"MSC" (space) message & send to 7575

سانحۂ پشاور کے بعد

16دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میں بچوں کے خون سے جس طرح ہولی کھیلی گئی، اس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس گھنائونی واردات کی نظیر تاریخ انسانی میں شاید ہی تلاش کی جا سکے۔ نفسیاتی مریضوں نے کئی بار بچوں کو نشانہ بنایا، دہشت گردی کی کارروائیوں نے کئی بار انہیں بھی لپیٹ میں لے لیا، لیکن کوئی ایسی کارروائی جس کا مقصد ہی بچوں کا خون بہانا ہو، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ دہشت گردوں نے بچوں کے گلے کاٹے، ان کے سر قلم کئے ، ان پر گولیاں برسائیں، ان کے سامنے ان کی معلمہ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ وحشت اور درندگی کا جو بھی مظاہرہ ممکن تھا، وہ کر دکھایا۔ فوجی جوانوں کی برق رفتاری نے سینکڑوں جانیں بچا لیں اور حملہ آوروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا دیا... لیکن اس حادثے نے پاکستان کی روح پر جو زخم لگائے ہیں، ان کا گھائو کبھی نہیں بھر سکے گا۔
16دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ دن ہے کہ 43سال پہلے اسی دن سقوطِ ڈھاکہ کا المیہ پیش آیا تھا، اب اسے سانحہء پشاور کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ پاکستانی قوم پر اس کے وہی اثرات مرتب رہے ہیں جو 9/11 کے بعد امریکہ پر مرتب ہوئے تھے۔ پوری دنیا میں پاکستان کے غم کو محسوس کیا گیا، ہمارے ہمسائے بھارت کی سول سوسائٹی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی، وہاں کے سکولوں میں شہدائے پشاور کے لئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ لوک سبھا میں دکھ کا اظہار ہوا، گویا بھارتی نیتائوں کے اندر کا انسان بھی جاگ اٹھا۔
وزیراعظم نوازشریف نے فوری طور پر پشاور پہنچ کر کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کا اعلان کر دیا، تمام سیاسی رہنما ان کی آواز پر کھنچے چلے آئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اس میں شریک ہوئے، مشترکہ لائحہ عمل تیار ہوا۔ پریس کانفرنس میں وزیراعظم اور ''حقیقی‘‘ قائد حزب اختلاف عمران خان ساتھ بیٹھے اور بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، ہر پاکستانی کی جنگ ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف بلا تمیز کارروائی کی جائے گی۔ کوئی ''اپنا‘‘ ''پرایا‘‘ نہیں ہوگا، کوئی ''اچھا‘‘ یا ''بُرا‘‘ نہیں ہوگا، گویا پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف جارحانہ کارروائی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، یہاں رہنے والے کسی شخص کو اس کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ پرتشدد کارروائیوں کا ارتکاب (یا ان کی منصوبہ بندی) کرے۔ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ایکشن پلان بنانے کی غرض سے ایک کل جماعتی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے وزیرداخلہ کے زیر صدارت اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے ،وہ ایک ہفتے کے اندر اندر اپنی تجاویز کو آخری شکل دے کر پیش کر دے گی۔ اس قومی عزم کا اظہار بھی ہوا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ بعد میں اسلام آباد پہنچ کر عمران خان نے اپنے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کرکے مفاہمانہ روش کو مزید تقویت دے کر اپنا قد اونچا کر لیا۔
کل جماعتی کانفرنس جاری تھی کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ کابل پہنچے، صدر اشرف غنی اور ایساف کمانڈر سے ملاقاتیں کیں، انہیں وہ شواہد پیش کئے جو سانحۂ پشاور کے افغانستان میں بیٹھے ہوئے منصوبہ سازوں کی نشاندہی کررہے تھے ۔ان سے مطالبہ کیا کہ انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے یا جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔صدر اشرف غنی کے انتخاب کے بعد افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں جوہری تبدیلی کا احساس ہوا ہے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے داخلی استحکام کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ کابل حکومت پاکستان میں موجود افغان مجاہدین کے بارے میں سوالات اٹھاتی اور مطالبات دہراتی رہتی تھی، اب منظر یوں تبدیل ہوا ہے کہ پاکستان افغان سرزمین کے ناروا استعمال کے نتائج بھگت رہا ہے۔
حکومت اور فوج کی سطح پر تیز رفتار اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 6سال سے سزائے موت پر عملدرآمد رکا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے عدالتوں سے سزا پانے والے کسی شخص کو یورپی یونین کی ''فرمائش‘‘ پر پھانسی نہیں چڑھایا، یہ روایت مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے بھی برقرار رکھی ہے۔ اس وقت ملک کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے آٹھ ہزار قیدی موجود ہیں، جن میں چند سو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو کسی رحم یا رعایت کا مستحق نہیں سمجھا جائے گا۔یورپی یونین کی تجارتی مراعات کی اہمیت اپنی جگہ ،لیکن جان کی حفاظت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور جی ایچ کیو پر حملوں میں ملوث دو افراد کو فیصل آباد میں پھانسی پر لٹکا بھی دیا گیا ہے۔ اس طرح ریاستی سطح پر شدت اور استقامت کا پیغام دیا جا چکا ہے۔ کئی اور افراد بھی آئندہ چند روز میں اسی حشر سے دوچار ہوں گے۔ اس طرح قوم کی نفسیاتی آسودگی کا سامان تو ہو جائے گا، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ محض اس ایک اقدام سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ جیلوں سے باہر دندنانے والوں کا مسلسل تعاقب جاری رکھنا ضروری ہے۔ دہشت گردی نے گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان کی سرزمین پر اپنی جڑیں پھیلائی اور مضبوط کی ہیں، اس کا کسی ایک کارروائی، کسی ایک فیصلے یا کسی ایک اقدام سے خاتمہ ممکن نہیں، اس کے لئے مختلف شعبوں میں مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔ یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے، اس کی طوالت سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ حکومت، سیاست، عدالت اور صحافت کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر قدم بڑھانا ہوں گے، کسی ایک کی بھی کوتاہی سب کی ناکامی ثابت ہو سکتی ہے۔
دہشت گردی آج پاکستانی ریاست ہی نہیں، جنوبی ایشیا کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر بھارت، افغانستان، ایران اور پاکستان اس معاملے میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنا سکیں تو ان سب کے حق میں بہتر ہوگا۔ یہ بات (بظاہر) آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں، لیکن غور کیا جائے تو اس کی گہرائی کا اندازہ ہو سکے گا۔ مذکورہ بالا تمام ملکوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ تشدد کو سرکاری سطح پر ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے نہ غیر سرکاری سطح پر کسی کو ایسا کرنے دیں گے۔ باہمی تنازعات کا حل بہرطور مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ پُرتشدد کارروائیوں سے الجھائو میں تو اضافہ ممکن ہے، سلجھائو میں نہیں۔ 
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں