"MSC" (space) message & send to 7575

ایم کیو ایم پر پابندی؟

کراچی پولیس کے ایک معروف ایس ایس پی رائو انوار نے 30اپریل کی سہ پہر ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پر الزام لگایا کہ اس کے کارکن بھارت جا کر ''را‘‘ سے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے دو ایسے افراد کو اخبار نویسوں کے سامنے پیش بھی کیا، جن کے چہرے ڈھانپ دیئے گئے تھے اور وہ اس بات کا اعتراف کررہے تھے کہ انہوں نے متحدہ کے قائدین کے ایما پر بھارت جا کر دہشت گردی کی تربیت حاصل کی ہے۔ ایک کا نام جاوید لمبا اور دوسرے کا جنید بتایا گیا۔ رائو انوار کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ دو ایسے افراد گرفتار کئے ہیں، جو ایم کیو ایم کے کارکن ہیں اور بھارت کے تربیت یافتہ۔ رائو انوار کا کہنا تھا کہ متحدہ ایک وطن دشمن جماعت ہے اور تحریک طالبان سے بھی خطرناک کہ تحریک کے کسی کارکن کے (ابھی تک) بھارت جا کر تربیت حاصل کرنے کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ متحدہ کی ذیلی فلاحی تنظیم ''خدمت خلق فائونڈیشن‘‘ دہشت گردوں کے سہولت کار کے طور پر کام کررہی ہے۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ متحدہ کے متعدد سینئر رہنما جن میں حماد صدیقی، محمد انور، ندیم نصرت اور ذوالفقار حیدر بھی شامل ہیں، ''را‘‘ سے رابطے میں ہیں اور اپنے کارکنوں کو بھارت بھجوا کر تربیت دلوانے کے دھندے میں ملوث ہیں۔ ''را‘‘ ہی کی مدد سے 60سے 70 ٹارگٹ کلرز کا جتھہ تیار کیا گیا ہے، جو لندن اور کراچی سے ہدایات وصول کرتا ہے۔ رائو انوار کا دعویٰ تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ سو فیصد درست ہے، وہ تمام ثبوت اور شواہد عدالت میں پیش کریں گے اور ملزموں کو قرار واقعی سزا دلوائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وفاقی حکومت سے سفارش کریں گے کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے۔
اس پریس کانفرنس نے تہلکہ مچا دیا۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی سر جوڑکر بیٹھ گئی اور طویل غور و خوض کے بعد جارحانہ انداز میں جواب دیا گیا۔ رات گئے جناب الطاف حسین نے بھی اپنے کارکنوں سے خطاب فرمایا، جسے حسب روایت ٹی وی چینلزنے براہ راست نشر کرنے کا ''اعزاز‘‘ حاصل کیا۔ الطاف حسین نے اپنا مقدمہ اس انداز میں لڑا کہ کئی اور مقدمے کھڑے ہو گئے۔ اس طرح کے الفاظ استعمال کئے جن کی وجہ سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ فوج اور ''را‘‘ کے حوالے سے جو کچھ کہا، اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر حرکت میں آئے اور اس بیان کو ناقابل برداشت قرار دے کر قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ وفاقی حکومت نے پیمرا سے جواب طلب کیا اور پیمرا نے متعدد ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کر دیئے کہ اشتعال انگیز تقریر نشر کرنے پر ان کے خلاف کیوں نہ کارروائی کی جائے؟ وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزراء نے الطاف حسین صاحب پر شدید تنقید کی، عمران خان بھی میدان میں نکل آئے اور وزیراعظم پر چڑھ دوڑے کہ انہوں نے الطاف حسین پر چڑھائی کیوں نہیں کی؟
فوجی، سیاسی اورصحافتی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کے بعد الطاف حسین نے اظہار معذرت کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ''را‘‘ سے مدد کی بات طنزیہ طور پرکہی تھی، اسے غلط سمجھا گیا۔ سندھ حکومت نے ایس ایس پی رائو انوار کو تبدیل کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ انہوں نے حدود سے تجاوز کیا ہے۔یہ بحث جاری ہے کہ رائو انوار نے پریس کانفرنس کا انعقاد کیوں کیا اور اس میں جو کچھ کہا، وہ کس کے اشارے پر کہا۔ رائو صاحب سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی حلقے کے تعلق دار بتائے جاتے ہیں، اس لئے ان کا نام بھی لے لیا گیا ہے۔ مبصرین کی بڑی تعداد اس پر متفق ہے کہ کسی اعلیٰ سطحی اجازت (یا اشارے) کے بغیر رائو صاحب وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، جو کہہ گزرے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ 92ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے واحد پولیس افسر ہیں، جو زندہ ہیں، ان کے تمام رفقاء ایک ایک کرکے قتل کئے جا چکے ہیں، اس لئے اگر وہ حد سے آگے بڑھ گئے تو اس کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اگلے ہی روز ایس ایس پی انوار کے ساتھ پریس کانفرنس میں موجود ڈی ایس پی عبدالفتح سانگری ،ڈرائیور اور محافظ سمیت دو موٹرسائیکلوں پر سوار چار افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے۔ گویا، یہ پیغام بھیج دیا گیا کہ ہم جب اور جہاں چاہیں، اپنے شکار کی جان لے سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رائو انوار نے اپنی پریس کانفرنس میں جو الزامات لگائے ہیں، وہ بے انتہا غیر معمولی ہیں۔ اس قماش کے ملزموں کو گرفتار کرنے کا اقدام بھی غیر معمولی ہے اور اس پر ان کی ستائش کی جانی چاہیے۔ انہیں ایک اچھے اور مستعد پولیس افسر کی طرح تفتیش کا دائرہ وسیع کرنے، تمام ملزموں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ان کے بارے میں ثبوت حاصل کرکے ان پر مقدمہ درج کرنے اور پھر چالان عدالت میں پیش کرنے کا ہر حق حاصل ہے۔ وہ جس قدر محنت اور ہمت سے یہ کام کریں گے، اسی قدر شاباش ان کے حصے میں آئے گی، لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ پولیس افسر، جج کا کردار ادا کر سکتا ہے نہ کسی سیاسی رہنما کا لہجہ اس کو زیب دیتاہے۔ ایم کیو ایم کے کردار کا جائزہ لے کر اسے تنظیمی طور پر ذمہ دار قرار دینے کا کام وفاقی وزارت داخلہ کا ہے، پولیس کا نہیں۔ اگر رائو صاحب اس حوالے سے اظہار خیال نہ کرتے تو ان کی کاوش کا تاثر مختلف ہوتا۔ غیر ضروری نکتے اٹھا کر انہوں نے معاملات کو الجھانے والوں کی مدد کی ہے، سلجھانے والوں کی نہیں۔ بہرحال وقت آ گیا ہے کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور تمام تر حساس اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد کسی واضح نتیجے پر پہنچے۔ ابھی تک سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے جو کچھ بھی کہا گیا اور جو تاثر بھی دیا گیا، وہ یہی ہے کہ ایم کیو ایم کو بحیثیت جماعت نشانہ بنانا نہیں اس کی صفوں (یا پناہ) میں پائے جانے والے قانون شکن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا مقصود ہے۔ اسی لئے ایم کیو ایم اور اس کے قائدین کی سیاسی سرگرمیوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی۔ حلقہ نمبر246کے ضمنی انتخاب کے موقع پر بھی فوج اور رینجرز نے مکمل غیر جانبداری برقرار رکھی اور ووٹروں کو اپنی رائے کے اظہار کا کھلا موقع دیا۔ اس حوالے سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اور ہمارے دفاعی اداروں کے بحیثیت مجموعی اعتماد اور اعتبار میں اضافہ ہوا۔ اگر اس روش پر نظرثانی مقصود ہے اور ایسے ٹھوس ثبوت ہاتھ آ گئے ہیں، جن کے تحت یہ رائے قائم کی جا سکے کہ ایم کیو ایم کے قانون شکن عناصر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اور اعلیٰ قیادت کے زیر ہدایت قتل و غارت گری میں مصروف ہیں تو پھر جماعت کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں معاملہ سپریم کورٹ کو ریفر کرنا پڑے گا اور ایسا مواد پیش کرنا ہوگا جو عدالتی کسوٹی پر پرکھا جاسکے۔ عدالتی توثیق کے بعد ہی کسی سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت کو ایک معینہ عرصے کے لئے ملکی سیاست میں حصہ لینے کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ کسی کالعدم جماعت کے تمام وابستگان پر عملی سیاست کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ ان کی بڑی تعداد کسی دوسرے نام سے جماعت سازی کرکے سرگرم رہ سکتی ہے جس طرح کہ نیپ پر پابندی کے بعد این ڈی پی وجود میں آئی تھی اور نئی قیادت میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے سفر جاری رکھ لیا تھا۔
یہ تفصیل بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ کسی جماعت پر جب پابندی لگائی جاتی ہے تو اس کامقصد بھی اس کے قانون شکنوں ہی کو ہدف بنانا ہوتا ہے۔ اگر اس کی قیادت ملوث ہو تو پھر اسے بھی دیوار سے لگا دیا جاتا ہے، لیکن اگر قیادت براہ راست ملوث نہیں ہے یا قانون شکن عناصر کے خلاف کارروائی پر آمادہ ہے تو پھر اس کا تعاون حاصل کرنا چاہیے،سیاست میں مسئلے کا حل بننے کی صلاحیت رکھنے والوں کو مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔گھوڑے کو صرف چابک مار کر سدھایا نہیں جا سکتا‘ اس کے لئے اور بھی جتن کرنا پڑتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں