"MSC" (space) message & send to 7575

کراچی کا معرکہ

قومی اسمبلی کے حلقہ 246میں جو کہ کراچی کے دل میں واقع ہے، انتخابی سرگرمیاں زور ، شور سے جاری ہیں۔ ایم کیو ایم ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہنما اور کارکن سرگرم ہیں۔ الطاف حسین بار بار لندن سے مخاطب ہو رہے ہیں۔ بنتے، سنورتے، بگڑتے اور روٹھتے پائے جاتے ہیں۔ استعفیٰ دیتے اور پھر اپنے مداحوں کے اصرار پر واپس لے لیتے ہیں۔ سراج الحق کی گنتی کے مطابق وہ نو بار ایسا کر چکے ہیں، لیکن اب یہ ہندسہ دس تک پہنچ گیا ہے۔ طعنے کے بعد بھی انہوں نے ایک بار پھر استعفیٰ دے کر واپس لیا ہے۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ 23اپریل کو انتخابی نتیجہ دیکھنے کے بعد بھی انہیں استعفیٰ دینا پڑے گا، لیکن یہ حتمی اور آخری ہوگا کہ اسے واپس نہیں لیا جا سکے گا، گویا ان کے کارکن اس پر اصرار نہیں کریں گے۔ سراج الحق نے پرجوش جلسے کئے ہیں اور اپنی خطابت کا رنگ جمایا ہے۔ ان کا یہ فقرہ تو ملک بھر میں گونج رہا ہے کہ اب جی 3کا نہیں 3جی کا زمانہ ہے، گویا ہتھیاروں کا نہیں ٹیکنالوجی کا دور آ گیا ہے۔ سراج الحق کو خطابت کی داد دینے کے باوجود غیر جانبدار مبصرین ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی طاقت کے یکسر خاتمے کی خبر نہیں دے رہے۔ ان کے نزدیک ایم کیو ایم کی جڑیں دور تک ہیں۔ اس کے حامیوں کی بڑی تعداد اب تک اس سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔
حال ہی میں جو واقعات پیش آئے،90پر رینجرز کے چھاپے نے جو صورت حال پیدا کی، لندن میں الطاف حسین جس طرح منی لانڈرنگ کیس کا سامنا کررہے ہیں، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش نے جو پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں، بڑی تعداد میں ٹارگٹ کلرز اور قانون شکنوں کی گرفتاریوں نے جو بھونچال پیدا کر رکھا ہے، اس سب کے باوجود ایم کیو ایم کی سیاسی مشینری فعال ہے۔ سندھ کی مخصوص صورت حال میں اس کا وجود بے برکت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم پر دبائو کا یہ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اسے گھر گھر جانا پڑ رہا ہے۔برسوں بعد باقاعدہ انتخابی مہم چلی ہے اور مقابل امیدواروں نے پوری شدت سے اپنے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا ہے۔ ایک زمانے میں اس بات کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایم کیو ایم پر الزامات کی بارش ٹی وی سکرین یا اخباری صفحات پر یوں جگہ پا سکتی ہے۔ جو کچھ کہا جا رہا ہے، دور دور سنا جا رہا ہے۔ توقع یہ ہے کہ ایم کیو ایم ایک باقاعدہ سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوگی اور اس کی صفوں میں موجود قانون شکن عناصر کو آکسیجن فراہم کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جائے گا۔
اس انتخابی مہم کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت میں شریک دونوں جماعتیں (تحریک انصاف اور جماعت اسلامی) آپس میں متفق نہیں ہو پائیں۔ مشترکہ امیدوار میدان میں نہیں اتارا جا سکا۔ دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے میدان سجا رکھے ہیں۔ عمران خان اس حلقے کا دورہ کرنے پہنچے تو ایم کیو ایم کی زیرک قیادت نے محاذ آرائی کو یوں سمیٹ لیا کہ اپنے کارکنوں کو ان کا استقبال کرنے کی تلقین کر دی۔ محترمہ ریحام خان کو بھابھی قراردے کر ان کو تحفے میں طلائی زیورات پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ حلیم کی دیگ میں دال اور گندم یوں ایک دوسرے سے لپٹے کہ انہیں الگ کرنا ممکن نہ رہا۔ عمران خان کے استقبالی ہجوم کا جوش و خروش ماند پڑ گیا اور اس کی قوت کا خاطر خواہ اظہار نہ ہو سکا۔
جماعت اسلامی اپنے حق میں دلائل لا رہی ہے اور اسے بعض سکہ بند دانشوروں کی تائید بھی حاصل ہو چکی ہے۔ دعویٰ ہے جماعت گزشتہ تیس سال سے ایم کیو ایم کے مقابل سینہ سپر ہے اور اس راہ میں بہت کچھ قربان کر چکی ہے، اس لئے ''مالِ غنیمت‘‘ پر اس کا استحقاق زیادہ ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے رہنما اپنی وسعت اور ہیبت کا ذکر کررہے ہیں۔ جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی میں (ایم کیو ایم کے بعد) سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے، اس لئے اس کا پلڑا بھاری سمجھا جانا چاہیے۔ عمران اسماعیل یہ دلیل لائے کہ ایک گروہ اگر ایک مضبوط دیوار کو اپنی ہتھوڑیوں کے ساتھ توڑنے کی کوشش کئی برس سے کررہا ہو اور ایک نیا شخص اپنا بلڈوزر لے کر آئے اور اسے گرا کر دکھا دے توپہلے گروہ کی ٹک ٹک کی وجہ سے اس کے سر سہرا نہیں سجایا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان، الطاف حسین کے مقابلے میں دادِ شجاعت نہ دیتے تو موجودہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔گویا وفاقی اور سندھ حکومت کے اقدامات اور رینجرز کی دوڑ بھاگ کا حصہ کم سمجھا جائے۔ دلائل جو بھی دیئے جائیں اور دعوے جو بھی کئے جائیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ مشترکہ امیدوار نہ لانے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے لئے قدرے اطمینان کا سامان ہو گیا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں مقابلہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے زیادہ ووٹ کون لیتا ہے۔یعنی ایک دوسرے کو فتح کیسے کرتا ہے۔مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کئی روایتی حریف جماعت کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں کہ ان دو میں سے زیادہ ووٹ لینے والا کراچی میں چودھراہٹ کا منہ بھر کر دعویٰ کر سکے گا۔
عمران خان اور سراج الحق نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ اپنے ہی ساتھ کیا ہے۔ کئی سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ جس ''مالِ غنیمت‘‘ پر حق جتایا جا رہا ہے، وہ موجود بھی ہے کہ نہیں۔ جنگ جیتنے سے پہلے اس ہوائی تقسیم پر تالیاں بجانا آسان نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں