"MSC" (space) message & send to 7575

صاف اور مضبوط ہاتھ

باچہ خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے نے ایک بار پھر آرمی پبلک سکول کے سانحے کی یاد تازہ کر دی۔ حملہ آور عقبی دیوار پھلانگ کر کیمپس میں داخل ہوئے، خون کا وہ دریا تو نہیں بہا سکے جو ان کا ارادہ تھا، لیکن پھر بھی کئی قیمتی جانیں قربان ہو گئیں۔ استاد اور طالب علم نشانہ بنے اور دوسرے کارکن بھی۔ سکیورٹی گارڈز نے بہادری سے راستہ روکا، پولیس اور فوج کے دستے بھی ان کی مدد کو پہنچے اور دہشت گرد موت کے گھاٹ اتار ڈالے گئے۔ چارسدہ میں یہ یونیورسٹی اے این پی کے دور حکومت میں اس کے سیاسی اور روحانی پیشوا عبدالغفار خان کی یاد میں قائم کی گئی تھی۔ عبدالغفار خان کو ان کے عقیدت مند باچہ خان (بادشاہ خان) کہہ کر پکارتے ہیں۔ انہوں نے 90 سال سے زیادہ کی عمر پائی اور 1988ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اپنی وصیت کے مطابق جلال آباد میں دفن ہوئے۔ مرتے مرتے بھی یہ اعلان کر گئے کہ پشتونوں کو وہ سرحدی دائروں میں تقسیم نہیں کرتے۔ خان مرحوم نے خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی تھی‘ اور کُل ہند سیاست میں کانگرس کے ساتھ ناتہ جوڑا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد وہ کانگرس کے موقر ترین مسلمان رہنما تھے۔ انہیں سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا اور اس پر ان کے مداح پھولے نہیں سماتے تھے۔ محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی اگرچہ ان کے سے مقام و مرتبے کے حامل نہیں تھے، لیکن وہ بلوچستانی گاندھی کہلا کر مسرور ہوتے تھے۔ خان عبدالغفار خان عدم تشدد کے پیروکار تھے۔ انہوں نے بندوق کی جگہ قلم پشتونوں کے ہاتھ میں تھمانے کی بھرپور کوشش کی‘ اور معاشرے پر گہرے نقوش مرتب کئے۔ دہشت گردوں کی بدبختی ملاحظہ ہو کہ عدم تشدد کے علمبردار کے نام پر قائم یونیورسٹی پر حملہ کرکے انہوں نے خون کی ہولی کھیلی اور جہنم واصل ہو گئے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ''گیدڑ گروپ‘‘ نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی، لیکن اس کے بڑے دھڑے نے اعلان برات کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنانے پر یقین نہیں رکھتے، ان کا ہدف عسکری ادارے ہیں، اور ان کے حوالے سے وہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ فوجی ذرائع نے خبر دی کہ حملہ آوروں کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں اور وہاں چھپے ہوئے عناصر کی شہ ہی پر انہوں نے اس گھنائونی واردات کا ارتکاب کیا ہے۔ آرمی چیف نے افغان صدر، چیف ایگزیکٹو اور وہاں موجود امریکی فوج کے کمانڈر کو فون کرکے اعتماد میں لیا، لیکن بعد میں افغان حکومت نے اپنی سرزمین کے استعمال سے متعلق تاثر کی تردید کر دی۔
افغانستان میں جب دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوتی ہے، اس کی طرف سے پاکستان کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے۔ ایک عرصہ تک پوری شدت سے پاکستانی اداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا، اب لہجہ قدرے بدلا ہے لیکن بداعتمادی اپنی جگہ ہے۔ بھارت میں بھی جب کوئی واردات ہوتی ہے، الزام پوری شدت سے پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ پٹھان کوٹ حملے کے بعد بھارتی قیادت نے قدرے ذمہ داری کا ثبوت دیا، لیکن انگلی بدستور پاک سرزمین کی طرف اٹھی رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بہت کچھ ایسا ہوتا رہا ہے، جس کا تذکرہ آج بھی منہ کا ذائقہ کڑوا کر دیتا ہے، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ حالات کو بدلنے کے لئے وسیع تر تعاون کیا جائے۔ ہر ملک یہ طے کرے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے بڑھاوے کے لئے دہشت گردوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت نہیں کرے گا۔ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے معاملات الگ ہیں، جبکہ افغانستان اور پاکستان کے الگ۔ دونوں کو ایک کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے نہ ایک ترازو میں تولا جا سکتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی کشمیر کا مسئلہ ہے نہ ہی کوئی تاریخی تضاد اور تصادم۔ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے نے 1979ء میں جو مسائل پیدا کئے تھے، وہ ابھی تک ان سے نبردآزما ہے۔ پاکستان بھی ان سے پوری طرح پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ پاکستان نے سوویت حملہ آوروں کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کا ساتھ دے کر اور افغان مہاجرین کے لئے اپنے دروازے کھول کر ایک قابل فخر کردار ادا کیا تھا۔ جس طرح ویت نام کی جنگ میں چین اور سوویت یونین نے وہاں کے عوام کی مزاحمت کا ساتھ دے کر دنیا بھر سے داد وصول کی تھی۔ پاکستان کے اس کردار پر ناک بھوں چڑھانے والے پاکستانی دانشور اور سیاست کار کور چشم ہیں یا حقائق سے دانستہ آنکھیں بند کرنے کو کمال سمجھتے ہیں۔ ہر پاکستانی کو اس حوالے سے اپنا سر فخر سے بلند کرنا چاہیے۔ خرابی کی جڑ سوویت فوجوں کی افغانستان میں مداخلت تھی، پاکستان کی طرف سے ان کے خلاف جہاد کی حمایت نہیں۔ سوویت فوجوں کے انخلا اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد افغان مجاہدین کا کردار مثالی نہ رہا، وہ داخلی تنازعات میں الجھ کر ایک دوسرے کے درپے ہو گئے، تو یہ بعد کی بات ہے۔
افغانستان میں آج جو حکومت قائم ہے، اسے ان طالبان کی طرف سے چیلنج درپیش ہے، جن کی حکومت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد ختم کی تھی۔ اربوں ڈالر کا اسلحہ جھونکنے، بم برسانے اور ہزاروں فوجی مروانے کے باوجود وہ افغان طالبان کو شکست فاش نہیں دے سکے۔ آج بھی افغان سرزمین کے بڑے حصے پر ان کی رٹ قائم ہے اور ان سے مصالحت کے لئے افغان حکومت سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان، چین اور امریکہ کے ساتھ مل کر اس کام میں ہاتھ بٹا رہا ہے۔ پاکستان میں جو گروپ طالبان کے نام سے برسرِ پیکار ہیں، ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کی پاکستان میں ہرگز ہرگز وہ حیثیت نہیں جو افغانستان میں طالبان کی ہے۔ یہ ایک غیر ذمہ دار گروہ ہے، اس سے پاکستانی فوج نبٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نبٹ بھی رہی ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کی حفاظت اور نگرانی کرے۔ افغان طالبان افغانستان کے اندر جو کچھ کریں، وہ افغان حکومت کا دردِ سر ہونا چاہیے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا پاک افغان سرحد کو سیل کیا جا سکتا ہے؟ یا یہاں آمد و رفت کو باقاعدہ بنایا جا سکتا ہے؟ ہمارے اپنے ہاتھ صاف ہوں گے، تو مضبوط ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں