"MSC" (space) message & send to 7575

ہر کربلا کے بعد

برطانوی عوام نے یورپی یونین کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس حوالے سے کرائے جانے والے ریفرنڈم میں 52.8 فیصد لوگوں نے یونین کے خلاف ووٹ دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ 2.8 فیصد نے 40 سال پہلے شروع کیا جانے والا اتحادی سفر ختم کرنے کو یقینی بنایا ہے۔ ان کی وجہ سے اس فیصلے کی مخالفت میں پڑنے والے 48.2 فیصد ووٹ بے اثر ہو گئے کہ جمہوریت میں اکثریت کو فیصلے کا حق ہوتا ہے، اور بعض اوقات ایک ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔ برطانوی دارالعوام میں ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی ایک بار حکومت قائم کی جا چکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یورپ کو ایک ''سپر سٹیٹ‘‘ بنانے کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ عظمیٰ ایک وحدانی مُلک نہیں ایک وفاقی ریاست ہے۔ سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ، انگلینڈ کے ساتھ مل کر اس وفاق کو ''یونائیٹڈ کنگڈم‘‘ بناتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں اس وفاق کے خلاف جذبات سرد نہیں ہوئے۔ تھوڑا ہی عرصہ پہلے سکاٹ لینڈ میں علیحدگی کے سوال پر ریفرنڈم ہوا تھا، جس میں معمولی اکثریت نے ''متحدہ بادشاہت‘‘ کا حصہ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک بار پھر ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے کا جذبہ ماند نہیں پڑا۔ اس وقت جو سکاٹش پارٹی سکاٹ لینڈ میں برسر اقتدار ہے وہ علیحدگی کے حق میں پُرجوش رہی ہے، اور اب یہ جوش دھیما تو پڑ گیا ہے، سرد نہیں ہوا۔ شمالی آئرلینڈ میں بھی ''خودی‘‘ بیدار ہے۔ ان دونوں وفاقی اکائیوں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں فیصلہ کیا، لیکن انگلینڈ کے ووٹروں نے اسے ''ویٹو‘‘ کر دیا۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ''یونائیٹڈ کنگڈم‘‘ کا اپنا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے، اور اگر یورپی یونین اپنے آپ کو سنبھالنے میں کامیاب رہی، اور مزید ممالک برطانیہ کے راستے پر نہ چل نکلے، تو شمالی آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں علیحدگی پسند فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس فیصلے کے اسباب اور محرکات پر بحث ہوتی رہے گی، اور مختلف عالی دماغ مختلف نکتے برآمد کرتے رہیں گے، لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ یونین کے ارکان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد نے اس کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ معاشی طور پر دبائو کا شکار معیشتیں پوری یونین کے پائوں کی زنجیر بن گئیں۔ ہر مُلک میں سیاست کے تقاضے اپنے تھے، سو معیشت کو سیاست سے یکسر الگ کرکے سنبھالنا کارِ دشوار تھا۔ تمام یورپی (خصوصاً مشرقی) ممالک کے کارکنوں کے لیے دروازے کھلنے پر برطانیہ کے مقامی لوگوں کی شکایات بڑھ گئیں۔ وہ ملازمتوں کے مواقع محدود ہونے کے شکوے کرنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ نسلی تعصب بھی بروئے کار آیا، اور اپنی انفرادیت اور بادشاہت کو برقرار رکھنے کا جذبہ جوان ہوتا گیا۔ بہرحال جو کچھ ہوا، نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے راستے الگ ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین کے ساتھ وابستگی برقرار رکھنے کے حق میں تھے، انہوں نے ریفرنڈم کے نتائج کو اپنی اخلاقی شکست سمجھا، اور اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے حالات میں اب ان کی جماعت کسی دوسرے شخص کو قیادت سونپے۔ اس پر پاکستانی سیاست میں ایک اور اُبال آیا ہے۔ کئی سیاسی رہنمائوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے بھی اس طرح کی توقعات کا اظہار شروع کر دیا ہے، حالانکہ وزیر اعظم نے کوئی ریفرنڈم کرایا نہ ہارا، نہ ان کی کسی پالیسی کے خلاف عوام نے کوئی رائے دی۔ جہاں تک اپوزیشن کے الزامات کا تعلق ہے یا پاناما لیکس کے ہنگامے کا معاملہ ہے، تو یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی سیاست کے انداز اپنے ہیں۔ یہاں کی اپوزیشن ہو، عدلیہ ہو، میڈیا ہو یا وکلا ہوں کسی پر بھی برطانوی اداروں کا کوئی عکس موجود نہیں ہے۔ جہاں دھرنوں کے ذریعے حکومتیں بدلنے کا خواب دیکھا جائے، اور جہاں چند فیصد ووٹ حاصل نہ کرنے والے بھی انقلاب کے داعی بن کر بڑی اپوزیشن جماعتوں کو اپنی امامت قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہوں، اور یہ جماعتیں سر تسلیم خم کرنے کا مظاہرہ بھی کر رہی ہوں، وہاں سارا ضابطہ اخلاق وزیر اعظم پر نافذ کرنا کیوں کر ممکن ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات کے خلاف خود اس کے اپنے قائم کردہ اعلیٰ سطحی ٹریبونل نے جن خیالات کا اظہار کیا، اور جن جن حضرات کے خلاف ''ورڈکٹ‘‘ دیا ان میں سے کسی نے بھی نہ حکومتی عہدہ چھوڑا، نہ جماعتی... پارٹی قیادت نے بھی ان کو اس کا مشورہ دینے کے بجائے اپنے ٹریبونل کو چلتا کر دیا، تو وہاں کسی اور جماعت یا شخص سے یہ جماعت اور اس کے ذمہ دار استعفے کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپی یونین کے قیام اور استحکام سے مختلف خطوں کے ممالک کے درمیان تعاون کے جذبے کو مہمیز ملی تھی، جنوبی ایشیا میں بھی سارک کا قیام عمل میں آیا، اور یہ خواب دیکھا جانے لگا تھا کہ ایک دن سارک ممالک اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ہاتھ میں ہاتھ ڈال سکیں گے۔ یہ خواب دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا (اور ہے) کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان ایک دوسرے کی طرف محبت سے دیکھیں گے، خصوصاً پاکستان اور بھارت کے وسائل جنگی تیاریوں کی نذر نہیں ہو سکیں گے، اور معاشی تعاون سیاسی مفاہمت کے دروازے بھی کھولے گا... توقعات اور ان خوابوںکو بہرحال صدمہ پہنچے گا، اور فاصلوں کو نیا حوصلہ ملے گا۔
ایک بڑی خبر یہ بھی آئی ہے کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی شمولیت ممکن نہیں ہو سکی۔ وزیر اعظم نریندر مودی بین الاقوامی منظر پر بہت سرگرم تھے، انہوں نے امریکہ سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنایا اور کئی مسلمان ممالک سے بھی روابط کو بہتر کیا۔ اس پر پاکستان میں ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے دانشور اور تجزیہ کار پاکستانی حکمرانوں کو طعنے دے رہے تھے، اور ان کا جینا دوبھر بنائے ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مودی صاحب دُنیا فتح کر رہے ہیں، اور پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ہے، بلکہ تنہا ہو گیا ہے۔ اس کا کوئی ہمنوا نہیں رہا... حالانکہ بھارت ایک بڑا مُلک ہے، اس کا اپنا وزن ہے، اپنی صلاحیتیں ہیں، اسے حق حاصل ہے کہ دُنیا کے مختلف ممالک سے اپنے تعلقات بہتر بنائے، پاکستان اپنے کسی دوست مُلک کو یہ ''حکم‘‘ نہیں دے سکتا کہ وہ صرف اس کا ہو کر رہے، اور دوسروں سے کٹّی کر لے۔ دُنیا اب سرد جنگ کی مریض نہیں ہے، ہر مُلک کے ہر مُلک سے اپنے تعلقات ہیں، لیکن پاکستانی عوام اور ریاست کو زچ کرنے کی خواہشیں پالنے والے طرح طرح کے خود ساختہ ترازو لے کر بازار میں بیٹھے رہتے ہیں، اور اپنے مُلک کو کم وزن ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے اس پروپیگنڈے کی قلعی یوں کھل گئی کہ بھارت کو نیوکلیئر سپلائی گروپ میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ چین اور ترکی سمیت کئی ممالک نے زور دیا کہ پہلے این پی ٹی پر دستخط کیے جائیں، پھر یہ سوال زیر بحث آئے گا۔ یہ امکان بھی واضح ہوا کہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے گا تو اتفاق رائے ہو سکے گا، گویا دونوں ایک ساتھ داخل ہوں گے، یا خروج کے مقام پر کھڑے ایک دوسرے کو کوسنے دیتے رہیں گے۔ بڑھکیلے دانشور اگر اب اپنا مُنہ نوچ لیں تو ان کو اس پر تین تالیاں پیش کر دی جائیں گی، وگرنہ تین حرف تو ہیں ہی۔
ان بین الاقوامی خبروں سے پہلے جو خبر ہر پاکستانی کے لیے انتہائی صدمے کا باعث بنی، وہ پاکستان کے انتہائی ممتاز اور نامور قوال امجد صابری کی ٹارگٹ کلنگ کی تھی۔ امجد صابری پاکستانی ثقافت، تہذیب اور شائستگی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ ان کا خاندان صدیوں سے فن قوالی کو چاند لگاتا آ رہا ہے۔ ان کے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول احمد صابری نے اسے نئی وسعتوں اور رفعتوں سے آشنا کیا، اور کئی عشرے اس شعبے میں راج کیا۔ ان کے انتقال کے بعد امجد صابری اس روایت کی نہ صرف حفاظت کر رہے تھے، بلکہ اسے آگے بڑھا رہے تھے۔ چالیس سالہ یہ نوجوان دُنیا بھر میں اپنے فن کی شناخت تھا، اور پاکستان کی صوفی روایت کی بھی۔ امجد کو نشانہ بنانے والوں کی گرفتاری تو ابھی تک ممکن نہیں ہو پائی، لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے قاتل اسی قماش کے ہوں گے، جو حکیم سعید کے قاتل تھے۔ امجد صابری کی شہادت کا غم پورے پاکستان کیا، پوری دُنیا میں منایا گیا، وہ ہر شخص کے تھے، اور ہر شخص نے اُنہیں اپنا سمجھا۔ رمضان کے مہینے اور شدید گرمی میں ہزاروں افراد نے ان کے جنازے میں شرکت کرکے ریکارڈ قائم کیا۔ ان کے قاتل یقینا اہل پاکستان کے حوصلے توڑنا چاہتے ہوں گے،... پاکستانی قوم نے انہیں مسکت جواب دے دیا ہے، اُن کی خواہشات پر تھوک دیا ہے، اور امجد صابری کے خون کے ساتھ اپنا خون ملانے کا عزم کمزور نہیں ہونے دیا۔ ؎ 
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں