"MSC" (space) message & send to 7575

مہاراج، بڑا ہو کر دکھا دیجئے

وزیراعظم نوازشریف ابھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لئے روانہ ہوئے ہی تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے مقام پر واقع ایک بھارتی فوجی کیمپ پر حملے کی خبر آ گئی۔ اس میں مبینہ چار حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ اٹھارہ بھارتی فوجی بھی نشانہ بن گئے۔ ڈپو میں پٹرول کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا، اس میں آگ بھڑکی تو بہت کچھ بھسم ہو گیا۔ بھارتی فوج کے لئے یہ حملہ سبکی بلکہ رسوائی کا باعث بنا۔ سرکاری حلقوں اور میڈیا نے پاکستان پر توپیں تان لیں اور بغیر سوچے سمجھے الزام لگانا اور اسے بار بار دہرانا شروع کر دیا۔ انتقام انتقام کے نعرے گونجنے لگے۔ یوں لگتا تھا پورا بھارت پاگل خانہ بن گیا ہے۔ بعض گولہ بازوں کا تو بس نہیں چل پا رہا تھا کہ وہ فوراً جنگ کا اعلان کر دیں اور پاکستان پر چڑھ دوڑیں۔ پاکستان کے بعض حلقے بھی جوابی گولہ باری پر مجبور ہو گئے اور یہ کہا جانے لگا کہ وزیراعظم نوازشریف کی تقریر اور کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ ناٹک رچایا گیا ہے۔ جو فضا پیدا کر دی گئی تھی اس میں یہ بات کہی جا سکتی تھی، لیکن سنجیدہ حلقوں نے الزام تراشی کے مقابلے میں شریک ہونے کے بجائے اس بات پر زور دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، برہان وانی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد جذبات جس طرح کھول رہے ہیں اور خون کی ہولی جس طرح کھیلی جا رہی ہے ایسے میں چند کشمیری نوجوانوں کا کسی بھارتی فوجی کیمپ پر حملہ آور ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ بھارت واویلا کرنے اور جھوٹ کا طوفان اٹھانے کے بجائے اپنے کرتوتوں پر نظر ڈالے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کرے۔ اوڑی کیمپ پر حملے کے لئے کسی غیر ملکی ہتھیار یا فرد کی ضرورت نہیں تھی۔ جان ہتھیلی پر رکھنے والے مقامی اس طرح کی کارروائی کر سکتے تھے اور کر سکتے ہیں۔ بھارت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو اسے اس طرح کے کئی حملوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس کی سات لاکھ (قابض) فوج اس کے کسی کام نہیں آئے گی۔
بھارتی میڈیا، سرکاری حلقوں اور انتہا پسند جنونیوں کے پیدا کردہ ماحول میں بھی پاکستان نے اعتدال کا دامن نہ چھوڑا اور نفرت کے ڈینگی بخار کو پاکستانی معاشرے کو لپیٹ میں لینے کی اجازت نہ دی۔ وزیراعظم نوازشریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی سترہ منٹ کی تقریر میں پوری متانت اور شدت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ برہان وانی کو تحریک آزادی کی علامت قرار دیتے ہوئے بھارتی مظالم کا پردہ چاک کیا اور اپیل کی کہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلوایا جائے۔ یہ بھی متنبہ کیا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں دائمی امن قائم کرنے کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس تقریر نے بہت اچھا تاثر چھوڑا۔ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں اس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ بحیثیت مجموعی اپوزیشن رہنمائوں نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بھارت میں البتہ آگ لگ گئی۔ برہان وانی کو مجاہد قرار دینے پر بھارتی میڈیا چراغ پا تھا، حالانکہ گاندھی جی اور پنڈت نہرو بھگت سنگھ کو شہید کہتے تھے جو کہ انگریز حکمرانوں کے نزدیک دہشت گرد تھا۔
آہستہ آہستہ بھارت کی اٹھائی ہوئی گرد بیٹھ رہی ہے، حقائق واضح ہو رہے ہیں اور خود بھارت کے اندر بھی ایسی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں، جن میں پوچھا جا رہا ہے کہ کنٹرول لائن پر لگی باڑ کے باوجود کسی شخص کے لئے سرحد عبور کرنا کیسے ممکن ہوا؟ بھارتی فوج کی استعداد اور صلاحیت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اڑی حملہ کے بعد بھارت کو عالمی رائے عامہ کی تائید نہ ملنے پر بھی اضطراب صاف ظاہر ہے۔بھارت کی طرف سے ماحول میں مزید زہر ملانے کے لئے براہمداغ بگتی کو پناہ دینے کی خبریں بھی آئیں اور پاکستان کے اندر کارروائیاں تیز کرنے کے مطالبات دہرائے جانے لگے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں پہلے طے پانے والے پانی کی تقسیم کے معاہدے کی خلاف ورزی کی دھمکیاں بھی دی جانے لگیں لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں کے درمیان تصادم کسی انتہائی ہولناک عالمی المیے کا روپ دھار سکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے پر خودکش حملہ کرنے کی تمنا رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ حریف کو مارنے کے خبط میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو مار ڈالنے کو بھی خوش بختی قرار دینے والے فاتر العقل ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن ایک مسلمان کے طور پر ایٹمی ہتھیار کے استعمال کی کسی طور خواہش ظاہر نہیں کی جا سکتی کہ ایٹمی حملے سے حملہ آوروں اور مجرموں کے ساتھ ساتھ بے گناہ، پُرامن اور نہتے شہری بھی نشانہ بن جاتے ہیں ۔اسلام کسی ایک کے جرم کی سزا کسی دوسرے کو دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلمان موت کا نہیں زندگی کا پیغام ہے اور اس کے نزدیک یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو یہاں بویا جائے گا وہ اگلے جہان میں کاٹا جائے گا۔ یہاں موت اور وحشت کی کاشت کرکے آئندہ حیات جاوداں کی نوید تو نہیں پائی جا سکتی۔ اس لئے ہم نہ ایٹمی ہتھیار چلانے کی آرزو پال سکتے ہیں، نہ جارحیت کا ارتکاب کرنے کا ارادہ رکھ سکتے ہیں۔ ہماری ساری تیاری اور مساعی دفاعی ہے اور دفاعی ہی ہونی چاہیے۔ا گر ہم پر کوئی حملہ کرے گا تو اس کا منہ توڑ دیا جائے گا۔
مقامِ شکر ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے داخلی خلفشار پر بہت بڑی حد تک قابو پا چکا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو پسپا کیا جا چکا ہے، وہ اب مٹی چاٹ رہے ہیں۔ وہاں کے چپے چپے پر پاکستان سے محبت کے پھول کھلے ہوئے ہیں اور کسی میں یہ جرأت اور صلاحیت نہیں رہی کہ وفاق پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کرے۔ عوامی غیظ و غضب علیحدگی پسندوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جا چکا ہے۔ فاٹا اور دوسرے قبائلی علاقوں میں بندوق برداروں کے قدم اکھڑ چکے ہیں ۔پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ان پر کاری ضرب لگا دی ہے۔ ملک بھر کے فرقہ پرست اور انتہا پسند بھی کیفر کردار کو پہنچ رہے ہیں۔ کراچی میں رینجرز اور پولیس نے ٹارگٹ کلرز اوربھتہ خوروں کے پائوں اکھاڑ دیئے ہیں۔ ایم کیوایم کی چھتری میں چھپے ہوئے بدباطن اپنے کئے کی سزا پا رہے ہیں۔ لیاری گینگ اور دوسرے بے لگاموں پر بھی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ الطاف حسین نے 22اگست کوپاکستان کے خلاف نعرے لگا کر اپنی قبر خودکھودی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان ان سے قطع تعلق کر چکی اور ایم کیو ایم لندن کے نام پر کام کرنے والے چند غیر ملکی شہری اب بے بس نظر آتے ہیں۔ الطاف حسین کو قیدی بنا کر کراچی کو اپنے اشاروں پر نچوانے کی خواہش رکھنے والے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ مصطفی کمال اپنے رنگ میں اور فاروق ستار اور ان کے رفقاء اپنے رنگ میں پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر کھڑے ہیں۔ ان کو سلام کہ انہوں نے پاکستان سے محبت کا حق ادا کر دیا۔ الطاف حسین نے جب اپنے آپ کو پاکستان کے مقابل کھڑا کیا تو انہوں نے ان سے منہ موڑ لیا۔
پاکستان کو انتشار اور افراتفری میں مبتلا کرنے کے خواب بکھر چکے۔ اس کی دستوری زندگی کو تہہ و بالا کرنے والے تھک چکے، اپنے کام میں لگ چکے۔اب تو مملکت خداداد کی نشاۃ ثانیہ کا منظر ہے۔ چین کی دوستی نے پاکستان کے گرد دیوار چین کھڑی کر دی ہے۔بھارتی خواہشات کے علی الرغم روس کے ساتھ پہلی بار فوجی مشقیں جاری ہیں۔ اسلامی کانفرنس پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ بھارت اور پاکستان کو بات چیت کے مشورے دے رہے ہیں۔ کوئی قابل ذکر ملک بھارت کا ہم خیال ہے نہ ہم زبان۔ اسے ہوش کے ناخن لے کر وزیراعظم پاکستان کی (بات چیت کے لئے) غیر مشروط پیش کش کو قبول کر لینا چاہیے۔ دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے دل بڑا کرنا چاہیے۔ نئے مسائل پیدا کرنے کے بجائے پرانے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ہمسایہ تو ماں جایا ہوتا ہے، اس سے دشمنی پال کر اپنے ہی راستے میں کانٹے بکھرتے ہیں۔مہاراج، دل کڑا کیجئے اور بڑا کیجئے... آپ کو بھی تو بڑا ہونا ہے آخر کب تک آپ چھوٹے رہیں گے، چھوٹے پن کی کوئی حد تو ہونی چاہیے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں