھیر رکھا تھا، ڈنڈوں اور پتھروں کے ساتھ یہاں پہنچنے والوں کی تواضع ہو رہی تھی۔ محشر کا سماں تھا، سٹیج پر موجود لوگوں کی آوازیں مدھم پڑ گئی تھیں۔ مولانا ابو الاعلی مودودی ؒ ابھی یہاں نہیں پہنچے تھے، اُن کو راستے ہی میں روک دیا گیا اور وہ اپنے میزبان کے ہاں لوٹ گئے۔ جلسے کا انعقاد نہ ہو سکا، عوامی لیگ نے گویا اعلان کر دیا کہ اس شہر میں اس کے کسی مخالف کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس کے بعد مولانا مودودی ؒ وہاں کسی بھی اجتماع سے خطاب نہ کر سکے۔ان سے ملاقات ہوئی تو وہ شدید تشویش میں مبتلا تھے۔ مستقبل کے حوالے سے ان کے خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا۔
جس انتخابی مہم کا آغاز اس طرح ہوا،وہ آگے کس طرح بڑھی ہو گی، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کئی موڑ مڑ کر، حالات کو اس مقام تک پہنچا دیا گیا کہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی واحد نمائندہ جماعت بن گئی۔ انتخابی نتائج نے (دو کے علاوہ) تمام نشستیں اس کی جھولی میں ڈال دی تھیں۔1954ء میں مشرقی بنگال کے مسلم لیگی وزیراعلیٰ کے طور پر، متحدہ محاذ کے ایک طالب علم رہنما کے مقابلے میں انتخابی شکست کھا جانے والے نورالامین اب قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے۔ ان کے علاوہ چٹا کانگ کے چکمہ قبائل کے سربراہ راجہ تری دیو رائے کو ہرایا نہیں جا سکا تھا۔300 کے ایوان میں مشرقی پاکستان کی (آبادی کی بنیاد پر)162نشستیں تھیں جن میں سے160عوامی لیگ نے فتح کر لی تھیں۔ گویا سیاسی طور پر اُس نے اپنا نام مشرقی پاکستان رکھ لیا تھا۔ اُس کے مقابلے میں مغربی پاکستان کے چاروں (نئے) صوبوں کی مجموعی نشستیں 138 تھیں۔ عوامی لیگ کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو چکی تھی اور اس نے اپنی مرضی کا دستور مسلط کرنے کی قدرت حاصل کر لی تھی۔
جنرل ایوب خان1956ء کے اس دستور کی تنسیخ کے بعد برسرِ اقتدار آئے تھے جسے عوام کے منتخب نمائندوں نے9سال کی مغز ماری کے بعد تخلیق کیا تھا۔ اس کے بنیادی ستون یہ تھے (1)پارلیمانی نظام،(2) بالغ رائے دہی کی بنیاد پر یک ایوانی مقننہ(3) مغربی پاکستان میں صوبوں کا انضمام(4) مشرقی اور مغربی صوبوں کی قومی اسمبلی میں مساوی نمائندگی۔ایوب خان نے ملک کو ایک نیا دستور عطا کیا جس کے تحت بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا۔ مغربی پاکستان کی وحدت اور دونوں صوبوں کے درمیان مساوی نمائندگی (Parity) کو البتہ قائم رکھا گیا۔جب ایک مخالفانہ تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کے لئے برسر اقتدار رہنا ممکن نہ رہا تو انہوںنے مخالف سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے دیے گئے دستور میں ترامیم کر کے اسے56ء کے دستور کے مطابق بنانا چاہا تو فوجی قیادت نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ کمانڈرانچیف ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے صدر کی ہدایات پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں تھے، سو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے دستور میں ترمیم کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ بیمار اور شکستہ ایوب خان نے جنرل یحییٰ خان کے سامنے ہتھیار ڈال کر اقتدار انہیں سونپ دیا۔ اپنا بنایا ہوا دستور اپنے ہاتھوں ہی دفن کر ڈالا کہ اس کے تحت اقتدار قومی اسمبلی کے (بنگالی) سپیکر ہی کو سونپا جا سکتا تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے دوسری بار دستور کی تنسیخ کا تمغہ افواجِ پاکستان کے سینے پر لگایا اور اپنے آپ کو ''قادرِ مطلق‘‘ قرار دے ڈالا۔ گزشتہ11سال میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی دوریاں واقع ہو چکی تھیں، ایسی سیاسی جماعتیں زور پکڑ رہی تھیں جو دونوں حصوں میں جڑیں نہیں رکھتی تھیں۔ اہل ِ سیاست اور دانش کی ایک بڑی تعداد نے نئے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو مشورہ دیا کہ1956ء کا دستور بحال کر دیا جائے۔آئین سازی کی بھٹی میں ایک بار پھر قومی سیاست کو نہ ڈالا جائے کہ یہ کندن بن کر نہیں نکل پائے گی، اس کے بھسم ہونے کا خدشہ شدید ہے۔ فوجی (بد) دماغوں نے ایک نہ سنی اور نیا آئین بنانے کے لئے انتخابات کا اعلان کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ لطف یہ کہ مغربی پاکستان کی وحدت ایک حکم نامے کے ذریعے ختم کر دی گئی اور یہاں چار صوبے قائم ہو گئے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان قائم کیا جانے والا مساوی نیابت کا اصول بھی توڑ ڈالا گیا۔ مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دے کر نئی دستوریہ میں عوامی اکثریت عطا کر دی گئی، گویا دستور کا بڑا حصہ خود ہی تحریر کر دیا۔
لیگل فریم ورک آرڈر میں یہ کہیں درج نہیں تھا کہ نئے آئین کو دو تہائی اکثریت سے بنایا جائے گا، یا ہر صوبے کی منظوری اس کے لئے ضروری ہو گی۔ گویا سادہ اکثریت کے ذریعے آئین سازی کی جا سکتی تھی۔ اس طرح وفاقیت کے مسلمہ ضابطوں کو تاراج کر دیا گیا۔ انتخابات کے بعد جب عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی تو نیا دستور اس کے رحم و کرم پر تھا۔ اس کے چھ نکات فیڈریشن کو کنفیڈریشن کے قریب لانا چاہتے تھے اور مغربی پاکستان کے چار صوبے صوبائی خود مختاری کی ان حدود کے متحمل نہ ہو سکتے تھے۔ افہام و تفہیم کے تاثر کی یکسر نفی کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں عوامی لیگ کے منتخب ارکان کو جمع کر کے ان سے حلف لے لیا کہ وہ چھ نکات میں کوئی ترمیم نہیں ہونے دیں گے، انہیں حرف بحرف منوائیں گے۔
بدقسمتی سے جنرل یحییٰ خان اور ان کے ٹولے نے پنجاب اور سندھ سے بھاری اکثریت حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی پشت پناہی سے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اپنے رائے دہندگان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی کہ فوجی قیادت ان کی اکثریت کو قبول کر کے انہیںاقتدار منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے۔ معاملہ دستور کا تھا، لیکن جھگڑا اقتدار کا پڑ گیا۔ عوامی لیگ کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز ہوا تو وہ اسے مشرقی پاکستان پر لشکر کشی کا رنگ دینے میں کامیاب ہو گئی۔ بھارت اور سوویت یونین کی شہ بھی اسے میسر تھی۔
سو مشرقی پاکستان کے عوام اور مغربی پاکستانی فوج کے درمیان جنگ نے تاریخ کو بدل ڈالا۔ جماعت اسلامی ان جماعتوں میں شامل تھی جنہوں نے اس لڑائی کو بھارت اور پاکستان کے درمیان سمجھ کر پاکستان کا ساتھ دیا، جبکہ عوامی لیگ اور اس کے رہنما اسے غاصب فوج سے معرکہ قرار دے رہے تھے۔ اس جنگ اور اس سے پہلے ہونے والی خانہ جنگی میں وہ سب کچھ ہوا جو ہوا کرتا ہے۔ ہزاروں لوگ مارے گئے،عورتیں رسوا ہوئیں، جائیدادیں تاراج ہوئیں، بے لگام جتھے ایک دوسرے سے الجھے۔ بھارتی فوج کی معاونت نے بالآخر بنگلہ دیش کو جنم دے دیا۔
پاکستان کے فوجی اور سول کارندے تو بھارت کی قید سے گزر کر(مغربی) پاکستان پہنچ گئے، بنگلہ دیش کی نئی قیادت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے بھی گریزاں ہو گئی، لیکن اپنے سیاسی مخالفین کی مشکیں کسنا شروع کر دیں۔ ان کا کڑا امتحان تھا، لیکن پھر نئے ملک کو تقسیم کرنے اور اس کی آبادی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے نئی خانہ جنگی کی بنیاد رکھنے سے گریز کرنے کا فیصلہ ہوا۔ عام معافی دے دی گئی اور بنگلہ دیش کی سیاست میں ٹھہرائو پیدا ہوتا گیا۔ اب ان واقعات کو 40سال گزرنے کے بعد1971ء کی وارداتوں کی بنیاد پر کارروائیاں شروع ہیں۔ من مانے ملزموں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا جا رہا ہے اور پھانسی گھاٹ آباد کئے جا رہے ہیں۔ قانون اور انصاف انگشت بدنداں ہیں کہ دن دیہاڑے یہ ناٹک رچانے والے کس طرح دندنا رہے ہیں، دنیا ان کا گربیان تو کیا پکڑتی، ہاتھ پکڑنے سے بھی قاصر نظر آ رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر گرفتار کئے جانے والے اور پھانسیوں کے مستحق گردانے جانے والے واقعی سیاہ کار تھے تو پھر انہیں اُس وقت کیوں نہیں اس سلوک کا مستحق گردانا گیا جب بنگلہ دیش نیا نیا قائم ہوا تھا۔ اس کے حامیوں میں اُس وقت غم و غصہ زیادہ ہونا چاہئے تھا، ان کے مجرم ان کی آنکھوں کے سامنے زندہ نہیں رہنا چاہئیں تھے۔ اس وقت ہجوموں کو آگے بڑھ کر ان کے گھر مسمار اور ان کے دفاتر تاراج کر دینا چاہئیں تھے اُن سے حق ِ زندگی چھین لینا چاہئے تھا۔ ان میں سے ایک ایک کو دبوچ بلکہ نوچ لینا چاہئے تھا۔ یہ کس طرح ممکن ہوا کہ چار دہائیوں تک تو آج کے''مجرم‘‘ آزادی سے رہیں، انتخاب لڑیں، اسمبلیوں میں پہنچیں، وزارتیں بھی حاصل کر لیں اور پھر اچانک حسینہ واجد اور ان کے ہم نوائوں کو خواب آ جائے کہ بنگلہ دیش کے ''غدار‘‘ زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتے، ان کو ٹانگ دینا چاہئے۔ کیا یہ سب کچھ کھلم کھلایہ اعلان نہیں کر رہا کہ جو کچھ اب ہو رہا ہے، یہ سب گھٹیا اور خود غرصانہ سیاست کا کرشمہ ہے۔ کیا حسینہ واجد اس طرح اپنے والد محترم کے راستے سے انحراف نہیں کر رہیں؟ وہ کام نہیں کر رہیں، جسے شیخ مجیب الرحمن نے کرنے سے انکار کیا تھا۔ کیا اس حرکت کو اپنے مخالفوں سے خوفزدگی کا نتیجہ قرار نہیں دیا جائے گا؟ عوامی لیگ اور اس کے انتہا پسند یہ سوچ لیں کہ، آج جسے وہ کامیابی سمجھ رہے ہیں، دراصل یہ اُن کی بزدلی( یا ناکامی) کا اعلان ہے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)