56سالہ شیخ نمرالنمر سمیت47افرادکے سر تو قلم کیے جا چکے ‘لیکن پورے عالم اسلام میں اس زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جا تے رہیں گے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کہاں کہاں، کس کس طرح کے گل کھلائیں گے۔ مرحوم شیخ کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی صوبے سے تھا جہاں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔ اس بارے میں طرح طرح کے اعدادوشمار دیئے جاتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق انہیں دس سے پندرہ فیصد قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہاں اگرچہ بادشاہت قائم ہے اور گزشتہ پچاسی سال سے کنگ عبدالعزیز کا خاندان حکومت کر رہا ہے، لیکن شیخ محمد بن عبدالوہاب کی آل سے ان کی شراکت داری ہے۔ سعودی بادشاہت کا نظریاتی قبلہ سلفی (یا حنبلی) مسلک کے علماء ہی کی تحویل میں ہے۔ شیعہ مسلک سے ان کا اختلاف کوئی ایک دن، ماہ یا سال کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ اس کی ایک اپنی تاریخ ہے، جسے جھٹلایا جا سکتا ہے نہ نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔پھانسی زدہ چھیالیس افراد میں سے کئی ایک کا تعلق سنّی عقیدے سے ہے کہ داعش اور اس قماش کی تنظیمیں اہل ِ سنت ہی سے وابستگی کا دعویٰ رکھتی ہیں۔
شیخ نمر نے ایران میں تعلیم حاصل کی اور کم و بیش پندرہ سال وہاں مقیم رہے۔ دنیا بھر سے شیعہ،مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایران کا رخ کرتے ہیں۔ سعودی عرب کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ یہاں کے اکثر شیعہ علماء ایران سے گہرے رابطے رکھتے ہیں۔ مرحوم شیخ نمر 1979ء میں ایران گئے تھے اور 1994ء میں واپس آئے ۔ ان کا شمار حکومت کے ناقدین میں کیا جانے لگا۔ وکی لیکس کے مطابق ایک امریکی سفارت کار نے 2008ء میں ان سے ملاقات کے بعد ان کے بارے میں بڑی دلچسپ رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوائی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ فی الوقت نمر کا شمار دوسری صف کے سیاست کاروں میں کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کہ وہ تقاریر میں امریکیوں کے خلاف جذبات کا پُرشور اظہار کرتے ہیں، تاہم امریکہ کے کوئی بہت زیادہ مخالف نہیں ہیں۔ ملاقات کے دوران انہوں نے تدریجی جدوجہد کے بجائے احتجاج اور ہنگاموں کے ذریعے حقوق کے حصول کو بہتر قرار دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی تشدد کے راستے پر چلنے کی کھلی وکالت نہیں کی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ اگر عوام حکومت کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں تو وہ عوام کے ساتھ ہوں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تمام عوامی اقدامات (مثلاً تشدد) کی حمایت بھی کریں گے۔ امریکی سفارت کار نے لکھا تھا کہ شیخ نمر نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں، گویا ان کی طاقت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
عرصہ تک سعودی حکام نے انہیں زیادہ اہمیت نہ دینے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ ان کی نگرانی کی جاتی رہی، گھر میں نظر بند بھی کیا گیا، لیکن بالآخر ان پر زنداں کے دروازے کھولنے میں عافیت جانی۔ عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکات، عراق اور اس کے بعد بحرین کے حالات نے شیخ نمرکے لہجے میں شدت پیدا کر دی اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پیدائش سے لے کر آج تک میں نے اس ملک میں کبھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کیا۔ سعودی عرب اور آل سعود کے خلاف لہجہ آتشیں ہوتا گیا۔ مشرقی صوبے کی علیحدگی کا مطالبہ ان کی زبان پر تھا۔ وہ اسے ایک علیحدہ مملکت کی شکل دینے کی بات کرنے لگے تھے۔ 2012ء میں انہیں بغاوت اور غداری کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ خصوصی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلا اور 15اکتوبر 2014ء کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ عام خیال یہی تھا کہ انہیں تختہء دار پر لٹکایا نہیں جائے گا، لیکن 2 جنوری کو اس کی نفی کر دی گئی۔ اس پھانسی پر عالمی حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ اٹھی۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن نے بھی ردعمل ظاہر کیا۔ ایران میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایرانی احتجاجیوں کی دلچسپی شیخ نمر ہی سے رہی، پھانسی پانے والے سنیوں کا تذکرہ کم کم ہی کیا گیا۔ اس پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے۔ سوڈان اور کئی خلیجی ممالک نے بھی اس کی پیروی کی، سفیر واپس بلا لئے یا سفارت خانے کا درجہ گھٹا دیا۔
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے سیاسی، ثقافتی، دفاعی اور تاریخی رشتے ہیں، لیکن ایران اس کا ہمسایہ ہے۔ دونوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور اس کے نتیجے میں شیعہ سنی محاذ آرائی کے خدشے نے پاکستان کے اہل دانش کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان اگرچہ انتہائی بھاری اکثریت کا سنی مسلمان ملک ہے، لیکن یہاں عوامی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر شیعہ اور سنی باہم متصادم نہیں ہیں۔ فرقہ وارانہ دہشت گرد موجود ہیں اور بہت ستم بھی ڈھا چکے ہیں، لیکن ان سے نبٹا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضربِ عضب نے ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ پاکستان سنی اور شیعہ مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد کا ثمر ہے، اس کے حصول کے لئے انہوں نے مل کر تحریک چلائی تھی۔ ہماری فوج، سول سروس اور سیاسی جماعتوں میں شیعہ سنی تفریق نہ تو روا رکھی جاتی ہے، نہ ہمارا آئین اور قانون اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اس لئے پاکستانی ریاست اپنے فیصلے فرقہ وارانہ بنیاد پر نہیں کر سکتی۔اس کے لئے بین الاقوامی اور بین الاسلامی تعلقات کو فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھنا ممکن نہیں، لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ایران کا دستوری مذہب شیعہ اسلام ہے ، جبکہ سعودی عرب سمیت کسی بھی دوسرے ملک نے کسی ایک مکتب فکر کے ساتھ اپنا دستوری رشتہ نہیں جوڑا۔ سعودی عرب کا دستور قرآن ہے ، اور وہاں قانون کا سرچشمہ قرآن وسنت کو قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے تحریری دستور میں بھی اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے، لیکن اسے کسی فقہی مکتب فکر کے ساتھ نتھی نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مناقشے کو عرب و عجم کی دیرینہ کشمکش سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے،لیکن پاکستان، ترکی، ملائیشیا ، بنگلہ دیش اور کئی دوسرے ممالک عجمی ہی کہلاتے ہیں اس لئے پورے عجم کو ایک رسی سے نہیں باندھا جاسکتا۔ سعودی اور ایران تنازعہ کو بھی صرف مذہبی حوالے سے دیکھنا بہت مشکل ہے، بنیادی طورپر یہ سیاسی لڑائی ہے ۔
ایران اور سعودی عرب کے فوجداری قوانین اور عدالتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ دونوں جگہ مولوی حضرات کے سرپر قاضیوں کی دستاریں سجی ہوئی ہیں۔ دونوں ملکوں میں مخالف آوازوں کے ساتھ کم و بیش یکساں سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایرانی ریاست بھی اپنے متعدد باغیوں کو سپرد اجل کر چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی سنی حکومت نے ایران میں کئے جانے والے فیصلوں کے خلاف کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی، اور تو اور کسی سنی ملک کی سول سوسائٹی یا علمائے کرام کی تنظیمات نے بھی کبھی کوئی پرزور احتجاج نہیں کیا۔ پاکستان میں دبے دبے الفاظ میں کبھی کسی مجلس میں اس سلوک کا ذکر ہوجاتا ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ دوستوں کے ''داخلی معاملات‘‘ کو انسانی حقوق کی کسوٹی پر پرکھنا نہیں چاہیے۔ سعودی اقدام پر ایرانی ردعمل نے یہ سوال نئے سرے سے نگاہوں کے سامنے لاکھڑا کیا ہے کہ داخلی معاملات کی حدود کیا ہیں اور کسی دوسرے کے عدالتی نظام کی بے توقیری کرنے والے کیا اپنے معاملے میں بھی دوسروں کو جائزہ لینے کا حق دینے پر تیار ہوں گے؟
سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف ایک 34رکنی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، اب بتایا گیا ہے کہ ان ملکوں کی تعداد 37ہو چکی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرنے ایران کے ساتھ تنازع کے بعد پہلی بار اپنے مُلک سے باہر قدم رکھا ہے تو صرف پاکستان آنے کے لئے ۔ وہ یہاں چھ گھنٹے گذار کر گئے ہیں۔ وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف اور مشیر خارجہ سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ یہ خبر بھی ہے کہ شاہ سلمان کے صاحبزادے اور وزیر دفاع محمد بن سلمان بھی پاکستان پہنچ سکتے ہیں۔ 34اتحادی ملکوں میں پاکستان کا نام شامل ہوا تھا تو سعودی دوستی کے ناتے پاکستان انکار نہیں کر سکا تھا۔ ویسے بھی یہ اتحادی ممالک پاکستان کے روایتی حلیف ہیں اور بین الاقوامی دنیا میں اس کے دست و بازو۔ پاکستان ان سے ''کٹیّ‘‘ کر کے اپنا حقہ پانی بند نہیں کرا سکتا۔ اگر وہ ان سے کٹ جائے تو تلخی کم کرانے میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گا، اس لئے پاکستان کو سعودی اتحاد کے ساتھ تعاون جاری رکھتے ہوئے مفاہمانہ فضا کے قیام میں سرگرمی دکھانا ہو گی۔جو لوگ پاکستان کو ثالث کا کردار ادا کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ثالث کے لئے فریقین کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے سامنے ''جانبدارانہ غیر جانبداری‘‘ یا ''غیر جانب دارانہ جانبداری‘‘ کا رویہ اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اتحاد اپنی جگہ‘ یہ سب پر اچھی طرح واضح کر دیا جائے کہ پاکستان کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے، نہ ان کی حمایت کر سکتا ہے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]