جنرل حمید گل79سال کے ہو چکے تھے، لیکن بڑھاپا اُن کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ گفتار، انداز، چال ڈھال میں جوان ہی نہیں، نوجوان تھے۔ آواز میں وہی کڑک تھی، برسوں پہلے جس سے میرے کان اُس وقت آشنا ہوئے تھے، جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔جنرل ضیاء الحق جب تک زندہ رہے، کسی دوسرے جرنیل کی طرف دیکھنے یا اُس سے ملنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اُن سے مل کر گویا پوری فوج سے مل لیا جاتا تھا۔ انہوں نے وردی کو اِس طرح بھینچا تھا کہ وہ ان ہی کی ہو کر رہ گئی تھی۔ حالات معمول پر رہتے تو1979ء میں ریٹائر ہو جاتے، لیکن ان کی مدت ِ ملازمت میں ''تاحکم ثانی‘‘ توسیع کر دی گئی۔ چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الحق نے فائل صدر ضیاء الحق کی خدمت میں بھجوائی اور انہوںنے بے چون و چرا آرمی چیف سے اتفاق کر لیا۔
حادثہ ٔ بہاولپور کے بعد ہمارے مکتب ِ فکر میں ہاہا کار مچی، تو باقیات کو سنبھالنے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نظریاتی احباب نے مجھے جنرل مرزا اسلم بیگ کی خدمت میں روانہ کیا۔ اُن کی رہائش گاہ پر اُن سے تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ اِس دوران جنرل حمید گل کا ذکر آیا۔ بیگ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے ملے ہیں، مَیں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چند ہی قدم کے فاصلے پر رہتے ہیں، ان سے بھی ملتے جائیے۔ پھر فون کر کے اُن کو اطلاع بھی دے دی۔ اُن کے ہاں پہنچا، تو وہ قاضی حسین احمد کو رخصت کر رہے تھے۔ تپاک سے ملے، اور مسکراتے ہوئے کہا، بیگ صاحب نے بتایا کہ آپ آنا چاہتے ہیں، تو مَیں نے کہا، فوراً بھجوا دیں، کہیں آپ کا ارادہ نہ بدل جائے۔ اس کے بعد جنرل حمید گل سے تعلق کی ایسی بنیاد پڑی کہ بہت سے جھٹکے کھانے کے باوجود وہ ٹوٹنے نہیں پایا۔ کبھی مَیں ڈھیل دے دیتا،کبھی وہ ڈھیلا چھوڑ دیتے، مراسم کا دھاگہ ہم دونوں کو باندھے رہا۔گرہ پڑی بھی تو کسی نہ کسی طور اسے کھول لیا گیا۔ کبھی ہاتھوں سے، کبھی دانتوں سے، اور کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔
جنرل صاحب آئی ایس آئی سے رخصت ہوئے، ملتان پہنچے، وہاں سے واپس آئے۔ آئی جے آئی بنی، انتخابات ہوئے، بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں، نواز شریف نے اُن کی جگہ لی بہت کچھ ہوا، لیکن بہت کچھ نہ ہو پایا۔ میرے جیسوں کی خواہش تھی کہ حمید گل چیف آف آرمی سٹاف بنیں، لیکن یہ دستار جنرل آصف نواز کے سر پر رکھ دی گئی۔ قلم جنرل حمید گل پر فریفتہ تھا، جنرل آصف نواز نے لاہور میں یاد فرمایا، اور اطمینان سے سمجھایا کہ فوج میں اب اُن کا سکہ چلنا ہے، کسی اور کو، کسی اور کا، کوئی اور خیال دِل میں نہیں پالنا چاہئے۔ حمید گل کو ٹیکسلا کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس کا سربراہ بنا دیا گیا، وہ اس پر بھنا گئے۔ انہوں نے ٹیکسلا جانے کے بجائے وزارتِ دفاعی پیداوار میں رپورٹ کیا، کہ(ان کے نزدیک) اس طرح حکم کی تعمیل ہو گئی تھی۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس وزارت ِ دفاعی پیداوار کے تحت تھا، لیکن ان کی یہ فقہی توجیہ قبول نہ ہو پائی، انہیں ریٹائر ہونا پڑا۔
نواز شریف وزیراعظم بنے تو سان گمان میں نہ تھا کہ اُن کی جنرل بیگ سے ٹھن جائے گی۔ مسلم لیگ کو ج(جونیجو) سے ن تک لانے میں ان کا اور جنرل حمید گل کا ہاتھ چھپائے نہیں چھپتا تھا۔ ان ہی کی تھپ تھپاہٹ سے پنجاب حکومت اپنے قدموں پر کھڑی رہی۔ غلام اسحاق کو وہ مٹھی میں بند کر چکے تھے یا یہ کہیے کہ غلام اسحاق ان سے طاقت حاصل کر رہے تھے، اور ان کی طاقت بھی بنے ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی جگہ ان کا منصب ِ صدارت سنبھالنا بیگ+گل کے بغیر ممکن نہ تھا۔ نواز شریف وزیراعظم بنے، تو بیگ صاحب اپنی جگہ سرشار تھے کہ وہ خود کو وزیراعظم کا سرپرست سمجھتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نواز شریف کو اپنا (اور غلام اسحاق کو اپنا) رعب قائم رکھنے کے لئے انہیں ٹوکنا پڑا، یہاں تک کہ اُن کی باقاعدہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے جانشین کا اعلان کر دیا گیا۔ سمجھا یہی جا رہا تھا کہ بیگ کی جگہ حمید گل لیں گے، لیکن معاملہ نواز شریف کے ہاتھ میں نہیںتھا۔ آٹھویں ترمیم نے فوجی سربراہوں کی تقرری کا اختیار بلا شرکت ِ غیرے صدر کو دے رکھا تھا۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اختیار نواز شریف کے ہاتھ میں ہوتا تو بھی فوجی قیادت حمید گل کو سونپ دی جاتی کہ ان کی عقابی روح پر شبہ ہو ہو جاتا تھا کہ اسے اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگے گی۔
جنرل حمید گل نوکری پیشہ نہیں تھے۔ اُنہیں ملازمت کی تلاش فوج میں نہیں لائی تھی۔ ان کا رشتہ اپنی تاریخ سے مضبوط تھا، اور وہ فوجی زندگی کو عظمت ِ رفتہ کی تلاش کا ذریعہ سمجھنے والوں میں تھے۔ ان کی قادر الکلامی اور وسعت ِ مطالعہ نے انہیںایک افسانوی کردار بنا دیا تھا، جو بھی ان سے ملتا گرویدہ ہو جاتا یا مرعوب۔ ان کے مخالف بھی ان کی ذہانت اور بیدار مغزی کی داد دیے بغیر نہ رہتے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی فوج کا نظریاتی تشخص گہرا ہوا، اور ماحول پر پاکستانی رنگ غالب آتا گیا، تو حمید گل کے جوہر بھی کھلے۔ حوصلہ افزائی اور سرپرستی نے غنچے کو پھول بنا دیا۔ وہ ملٹری انٹیلی جنس میں رہے، آئی ایس آئی میں جنرل اختر عبدالرحمن کے بعد اس کی سربراہی سنبھالی۔ جہادِ افغانستان ان کے عقیدے کا حصہ تھا۔اگرچہ ان کے ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے ہی افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی طے ہو چکی تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے جذبات کو افغان جذبوں میں مدغم کر لیا۔... ان کے آنے کے چند روز بعد اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا، کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقا فضائی حادثے کا شکار ہو گئے، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ملبے تلے دبنے سے بچا لیا۔ ان کا طلسماتی تشخص اور الفاظ پر قدرت ان کی حفاظت کرتے اور انہیں آگے بڑھاتے رہے۔ وہ جنرل اختر عبدالرحمن کی طرح خاموش مجاہد نہیں تھے، دیکھے، سُنے اور محسوس کیے جاتے تھے۔ ان کے دور میں آئی ایس آئی پردے سے نکل آئی، اور اپنے وجود کا احساس دِلا کر پھول پھول جاتی رہی۔ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں ان کے سیاسی حریف آئی جے آئی کی صورت یک جا ہوئے تو اسے جنرل حمید گل کا کارنامہ سمجھا گیا۔ پیپلزپارٹی کے33فیصد کے لگ بھگ ووٹوں کے سامنے بند باندھا جا سکتا تھا، سوباندھ دیا گیا۔ دوسرا بڑا سیاسی پلیٹ فارم وجود میں آ کر سسٹم کو توازن بخشنے کا دعویدار بن گیا۔ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد افغان مجاہدین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ جلال آباد پر قبضہ کر کے وہاںافغان حکومت کے قیام کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت کے دوران جو کچھ حاصل کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ناممکن ہوتی چلی گئی۔ وہ افغان مجاہد جنہوں نے جغرافیے اور تاریخ کو نئے سبق سکھائے تھے، ایک دوسرے سے اُلجھ کر اپنے آپ کو گدلا کر بیٹھے۔ ان کے بہت سے عقیدت مندوں کے لیے دِل تھامنا مشکل ہو گیا۔ خواب چکنا چور ہوتے چلے گئے۔
حمید گل نے ریٹائرمنٹ کے بعد بہت کچھ کرنا چاہا، لیکن زیادہ کچھ نہ کر سکے، نہ کوئی ڈھنگ کا پریشر گروپ بنا، نہ تھنک ٹینک، نہ ہی مبسوط مقالے لکھے، نہ افغان جہاد پر کوئی تفصیلی کتاب لکھی گئی۔ وہ سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتے تو ان کی صلاحیتیں پٹڑی پر چڑھ جاتیں، لیکن وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائے۔ مبینہ طور پر اپنے بنائے ہوئے 'بتوں‘ کے سامنے کورنش بجا لانا ممکن نہ ہو پایا۔ حالانکہ برہمن اپنے تراشیدہ بتوں کی پرستش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔کبھی نرم انقلاب کی بات کی، کبھی احتساب کا نعرہ لگایا، کبھی مارشل لاکے خلاف سینہ سپر ہوئے، کبھی اہل ِ سیاست سے مایوس ہوگئے،کبھی پارٹیوں کو متحد کیا، کبھی ان کو سیاسی فرقہ قرار دے کر خلافِ اسلام سمجھ لیا، ان کی بے تابیوں نے انہیں ٹکنے نہ دیا۔ امریکہ اور ہندوستان ان کی نگاہ میں کھٹکتے رہے۔ وہ انہیںایک ہی سکے کے دو رُخ قرار دیتے تھے، لیکن ان کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ چلے ہوئے کارتوسوں کو ایٹم بم سمجھ بیٹھے تھے۔وہ مفاد پرست نہیں تھے۔ ان کی شہرت نظریہ ساز کی رہی۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی ان کا احترام کرتے تھے، اور اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں ڈھالنے والے وہ بھی نہ تھے۔ ہر شخص ان سے ہر بات کر سکتا تھا۔ ان کے رابطے وسیع تھے، وہ دِلوں میں جگہ بنانے کے فن سے آشنا تھے۔چیف آف آرمی سٹاف نہ بننے، اور کوئی بھی قلعہ فتح نہ کرنے کے باوجود وہ اپنے مداحوں کی نظر میں سپہ سالار ہی کا مقام رکھتے تھے، اور ان مداحوں کی تعداد کسی طور کم نہیں تھی۔ دشمن انہیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ سمجھتے تھے، اور دوست بھی ان سے طاقت حاصل کرتے تھے۔ واشنگٹن سے دہلی تک انہیں محسوس کیا جاتا تھا، ان کی دھمک سنی جاتی تھی۔ بلاشبہ وہ اپنے جذبوں کے اعتبار سے ایک عظیم پاکستانی اور ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے جنازے میں لوگ پورے پاکستان سے امڈ آئے تھے، دیوانہ وار زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، کہ اپنا زمانہ آپ بنانے والے اور اپنے لوگوں کا دم بھرنے والے جو بھی ہوں جہاں بھی ہوں، دِلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)