"MSC" (space) message & send to 7575

زرداری کی واپسی

سابق صدر آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کر واپس وطن پہنچ گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ چند روز کے لئے یہاں قیام کریں گے اور اپنی مرحومہ اہلیہ کی برسی کی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد دبئی روانہ ہو جائیں گے کہ... ''گوشے میں ''قفس‘‘ کے مجھے آرام بہت ہے‘‘... زرداری صاحب ایک دھواں دھار تقریر کرنے کے بعد بیرون ملک روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے فوجی قیادت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ تم تو تین سال کے لئے آتے ہو، لیکن ہمارا قیام یہاں مستقل ہے۔ اس وقت ڈاکٹر عاصم اور زرداری صاحب کے کئی قریبی افراد کے خلاف کارروائیاں جاری تھیں اور فضا میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے زرداری صاحب کا گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ گورنر ہائوس کراچی کے ایک اعلیٰ ترین سطح کے اجلاس میں جنرل راحیل شریف اور ان کے درمیان (مبینہ طور پر) ایسے جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا جنہیں کسی طور خوشگوار نہیں کہا جا سکتا۔ زرداری سٹپٹائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے دل کی بھڑاس نکال لی۔ بادل کی طرح گرجے، بارش کی طرح برسے اور پھر ہوا کی طرح یہ جا اور وہ جا۔ اس تقریر کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان سے وزیر اعظم نواز شریف کا براہِ راست رابطہ منقطع ہو گیا۔ عمران خان کے دھرنا نمبر ایک کے دوران پیپلز پارٹی نے ڈٹ کر ان کی مخالفت کی تھی۔ پارلیمنٹ کی طاقت سے نادیدہ قوتوں کو نوشتہء دیوار پڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔آتشیں تقریر کے بعد نواز، زرداری طے شدہ ملاقات منسوخ ہو گئی۔ فواد حسن فواد کو معذرت کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ وزیر اعظم اس تقریر کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے کہ حریف یہ طوفان اٹھا سکتے تھے کہ انہوں نے اس پر زرداری کی پیٹھ ٹھونکی ہے۔ ملاقات سے معذرت نے زرداری صاحب اور وزیر اعظم کے درمیان فاصلے پیدا کر دیے۔ اس سے پہلے وہ ایک دوسرے سے بے تکلفانہ مل سکتے یا ٹیلی فون پر بات کر سکتے تھے۔ اس کے بعد یہ ممکن نہ رہا۔ زرداری صاحب اس سبکی کو پی تو گئے، لیکن بھلا نہیں پائے۔ دونوں کے درمیان اب رابطہ بلاواسطہ نہیں رہا۔
زرداری صاحب کو بقول بلاول ان کے ڈاکٹروں نے سفر کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اور بات کہ مذکورہ ڈاکٹروں کے نام کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ اہلِ سیاست سے ڈاکٹروں کا تعلق بھی خوب ہے، یہ ہر مشکل وقت میں ان کے کام آتے ہیں۔ ایسی ایسی بیماریاں ایجاد کر لیتے ہیں جو صرف اہلِ سیاست کو لاحق ہوتی ہیں اور اپنے اثرات چھوڑے بغیر رخصت بھی ہو جاتی ہیں۔ اس موضوع پر سیاست یا تاریخ کے طالب علم پی ایچ ڈی کے کئی مقالے تحریر کر سکتے ہیں کہ کس سیاستدان کو کس وقت کیا ناقابل بیان (یا ناقابل علاج) بیماری لاحق ہوئی‘ ایک معینہ عرصے تک اس سے چمٹی رہی اور اس کے بعد کبھی پلٹ کر بھی اس کی طرف نہیں آئی۔ ہمارے ہاں ڈاکٹروں نے ایسے ایسے امراض دریافت کر لئے ہیں جن کی بدولت مریض کا چلنا پھرنا ممکن نہیں رہتا، اس کا بیرون ملک جانا بھی ضروری ہو جاتا ہے، وہ عدالت میں حاضر ہونے کے قابل بھی نہیں ہوتا، لیکن حالات بدلتے ہی رفوچکر ہو جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان کے معالجین نے انہیں پاکستان کی کسی عدالت میں پیش ہونے کے ناقابل بنایا، بیرون ملک بھجوایا اور اب وہ وہاں چوکڑیاں بھرتے پھر رہے ہیں۔ جب وطن واپسی کی بات کی جائے تو کمر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں کہ نگوڑی سے پوچھ کر بتائوں گا۔
زرداری صاحب کا معاملہ پرویز مشرف سے خاصا مختلف ہے۔ جس نے بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہے، جانتا ہے کہ وہ ہمیشہ پرہیز یافتہ اشیا استعمال کرتے ہیں اور ادویات بھی ان کی خوراک کا حصہ ہیں۔ جیل سے یوں وہ نہیں گھبراتے کہ کئی سال پسِ دیوار زنداں رہ کر مجید نظامی مرحوم تک سے ''مردِ حر‘‘ کا خطاب پا چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے تو ابھی اس مکتب میں قدم نہیں رکھا۔ دیکھیں راحیل شریف صاحب کے جانے کے بعد ان کی حفاظت کون کرتا ہے؟... عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ زرداری صاحب واپس آئے ہیں تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ آرمی چیف، کور کمانڈر کراچی، ڈی جی رینجرز سندھ، ڈی جی آئی ایس پی آر... زرداری صاحب نے بھی کراچی پہنچ کر بدلی ہوئی تقریر کی۔ ایک مدبر سیاستدان کی طرح ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے، لوگوں کو امید دلائی اور پاکستان کے اچھے مستقبل کی نوید دی، لیکن ان کی آمد سے پہلے رینجرز نے ان کے ایک انتہائی قریبی دوست کے دفتر پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کر لیا۔ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ اس سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بہت کچھ بدلنے کے باوجود سب کچھ نہیں بدلا۔ ادارے اپنے ہاتھ دکھانے پر بضد ہیں۔ نام بدلنے سے کام نہیں بدل پایا۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنے اطوار بدل لے۔ سرکاری ملازمین (بشمول آئی جی سندھ) کو ذاتی ملازم سمجھنا چھوڑ دے۔ ان سے کاروباری مفادات کی رکھوالی کی توقع نہ قائم کرے۔ سیاسی اور غیر سیاسی افراد اور اداروں سے اگر یہ بات عرض کر دی جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ ماضی کو دہرانے سے دونوں گریز کریں، وگرنہ سیاست بھی ہاتھ ملے گی اور وہ بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، جو دفاعِ وطن کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں