پانامہ لیکس نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ہنگامہ اٹھا رکھا ہے۔ کئی ممالک کے اعلیٰ عہدہ دار اس کی زد میں ہیں۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم اپنے آپ کو اقتدار سے الگ کر چکے ہیں اور سیاسی بقاء کے لئے (اپنی بیگم کے ساتھ مل کر) ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ارجنٹائن کے صدر کو ایک آئرش بکی نے استعفیٰ دینے والے عالمی رہنمائوں میں ''ہاٹ فیورٹ‘‘ قرار دیا تھا اور امید لگائی تھی کہ وہ بہت جلد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن وہ دہائی دیتے سپریم کورٹ جا پہنچے ہیں اور درخواست گزاری ہے انہیں بچایا جائے کہ انہوں نے کسی آف شور کمپنی میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔ آئرش بکی نے دوسرے نمبر پر ''ہاٹ فیورٹ‘‘ وزیر اعظم نواز شریف کو قرار دیا ہے۔ ان پر شرطیں لگائی جا رہی ہیں۔ یوکرائن روس اور چین کے صدر بھی قطار میں ہیں، جبکہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے والد کی ایک آف شور کمپنی کا حساب دے رہے ہیں۔ ان پر ٹیکس گوشواروں میں منافع کا اندراج نہ کرنے کا الزام ہے۔ 10 ڈائوننگ سٹریٹ سے بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے کسی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ ان کے حریفوں نے معاملہ پارلیمانی امور کے کمشنر اخلاقیات کو بھجوا دیا ہے، جو وزیر اعظم کے کنڈکٹ کا جائزہ لے کر فیصلہ دے گا۔ پاکستان میں کئی سیاسی سٹہ باز بھی وزیر اعظم کے درپے ہیں۔ ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر ان کے اطمینان کے مطابق معاملات طے نہ کئے گئے تو وہ رائے ونڈ میں ان کی لاہوری رہائش گاہ پر دھرنا دیں گے، جواباً خواجہ سعد رفیق نے بنی گالہ جانے کا عندیہ دے دیا ہے: ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے۔
پانامہ‘ جس کی آبادی چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے اور جہاں آف شور کمپنیوں کی رجسٹریشن کے ذریعے دنیا بھر سے آنے والے ہر طرح کے سرمائے کو تحفظ دے کر پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں‘ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ (نہر پانامہ کی چونگی کے بعد) یہی کاروباری سہولیات ہیں، جو آنکھیں بند کرکے فراہم کی جاتی ہیں۔ پانامہ اس معاملے میں اکیلا نہیں، کئی جزیرے اور بھی ایسے ہیں جہاں سرمایہ جا کر بے دھڑک قیام کر سکتا اور وہاں سے کسی بھی ملک میں جا کر جوہر دکھا سکتا ہے۔ یہاں رجسٹر ہونے والی کسی کمپنی سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ اس کا حقیقی مالک کون ہے اور کہاں سے کس طرح کیا کچھ کما کے لایا ہے۔ مہذب کہلانے والے ملکوں نے یہ ''طہارت خانے‘‘ اس لئے ایجاد کئے تھے کہ (زیادہ تر) ترقی پذیر ملکوں کی تجوریوں کو اٹریکٹ (Attract)کیا جا سکے۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں نے ہر طرح کے سرمائے کے لئے اپنے لاکرز کو محفوظ ترین قرار دے رکھا تھا، کسی بھی ملک کی دولت لوٹنے والے کا سرمایہ یہاں پناہ حاصل کرکے اطمینان کا سانس لے لیتا تھا۔ مختلف ممالک کے دبائو کی وجہ سے صورت حال میں تبدیلی آ رہی ہے لیکن شفافیت کی منزل اب بھی کوسوں دور ہے۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا، آف شور کمپنیاں نقاب اوڑھ کر دنیا بھر میں دندناتی اور اپنے وجود کو قانونی قرار دیتی ہیں۔ یہ دعویٰ جھٹلانا یوں مشکل ہے کہ واقعتاً قانون کو ان کی خدمت پر مامور کرکے اپنا حلوہ مانڈا چلایا جا رہا ہے۔
آف شور کمپنیوں پر سیکریسی کی ایسی دبیز چادر تنی ہوتی ہے کہ ان تک رسائی حاصل کرنا، ان کے حصہ داروں یا فائدہ کاروں کے چہرے تلاش کرنا یا ان کی جائیدادوں اور کاروباروں کی تفصیل معلوم کرنا ممکن نہیں رہتا۔ تاریخ میں پہلی بار پانامہ کی ایک لا فرم کے ڈیٹا میں نقب لگائی گئی ہے اور کسی نامعلوم ہاتھ نے اس کے رازوں کو طشت از بام کر دیا ہے۔ اس مہم جوئی کی تفصیل بجائے خود ایک الف لیلوی کہانی ہے۔ جرمنی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے سے کسی شخص نے رابطہ قائم کیا اور کروڑوں صفحات فی سبیل اللہ اگل ڈالے۔ اس نے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا۔ صرف یہ شرط لگائی کہ اس کے بارے میں کوئی تفصیل منظر عام پر نہیں لائی جائے گی کہ اس سے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ جرمن اشاعتی ادارے نے ''انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) کی مدد سے 26 ٹیرابائٹ پر مشتمل ڈیٹا کی چھان پھٹک کا کام شروع کیا۔ 80 ملکوں کے 100 میڈیا اداروں کے 400 کارکن اس کارخیر میں شریک ہوئے اور دنیا کے سامنے (ایک لا فرم کے پاس موجود) آف شور کمپنیوں اور ان کے متعلقین کی تفصیل منظر عام پر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ پانامہ لیکس کو اپنے حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی لیک قرار دیا جا رہا ہے، اس کے ''موجد‘‘ کا نام صیغہ راز میں ہے، اس لئے مغرب ہی میں یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ سی آئی اے یا اس قماش کے کسی اور ادارے نے صدر پیوٹن اور بعض دوسرے عالمی رہنمائوں کو زچ کرنے کے لئے یہ حرکت کی ہے۔ اسے دور از کار تاویل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس سے قطع نظر کہ پردے کے پیچھے کیا ہے، جو کچھ پردے سے باہر آیا ہے، اس نے دنیا کو ہلا ڈالا ہے۔
کئی ممالک میں ان باشندوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے جو آف شور کمپنیوں کے حصہ دار یا فائدہ کار ہیں۔ یہ مطالبہ زوروں پر ہے کہ دیکھا جائے‘ انہوں نے کب اور کیسے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا؟ اگر اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا (امکان غالب یہ ہے کہ بہت بڑے حصے پر نہیں کیا گیا ہو گا) تو پھر متعلقہ گردنوں پر پنجابی محاورے کے مطابق صافہ ڈالا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک متحد ہو کر 'سرمائے کی اس پرواز‘ کو روکیں اور اپنے اپنے ملک کی دولت کو اپنے اپنے ملکوں میں ''قید‘‘ رکھنے کے انتظامات کریں۔
دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اپنی جگہ، پاکستان میں یہ ایک بڑا داخلی مسئلہ بن چکا ہے۔ وزیر اعظم کی اولاد اس کی زد میں ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا اپنا نام کسی لیک میں تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ان کے دونوں بیٹے برسوں سے بیرونِ ملک مقیم ہیں اور وہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ جن حالات میں باہر جانے پر مجبور ہوئے تھے، وہ سب پر عیاں ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو 1999ء میں جس طرح ختم کیا گیا، وہ بھی کسی کی نگاہ سے اوجھل نہیں۔ انہوں نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے انکار بھی نہیں کیا۔ ان کے بقول یہ کمپنیاں بیرون ملک کاروبار کرنے میں سہولت دیتی ہیں، ٹیکس بھی کم ہو جاتا ہے۔ اس لئے انہوں نے انہیں قائم کیا۔ پوچھا جا رہا ہے کہ وہ بتائیں بیرون ملک کاروبار کے لئے سرمایہ کہاں سے حاصل کیا گیا؟ اگر یہ پاکستان سے باہر گیا تو کس طرح اور کس ذریعے سے گیا اور کیا اس پر ٹیکس ادا کیا گیا تھا؟ پاکستان کے 250 افراد کے نام ان کمپنیوں کے حوالے سے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے صنعت کار، تاجر اور میڈیا مالکان شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کی پیشکش کر دی ہے، لیکن اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں (تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی) کو یہ منظور نہیں۔ ان حالات میں فی الحال کوئی ریٹائرڈ جج اس ذمہ داری کو قبول کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن کا سربراہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے، بصورت دیگر دمادم مست قلندر ہو گا۔
مناسب یہی ہے کہ کمیشن کے معاملے پر تنازعہ بڑھایا نہ جائے۔ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے بعد اس کی تشکیل کر دیں، یہ کمیشن کیا کر پائے گا اور کیا نہیں یہ بعد کی بات ہے۔ آف شور کمپنیوں کو اپنے بچوں کی طرح پالنے والے ملک تعاون سے انکار کر سکتے ہیں، لیکن یہ بعد کی بات ہے، فی الحال قدم بڑھا دینا چاہیے۔ یاد رکھا جائے سڑکوں پر مسائل کے حل دریافت نہیں ہوتے، نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔کسی بھی سیاستدان کے لئے سسٹم کو کمزور کرنا اپنے پائوں پرکلہاڑا چلانے کے مترادف ہو گا۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن رہنمائوں کو اپنے اپنے پائوں کی فکر کرنی چاہیے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے]