مقبوضہ کشمیر میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے پورے جنوبی ایشیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سرکاری سطح پر بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار ہے، لیکن ایسی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں، جن کی طرف سے دیوار کا لکھا پڑھنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ارون دھتی رائے نے یہ کہہ کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے کہ مسئلہ بھارت کی کشمیر سے آزادی کا ہے کہ وہ اس معاملے میں آزادانہ سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے کئی بھارتی اخبار نویس بھی چیخ رہے ہیں۔ ایسی رپورٹیں چھپ رہی ہیں، جن میں حقائق کی عکاسی کی گئی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک (سابق) جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے (سابق) چیئرمین مرکنڈے کاٹجو نے معروف مجلے ''آئوٹ لک‘‘ میں کھل کر لکھ ڈالا ہے: سچی بات یہی ہے کہ زیادہ تر کشمیری نوجوان برگشتہ ہو چکے ہیں۔ بھارت کے معاملے میں ان کا رویہ بڑا جارحانہ ہے۔ ایک فوج کسی دوسری فوج سے تو لڑ سکتی ہے، لیکن وہ عوام سے نہیں لڑ سکتی... ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے عوام، حکومت اور فوج کے سامنے اب یہ حقیقت کھل کر بیان کر دینی چاہئے کہ ایک بھرپور گوریلا جنگ کے امکانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے وہ اینکر‘ جنہیں ڈان کوئکزوٹ، لارڈ ہاہا اور ڈاکٹر گوئبلز کہا جا سکتا ہے‘ ہمیں گمراہ کر رہے ہیں۔ کاٹجو صاحب لکھتے ہیں: یہ کہنا کہ تمام جنگجو سرحد پار سے آتے ہیں، حقیقت کے برعکس ہو گا‘ ان کی ایک بڑی تعداد، برہان وانی کی طرح مقامی ہے۔ یہ درست ہے کہ تمام کشمیری نوجوان مسلح اور تربیت یافتہ شدت پسند نہیں ہیں۔ اس وقت ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن زیادہ تر کشمیری نوجوانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ وہ انہیں اطلاعات، خوراک اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں۔ برہان وانی کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے۔ جسٹس کاٹجو کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگجوئوں کو چین اور پاکستان کی طرف سے ہتھیار فراہم کئے جا رہے ہیں‘ ہم پاکستان سے ہتھیاروں کی فراہمی اگر رکوا لیں تو بھی چین کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ہم اپنی ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ کی جتنی بڑیں ہانکتے رہیں، اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ کشمیر میں ہماری افواج پر حملے جاری رہیں گے، گوریلے، ضرب لگا کر، بھاگتے اور غائب ہوتے رہیں گے، جس طرح کہ بارہ مولہ کیمپ میں ہوا۔ گوریلے کے پاس تحیرّ کا ہتھیار ہوتا ہے۔ وہ وقت، جگہ اور حملے کا دورانیہ خود طے کرتا ہے۔ اگر عوام کی تائید بھی اسے حاصل ہو تو وہ ناقابل تسخیر ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فرانسیسیوں اور امریکیوں کے ساتھ ویت نام میں ہوا۔ انہوں نے تان یہاں توڑی ہے کہ مَیں کوئی ڈرائونی تصویر نہیں کھینچ رہا، لیکن میرا یہ خیال ضرور ہے کہ تمام ہندوستانیوں کو سچ لازماً بتا دینا چاہیے۔
ایک منظر یہ ہے تو دوسری طرف پاکستان کی داخلی سیاست اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے کل جماعتی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف کے زیر صدارت جمع ہو کر اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا‘ اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیا جائے۔ یہاں تک تو سب خیریت تھی، لیکن جب پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا گیا، تو تحریک انصاف نے اس میں شرکت سے نہ صرف کہ انکار کیا، بلکہ وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ بھی طلب کر لیا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر پاناما لیکس کی تحقیقات شروع نہ ہوئیں تو وزیر اعظم کو حکومت کرنے نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اپنے حامیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں جمع ہوں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس روز دارالحکومت بند کر دیا جائے گا اور اُس وقت تک وہاں سے کوچ نہیں ہو گا، جب تک حکومت گرا نہ دی جائے۔
پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے ایک دوسرے کے خوب لتے لئے، وہ وہ کوسنے دیئے گئے کہ سننے والوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ گڑے مُردے اکھاڑنے میں کوئی پیچھے نہیں تھا۔ سینیٹر مشاہداللہ اور اعتزاز احسن ایک دوسرے پر بازی لے جا رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن) چونکہ برسر اقتدار ہے، اِس لئے اس کے متعلقین سے تحمل اور برداشت کی توقع زیادہ قائم کی جاتی ہے۔ اس کے مشاہداللہ جیسے جیالوں کو کون سمجھائے کہ بعض اوقات طرح دینا ہی بازی جیت لینے کے مترادف ہوتا ہے۔ حکومت کے متعلقین کو جلتی پر تیل ڈالنے کے مقابلے میں شریک ہونا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اپوزیشن کے لہجے کو اپنانا اس کی نہیں، اپوزیشن کی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ صد شکر کہ دھینگامشتی نے طول نہ پکڑا، اور اگلے روز متفقہ قرارداد منظور کرکے کشمیر کے مسئلے پر یکسوئی کا پیغام دے ڈالا گیا۔ شیخ رشید کی یک نفری جماعت کے علاوہ عمران خان کو کسی اور سیاسی جماعت کی تائید حاصل نہیں ہو سکی۔ انہوں نے آصف علی زرداری پر اس طرح تنقید کی کہ پیپلز پارٹی خم ٹھونک کر ان کے سامنے آ گئی۔ عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ''سولو فلائٹ‘‘ نہ کریں تو اور کیا کریں؟ انہوں نے بار بار یہ بات بھی کہی کہ دوسرے سیاسی رہنمائوں سے اُنہیں رشتہ مانگنا تو مقصود نہیں ہے کہ جو بار بار ان کی منت سماجت کریں۔ یہ بات واضح ہے کہ 30 اکتوبر کے احتجاجی ہلّے میں سارا بوجھ عمران خان اور ان کی جماعت نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا لیا ہے۔ وہ مُلک بھر سے اپنے حامی جمع کرکے وزیر اعظم کو استعفے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ چیلنج صرف برسر اقتدار جماعت کے لیے نہیں، بلکہ ہر اُس شخص کے لیے ہے، جو دستور کی حاکمیت پر یقین رکھتا اور اُسی کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا خواہاں ہے۔ دستور کے مطابق وزیر اعظم کو قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد جب تک حاصل ہے، اُنہیں محرومِ اقتدار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت سے کوئی فیصلہ حاصل کر لیا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی راستہ دستور کو سبوتاژ کیے بغیر کشادہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ کرپشن ختم ہونی چاہئے، یہ بھی درست ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات ہونی چاہئے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ ایک انگلی اگر زخمی ہو جائے تو اس کا علاج دوسری انگلی کو زخمی کر لینے سے نہیں ہو سکتا۔ کرپشن ایک دن میں پیدا ہوتی، نہ ایک دن میں ختم ہو سکتی ہے۔ اگر یہ معاملہ ایسا ہی آسان ہوتا تو خیبر پختونخوا میں اِس نام کی کوئی شے موجود نہ رہتی۔ کشمیری عوام کی حقِ خود ارادیت کی تحریک جب نئی طاقت اور جولانی سے آشنا ہو رہی ہو اور پاکستانی عوام پوری دُنیا کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے پُرجوش ہوں تو پاکستانی عوام کا حق خود ارادیت کیسے سلب کیا جا سکتا ہے؟ یا یوں کہیے کہ اسے سلب کرنے کی خواہش پال کر کشمیریوں کی لڑائی کیسے لڑی جا سکتی ہے؟ اسلام آباد پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی خواہش پالنے والے سری نگر کی آزادی کا پرچم کیسے لہرائیں گے؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)