"MSC" (space) message & send to 7575

’’سب سے بڑا خادم‘‘

عبدالستار ایدھی (کم و بیش) نو دہائیاں اِس دُنیا میں گزار کر رخصت ہوئے ہیں۔ پورا پاکستان کیا، پوری انسانیت اُن کا ماتم کر رہی ہے، ہر شخص کو احساس ہو رہا ہے کہ کوئی قیمتی متاع اس سے چھن گئی ہے۔ اُن کا سوگ سرکاری طور پر منایا جا رہا ہے اور یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اُنہیں اعلیٰ ترین ملکی اور عالمی اعزازات سے نوازا جائے گا۔ ایک دن کے لیے پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا، اور مختلف صوبوں میں اُن کا تین دن تک (سرکاری) سوگ منایا جائے گا۔ وہ ایک ایسے آدمی تھے، جن کو ہر شخص سے پیار تھا، اور جن سے ہر شخص پیار کرتا تھا۔ ان کی شناخت کسی مذہب، مسلک، علاقے، رنگ یا نسل سے نہیں تھی، وہ ان سب سے اوپر تھے، بہت سال پہلے اُنہیں سیاست سے دلچسپی رہی، کراچی کے ایک حلقے سے انتخاب بھی لڑا، لیکن پھر کنارہ کش ہو گئے۔ انگریزی محاورے کے مطابق یہ ان کی چائے کا پیالہ نہیں تھا... اگر سیاست میں رہتے تو خدا جانے لوگوں کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف اُبھارنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلتے۔ کس کس طرح اپنی جگہ بنانے کے لیے دوسروں پر زمین تنگ کرتے، لیکن وہ جمع اور ضرب کے آدمی تھے، تفریق اور تقسیم کے نہیں، اِس لیے بلا تفریق لوگوں کی خدمت میں لگ گئے۔
ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد عبدالشکور ایدھی مختلف شہروں کے پھیرے لگا کر اپنا مال بیچا کرتے تھے، ان کے ہندو آبائواجداد نے تین صدیاں پہلے ایک بزرگ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے قبیلے کو ''مومن‘‘ کا لقب دیا گیا، جو بعد میں قدرے بگڑ کر ''میمن‘‘ بن گیا۔ ٹھٹھہ کا رہنے والا یہ قبیلہ صحرائے تھر یا رن آف کچھ کے راستے سے (بھارتی) گجرات میں کاٹھیاواڑ جا پہنچا۔ یہ میمن حضرات چار شاخوں میں بٹے ہوئے تھے، ان کا تعلق بانٹوا میمن گھرانے سے تھا۔ انہوں نے ''ایدھی محلہ‘‘ کے نام سے بسے ہوئے ایک گائوں میں رہائش اختیار کی، اور ایدھی کہلانے لگے، جس طرح کہ گورنر خیبر پختونخوا ''جھگڑا‘‘ نامی گائوں سے تعلق کی وجہ سے اقبال ظفر جھگڑا کہلاتے ہیں۔ عبدالستار کے والد اکثر گھر سے باہر رہتے، ان کی والدہ اپنی برادری کی خبرگیری کرتیں۔ یہیں سے وہ سماجی خدمت کی اس لذت سے آشنا ہوئے، جو بعد میں ان کی شناخت بن گئی۔ مدرسے میں زیر تعلیم تھے کہ دو گروپوں میں جھگڑا ہو گیا۔ اس کی پاداش میں انہیں نکال باہر کیا گیا۔ وہ اپنی والدہ کا ہاتھ بٹانے لگے۔ والدہ لوگوں کی خدمت میں اِس طرح محو تھیں کہ اُنہیں احساس ہی نہ ہو سکا کہ اُن کا بیٹا سکول نہیں جا پا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ والدہ انہیں دو پیسے دیا کرتی تھیں، ایک خود خرچ کرنے کے لیے، اور ایک دوسرے ضرورت مندوں کے کام آنے کے لئے ان دِنوں ایک پیسہ بھی اپنی قدر رکھتا تھا، اس سے کئی بچوں کی من پسند چیزیں خریدی جا سکتی تھیں کہ اسے (غالباً) چار پائیوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا۔
عبدالستار کی جوانی کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان بھی شباب پر آتی گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ان کے علاقے میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا، تو بہت سے نوجوان مسلم لیگ کے چار آنے کے ممبر بن گئے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں پارٹی فنڈ جمع کرنے کے لیے مہم چلائی، اور پینتیس ہزار روپے کی خطیر رقم اکٹھی کر لی۔ ہندو مسلم تنازعہ ایسی شدت اختیار کر گیا کہ ہندوئوں کے جتھے حملہ آور ہونے لگے۔ چار ہزار میمن سمندر کے راستے کراچی روانہ ہوئے، اور یہاں پہنچ کر سکون کا سانس لیا۔ نوجوان عبدالستار نے اپنا بزنس شروع کر دیا، اور میٹھا در میں ایک ڈسپنسری کی بنیاد بھی رکھی۔ بانٹوا میمنوں نے اسے چلانے کے لیے آٹھ رکنی بورڈ بنایا تو ان کے والد سے پوچھا کہ آپ کیا عطیہ دیں گے، انہوں نے ترت جواب دیا، مَیں نے آپ کو اپنا بیٹا عطیہ کر دیا ہے۔ اس ڈسپنسری کے دائرہ کار پر نوجوان عبدالستار کا بورڈ کے دوسرے ارکان سے اختلاف پیدا ہو گیا۔ وہ اسے برادری تک محدود رکھنا چاہتے تھے، جبکہ عبدالستار کا کہنا تھا کہ ضرورت مندوں میں تفریق نہیں ہونی چاہیے، سیٹھ لوگ ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھے، ان کے والد نے انہیں ان سے الگ ہو کر اپنی شمع جلانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے اپنے پس انداز کیے ہوئے 2300 روپے سے ایک آٹھ مربع فٹ کی چھوٹی سی دکان حاصل کر لی۔ اُس کے باہر ٹین کا ایک چھوٹا سا منی بکس (MONEY BOX) رکھ دیا۔ ''میمن والینٹری کور‘‘ کا بورڈ آویزاں کر دیا۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ شامل ہو گئی اور ایک ایسی ڈسپنسری کی بنیاد رکھ دی گئی جس کے دروازے بلا تفریق سب پر کھلے تھے۔ کسی بھی برادری، مسلک، رنگ اور نسل کا ضرورت مند یہاں سے فائدہ اُٹھا سکتا تھا۔ عبدالستار ہول سیل سے ادویات خریدتے، اور سستے داموں بیماروں کو فراہم کرتے۔ مقررہ تنخواہ پر ڈاکٹر کی خدمات بھی حاصل کر لیں، جو فیس کے بغیر مریضوں کا معائنہ کرتا اور ان کے لیے ادویات تجویز کرتا تھا۔ اس ڈسپنسری کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
اس کے ساتھ ہی نوجوان عبدالستار کے دِل میں خواہش پیدا ہوئی کہ دُنیا کے مختلف ممالک کو دیکھے، اور جائزہ لے کہ وہاں کا سسٹم کس طرح کام کر رہا ہے۔ وہ بس کے ذریعے مختلف ممالک کے دورے پر روانہ ہوئے۔ ایران، ترکی، یونان، بلغاریہ، یوگوسلاویہ اور انگلینڈ پہنچے، انہیں راستے میں کوئی تکلیف نہ اُٹھانا پڑی، اور وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ انگلینڈ میں لوگوں کی فلاحی ضروریات خوش اسلوبی سے پوری کی جا رہی ہیں۔ لندن میں مقیم ان کے ایک دوست نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ یہیں رہ جائیں۔ ایک معقول ملازمت مل سکتی ہے، لیکن انہوں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ اپنے دوست کو بتایا کہ میرے اندر ایک آتش فشاں اُبل رہا ہے۔ مجھے واپس جانا اور پاکستان کے لوگوں کے لیے کچھ کرکے دکھانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کے پانچ ارکان میرے نزدیک چھ ہیں، چھٹا رکن ہے، حقوق العباد کی ادائیگی۔ یہ رکن ایسا ہے جس میں تمام مذاہب کا نچوڑ آ جاتا ہے۔ اسی کے ذریعے ایک عالمی برادری وجود میں آتی ہے۔ ہر الہامی کتاب کی تلقین یہی ہے... انسانیت کی خدمت... سو عبدالستار واپس آئے اور اپنی ڈسپنسری کا نام ''مدینہ والینٹری کور‘‘ رکھ دیا۔ عورتوں کی حالت زار دیکھ کر ایک لیڈی ڈاکٹر کے زیر نگرانی زچہ خانہ بھی قائم کر دیا۔ نرسنگ کورس کی ابتدا بھی کر دی۔ تین ماہ کے نرسنگ کورس کی فیس ایک سو پچاس روپے رکھی گئی۔ وسائل کی فراہمی کے لئے قربانی کی کھالیں جمع کرنا شروع کیں۔ صدقات، خیرات اور عطیات کی اپیلیں اخباری اشتہارات کے ذریعے کی جانے لگیں۔ ان کا نعرہ تھا ''جو دے اس کا بھی بھلا، اور جو نہ دے اُس کا بھی بھلا‘‘۔
اِس دوران میں اُن کی والدہ بیمار ہو گئیں۔ ٹرانسپورٹ کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن کر ان کے سامنے تھا۔ انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ پورے کراچی میں ایک ایمبولینس ہے اور وہ بھی ریڈ کراس کی ملکیت، اس کا حصول آسان نہیں تھا۔ 1957ء میں ہانگ کانگ فلو کراچی پر حملہ آور ہوا، اور ہزاروں لوگ بیمار پڑ گئے۔ عبدالستار ایدھی نے کرائے پر خیمے حاصل کیے اور پورے شہر میں کیمپ لگا دیے۔ صرف ملیر کے علاقے میں تیرہ کیمپ قائم کیے گئے۔ انہوں نے رضاکاروں کے دستے منظم کیے، اور کیمپوں کو ضروری ادویات فراہم کرنے میں لگ گئے۔ ان کیمپوں میں منی بکس رکھوا دیے گئے، جن پر لکھا تھا، ''وہ کچھ دے دیں، جو آپ دے سکتے ہیں۔ اگر نہیں دے سکتے تو نہ دیں‘‘۔ کیمپوں میں علاج مفت ہو رہا تھا، لیکن لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق عطیات دینا شروع کر دیے۔ ایک بڑے میمن تاجر نے یہ سب دیکھ کر 20 ہزار روپے کا عطیہ دیا، اور اس کے ساتھ ہی دُنیا بدل گئی۔ اِسی شام سات ہزار روپے میں ایک پرانی وین خرید کر اُس کے دونوں طرف لکھوایا... عام آدمی کی وین... اِس وین پر صوبے بھر میں سفر ممکن ہو گیا۔ کام پھیل رہا تھا، اور مخالفت بھی بڑھ رہی تھی۔ الزام بھی لگائے جا رہے تھے۔ عبدالستار ایدھی نے اپنے ادارے کا نام ''ایدھی‘‘ رکھ دیا، اور عطیات دینے والوں کو پیش کش کرنے لگے کہ اگر وہ ان کے کام سے مطمئن نہ ہوں تو اپنے عطیات واپس طلب کر سکتے ہیں۔ 1974ء میں ایدھی فائونڈیشن کو رجسٹر کرایا گیا، اور خدمات کا دائرہ پاکستان سے باہر بھی پھیلنا شروع ہو گیا۔ عبدالستار ایدھی انٹرنیشنل فائونڈیشن نیو یارک، لندن اور کئی دوسرے شہروں میں خدمات انجام دینے لگی۔ نیو یارک میں ''ایدھی قبرستان‘‘ بھی قائم کیا گیا۔ ہوسٹل بنائے گئے... دُنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ایدھی فائونڈیشن چلا رہی ہے۔ ہر طرح کی آفت میں ہر طرح کی خدمات فراہم کرنے کے لیے ایدھی سنٹر کام کر رہے ہیں۔ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو پناہ دی جا رہی ہے، جن کا کوئی پُرسان حال نہ ہو، ان کے سر پر دست شفقت رکھنے کے لیے ایدھی فائونڈیشن موجود ہے۔ عبدالستار ایدھی نے جھولی پھیلا کر شہروں کے دورے کئے، بازاروں کے چکر لگائے، لیکن کسی حکومت کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا۔ کسی حکومت نے انہیں عطیہ دینے کی کوشش کی تو اسے بصد شکریہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لوگوں کے عطیات سے چلنے والے ایدھی فائونڈیشن کے ادارے خدمت کے نئے ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ عبدالستار ایدھی اب اپنے اللہ کے حضور پیش ہوئے ہیں، تو ایک دُنیا اعتراف کر رہی ہے کہ انسانیت کا اس سے بڑا خادم اِس صدی میں تو (کم از کم) سورج کی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ جاتے جاتے انہوں نے ڈاکٹروں کو اجازت دے دی کہ ان کے جسم کا جو بھی حصہ کارآمد ہو اسے استعمال میں لے آیا جائے۔ ان کی آنکھیں الگ کر لی گئیں، ان سے کسی نابینا کو بینائی مل سکے گی، گویا وہ ہماری آنکھ سے اوجھل رہ کر بھی ہم پر نظر رکھے رہیں گے۔ انہوں نے یہ وصیت بھی کہ مجھے پرانے کپڑوں میں دفنایا جائے، نئے کپڑے کا کفن بنانے کی ضرورت نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے صدیوں پہلے یہی تلقین کی تھی، اور فرمایا تھا کہ نئے کپڑے پر زندہ انسانوں کا زیادہ حق ہے۔ یہ بھولا ہوا سبق ہمیں ایک بار پھر ایدھی نے یاد دلا دیا ہے۔ ؎
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں