مولانا ظفر احمد انصاری کا ایک دھماکہ خیز انٹرویو الطاف حسن قریشی صاحب نے1966ء کے آخری مہینوں میں اپنے ماہنامہ ''اُردو ڈائجسٹ‘‘ میں شائع کیا، تو ان کی شخصیت ایک دم اُبھر کر سامنے آ گئی۔ اِس سے پہلے ان سے کوئی تفصیلی تعارف نہیں تھا۔ ان کا نام شاید کسی نہ کسی تذکرے میں نظر سے گزر چکا تھا کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل تھے، اور تحریک پاکستان کے دوران انہوں نے قائد ملت لیاقت علی خانؒ کی نگرانی میں دفتری فرائض بجا لانے کی سعادت حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ کے ایک اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل نواب شمس الحسن تھے (برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کے والد) اور دوسرے انصاری صاحب۔ نواب شمس الحسن نے مسلم لیگ کا ریکارڈ سینت سینت کر رکھا اور بہت کچھ سینے سے لگا کر (اور سینے میں چھپا کر) پاکستان لے آئے۔ ان کی فراہم کردہ دستاویزات آج محفوظ ہیں، اور تحریک پاکستان پر تحقیق کرنے والوں کے لئے مستند حوالہ ... مسلم لیگ کے نظریاتی محاذ پر انصاری صاحب کی گرفت مضبوط تھی اور انہی نے مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع کے زیر قیادت جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھنے میں اہم (مگر پس پردہ) کردار ادا کیا تھا، (بعد میں حاصل کردہ معلومات کے مطابق) مولانا عثمانی کو ان پر بے پناہ اعتماد تھا۔ پاکستان بننے کے بعد، دستور سازی کا مرحلہ درپیش ہوا تو مولانا عثمانی کسی دستوری اور قانونی معاملے پر ان کی مشاورت کے بغیر زبان کھولتے تھے‘ نہ قدم اُٹھاتے تھے۔ انصاری صاحب مجلس دستور ساز کے رکن نہیں تھے، یہ شرف مولانا عثمانی کو حاصل ہوا تھا۔ قائد اعظمؒ کی نگاہِ انتخاب ان پر ٹھہری تھی۔ جب بھی کوئی مسودہ دستوریہ میں پیش ہوتا، مولانا عثمانی اس پر رائے زنی سے گریز کرتے۔ وہ انگریزی پر دسترس نہیں رکھتے تھے، جبکہ مولانا انصاری نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات امتیازی شان سے پاس کر رکھے تھے۔ وہ عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی کے بھی رمز شناس تھے۔ (مولانا انصاری کے ایک قریبی نیازمند) مولانا عبدالغفار مرحوم کے مطابق مولانا عثمانی انگریزی مسودات پر جب تک مولانا انصاری کی رائے معلوم نہ کر لیتے، اظہارِ خیال سے گریز کرتے اور انہی کے مشورے سے ترامیم اور تجاویز مرتب کرتے۔
انصاری صاحب‘ شاید کچھ اس لیے کہ سیکرٹریٹ میں کام کرتے رہے تھے، اور کچھ اس لیے کہ نمود و نمائش سے گریز ان کی فطرت میں تھا، کی ''چیمبر پریکٹس‘‘ جاری رہتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو مسلم لیگی سیاست میں نہ اُلجھایا، نئی مملکت کو اسلامی جمہوریہ بنانے اور اس کے لوازمات پورے کرنے میں لگے رہے۔ پہلی مجلس دستور ساز کی معاونت (یا رہنمائی) کے لیے بورڈ تعلیمات اسلامیہ بنایا گیا، تو اس کی صدارت کے لیے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی نظر سید سلیمان ندوی پر ٹھہری، انصاری صاحب اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس میں ممتاز ترین علما شامل تھے، اسے اسلامی نظریاتی کونسل کی ابتدائی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ کونسل بے چاری تو سفارش سے زیادہ کچھ کر نہیں سکتی تھی، لیکن بورڈ کے اختیارات زیادہ تھے اور ایک زمانے میں تو دستوریہ کے پاس کردہ کسی بل کو ''ویٹو‘‘ کرنے کا اختیار بھی‘ اس کے لیے تجویز کر دیا گیا تھا...
بات مولانا ظفر احمد انصاری کے حوالے سے شروع ہوئی تھی کہ بہت دور نکل گئی۔ ایوب خان کے دور میں انصاری صاحب جنیوا کے اسلامی مرکز میں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بن گئے۔ ان کی اس ذمہ داری میں پاکستانی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ وہ عالمی اسلامی تحریکوں کے ساتھ بھی گہرا تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان میں سیاست شجر ممنوعہ قرار پائی تو ان کی نظریاتی بے تابی نے عالم اسلام کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ موتمر عالم اسلامی، اور اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر وہ مغرب میں جا بسنے والے مسلمانوں کی نظریاتی رہنمائی اور تربیت میں مصروف ہو گئے۔ پاکستان میں نظریاتی سیاست کے ''پڑھاکو‘‘ طالب علم تو ان سے آگاہ تھے، لیکن عامتہ الناس میں ان کا کوئی گہرا تعارف نہ تھا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کے انٹرویو میں انہوں نے صہیونی سازشوں، فری میسن تحریک کی سرگرمیوں اور عرب قومیت کے علمبردار (مصر کے صدر جمال عبدالناصر اور ان کے ہم نوائوں) کو اس طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں صہیونی تحریک کی شاخیں ہیں۔ عرب قومیت کا پرچار صہیونی عزائم کی تکمیل کرے گا، اور عالم عرب کی جغرافیائی ہیئت میں تبدیلی لائے گا۔
میری صحافت کا آغاز کراچی سے ہوا، ایوب خان کا عہد آخری سانس لے رہا تھا کہ میری صحافت ابتدائی دور سے گزر رہی تھی۔ ہم خیال اخبار نویسوں میں سے کوئی مجھے مولانا انصاری سے ملانے لے گیا۔ وہ بندر روڈ پر سعید منزل کے قریب ایک مختصر سے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی بیٹھک کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے، صحافت کے پریکٹیشنرز کے لیے وہ ایک ATTRACTIVE DESTINATION ''پُرکشش پڑائو‘‘ تھی... انصاری صاحب سب کے ''چچا‘‘ تھے، ان سے کوئی بھی سوال کیا جا سکتا تھا، کوئی بھی اُلجھن ان کے سامنے رکھی جا سکتی تھی، وہ مخاطب کے ذوق اور استطاعت کے مطابق اسے نبٹا دیتے تھے۔ سنتے زیادہ اور سناتے کم۔ چند الفاظ میں مہ و سال کو سمیٹ دیتے۔ دریا کیا سمندر کو کوزے میں بند کرنے میں طاق تھے۔ مُلک میں نظریاتی بحثوں کا بازار گرم تھا، اسلام اور سوشلزم آمنے سامنے تھے۔ دائیں اور بائیں کی جنگ جاری تھی۔ ایوب خان رخصت ہو گئے تھے، یحییٰ خان نے ان کی جگہ سنبھال لی تھی۔ نئے دستور کے لیے، نئی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ انصاری صاحب کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دستور سازی سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ممکن نہ تھا۔ وہ میدان انتخاب میں نکل کھڑے ہوئے۔ کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن چنے گئے، اور 1973ء کے دستور پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں ان کی کاوشوں نے فیصلہ کن کردار بھی ادا کیا، لیکن یہ سب باتیں کسی اور وقت کے لیے۔
''چچا انصاری‘‘ کے تین بیٹوں میں سب سے بڑے ظفر اسحاق تھے، بیرون مُلک سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، تو پھر (شاید) سعودی عرب ہی کی کسی جامعہ سے وابستہ ہو گئے۔ اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تو انہوں نے اسے عزت بخش دی۔ ظفر اسحاق، اپنے والد ہی کی طرح خاموشیوں کے بنے تھے۔ اونچا تو کیا نیچا بھی نہیں بولتے تھے۔ گونگے بھی نہیں تھے، مُنہ میں باقاعدہ زبان موجود تھی، تعلیم اور تہذیب یافتہ، لیکن اسے دراز کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ان سے بھی ملاقات ہوئی، اور بے تکلفی میں ڈھل گئی، وہ ہمارے ''چچا‘‘ کے بیٹے تھے، اور انہیں بھی ہمیں اپنا فرسٹ کزن تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں تھی۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کو اللہ تعالیٰ نے فراواں رزق عطا فرمایا۔ انہوں نے کراچی میں ایک وسیع بنگلہ تعمیر کرایا، اور اسلام آباد میں بھی پُرسہولت رہائش گاہ میسر رہی۔ ایک دن بتانے لگے کہ ملیر میں مکان بنوانے کے لئے پلاٹ خرید لیا ہے۔ مَیں نے اس پر سوال کیا کہ وہاں کیوں خریدا؟ وہ تو دور پڑے گا۔ کہنے لگے، گلشن اقبال یا ایسی کسی اور بستی کی نسبت قیمت کم ہے... میرا سوال تھا، کیا وہاں مکان کی تعمیر پر بھی کم پیسے لگیں گے؟... بولے، ظاہر ہے وہ تو کم نہیں ہوں گے۔ عرض کیا، پھر چند ہزار کی بچت کے نام پر آپ خسارے کا سودا کیوں کر رہے ہیں؟ گلشن اقبال میں مکان تیار ہو گا تو اس کی قیمت ملیر سے کہیں زیادہ ہو گی، مستقبل میں لاکھوں کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ چند ہزار کی خاطر لاکھوں کا نقصان نہ کریں، ملیر کے بجائے کسی قریبی بستی میں گھر بنائیں۔ اُس وقت تو خاموش رہے، لیکن چند روز بعد بتایا کہ مَیں نے ملیر کے بجائے گلشن اقبال میں مکان بنوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب بھی اس واقعے کا ذکر ہوتا، یوں احسان مندی سے بیان کرتے، جیسے مَیں نے ان کی جیبوں میں نوٹ ٹھونس دیئے ہوں۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری طالب علم تھے، تو خرم جاہ مراد اور (پروفیسر) خورشید صاحب کے ساتھ مل کر اسلامی جمعیت طلبہ کا دستور مرتب کیا تھا۔ اس تنظیم کے نوجوانوں سے خصوصی محبت کرتے تھے، لیکن سیاست میں غیر ضروری الجھائو ان کے نزدیک تضیع اوقات تھی۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کے ترجمہ قرآن کو انگریزی کا قالب دیا۔ تفہیم القرآن کا ایک بڑا حصہ بھی اس زبان میں منتقل کرنے کا شرف حاصل کیا۔ فقہی اور نظریاتی امور پر بہت کچھ لکھا۔ ہزاروں صفحات کو ایڈٹ کیا۔ سینکڑوں افراد ان سے متاثر ہوئے، شاگردوں کا وسیع حلقہ ان کے لیے دعا گو رہا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے طور پر اور ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر ان کی خدمات کا اعتراف سب کو ہے۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری رخصت ہوئے ہیں، تو اربابِ صحافت اور سیاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی، کسی نے ایک کان سے سنا بھی تو دوسرے سے اڑا دیا۔ نہ صدرِ مملکت کا کوئی بیان نظر سے گزرا، نہ وزیر اعظم کی توجہ ہوئی، اور تو اور ''عزیزم‘‘ سراج الحق بھی کچھ لاتعلق سے نظر آئے۔ تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے نام پر لوگوں کی نیندیں اڑانے والے سوتے رہ گئے۔ شور و غوغا کو زندگی سمجھ لینے والے معاشرے بالآخر کہاں پہنچ جاتے ہیں، یہ جانے والے کے نہیں، یہاں رہ جانے والوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے، لیکن ع
مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)