گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مُلک بھر میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور کے خود کش حملے سے جس لہر کا آغاز ہوا تھا، وہ سیہون شریف تک جا پہنچی۔ دو اعلیٰ پولیس افسر اِس کی نذر ہوئے، اور لال شہباز قلندر کی درگاہ بھی خون میں نہلا گئی... ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں... ایک سو سے کہیں زیادہ افراد لقمہ ٔ اجل بنے، اور کئی سو زخمی ہو گئے۔ ان میں سے کون کون معمول کی زندگی شروع کر سکے گا، ابھی اِس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ ایک بڑی تعداد کو شاید عمر بھر کا روگ لاحق ہو جائے، اور متاثرین اپنے پائوں پر کبھی کھڑے نہ ہو پائیں۔ پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں بھی وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعے فضا کو خون آلود کیا گیا۔ عمران خان صاحب نے لاہور میں ہلاکتوں کے بعد پنجاب پولیس کے لّتے لیے تھے اور خیبر پختونخوا کی پولیس کی خود مختاری کو سامنے رکھتے ہوئے اول الذکر کی ''غلامی‘‘ کو دہشت گردوں کی ''آزادی‘‘ کا ایک بڑا سبب قرار دیا تھا، لیکن اگلے ہی روز پشاور اور مہمند ایجنسی میں تین خود کش حملوں نے 8 افراد کو شہید کر ڈالا۔ اس پر خان صاحب یہ دلیل لائے کہ جب تک فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم نہیں کیا جاتا، دہشت گردی کا سدِ باب ممکن نہیں۔ خان صاحب نے جو کچھ کہا، اس میں حقیقت موجود ہو سکتی ہے، یقینا پنجاب (اور دوسرے دو صوبوں) کی پولیس کو بھی ایک خود مختار ادارے کی حیثیت ملنی چاہئے۔ اس ضمن میں جو کچھ خیبر پختونخوا میں کیا گیا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ پولیس کو سیاست کا غلام بنا کر ریاست کو آزاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے انتظامیہ کی سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہونے چاہئیں تاکہ وہ آزادانہ اپنے فرائض ادا کر سکیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ قبائلی علاقوں کو اب قومی دھارے سے الگ ر کھنا ممکن نہیں ہو گا۔ ان کا ''خصوصی سٹیٹس‘‘ بعض مخصوص مفادات کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے، فاٹا اور پاکستان کے عوام کے لیے اِس میں فائدہ ڈھونڈنا مشکل ہے۔ قبائلی علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوان صدیوں پرانے رواجوں کے تحت زندگی گزارنے کو تیار نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کی جناب سرتاج عزیز کی سربراہی میں اپنی قائم کردہ کمیٹی یہ سفارش پیش کر چکی ہے کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جائے۔ پارلیمنٹ میں اِس پر بحث ہو چکی، اور اس پر چند افراد کے علاوہ پوری قوم کا اتفاق بھی ہو چکا۔ جلد از جلد اِس معاملے کو حتمی شکل دینی چاہیے، لیکن یہ کہنا کہ دہشت گردی اس سے ختم ہو کر رہ جائے گی، اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اگر محض قومی دھارے میں شرکت سے حالات معمول پر آ سکتے تو پھر ان چاروں صوبوں میں تو کوئی واردات نہیں ہونی چاہیے تھی، جو آزادی کے بعد سے اب تک دستوری زندگی گزار رہے ہیں۔
عمران خان صاحب اور دوسرے قومی رہنمائوں کی خدمت میں یہ گزارش بے جا نہ ہو گی کہ دہشت گردی کے اسباب اور اس کے خلاف اقدامات کا جائزہ لیتے وقت معروضیت سے کام لیں، اور ہر قسم کے سیاسی، گروہی، لسانی اور مذہبی اختلافات سے اوپر اُٹھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔ دستور جمہوریت اور سیاست زندہ معاشروں کی ضرورت ہے، قبرستانوں کی نہیں۔ اگر کوئی معاشرہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کی گرفت میں رہے گا، تو اس میں اعلیٰ انسانی اقدار کے فوائد پر لیکچر کون سنے گا؟ اس لیے سب کے مفاد میں ہے کہ اس معاملے میں سیاست بازی سے گریز کریں۔ یہ محض کسی ایک صوبائی یا وفاقی حکومت کا معاملہ ہے، نہ کسی ایک عسکری یا سول ادارے کا۔ یہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ سب کا مستقبل اِس بات سے وابستہ ہے کہ امن و امان بحال ہو، اور کوئی بھی شخص یا گروہ قانون کو ہاتھ میں نہ لینے پائے۔ مہذب انسانی معاشروں میں طاقت کے استعمال پر ریاست کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ وہی اسے قانون کے مطابق استعمال کرتی، اور تجاوز کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچاتی ہے۔ کسی گروہ یا جتھے کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہے ''مجرم‘‘ قرار دے ڈالے، اور خود ہی اسے تہہ تیغ کرنے کی ذمہ داری بھی اُٹھا لے۔ کسی شخص (یا جماعت) کا کسی دوسرے شخص یا جماعت کو واجب القتل ٹھہرانے والا خود واجب القتل ہے اور ریاست کی اولین ذمہ داری زمین کو اس کے بوجھ سے نجات دلانا ہے۔
تمام تر غم و غصے کے باوجود اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج پاکستانی ریاست دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ چوکس ہے۔ پنجاب پولیس نے چند روز کے اندر خود کش حملہ آور کا شریک مجرم پکڑ لیا ہے، سیف سٹی منصوبہ اس میں معاون ثابت ہوا ہے۔ اس گرفتاری سے سہولت کاروں کی ایک پوری زنجیر بے نقاب ہو چکی ہے۔ مت بھولئے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی اسباب ہیں۔ یہاں من مرضی کا انقلاب برپا کرنے کی خواہش پالنے والے بھی موجود ہیں، دوسروں کو اپنی فکر کا غلام بنانے والے بھی سرگرم ہیں اور ہمسایہ ملکوں کی شہ پر عدم استحکام پیدا کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ کشمیر کے مسئلے سے لے کر پاک چین راہ داری تک بہت کچھ توجہ طلب ہے۔ بھارتی سیاسی اور فوجی نیتا علی الاعلان پاکستان میں دہشت گردی کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ افغانستان کی حکومت ہر واردات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی ہمسایہ ملکوں کی طرف انگلی اٹھانے والوں کی کمی نہیں ہے، ان کے پاس بہت سا مواد اور دلائل بھی موجود ہیں۔ بلوچستان سے تو بھارت کا ایک حاضر سروس فوجی پکڑا بھی جا چکا ہے اور ابھی تک پاکستانی اداروں کی قید میں ہے۔ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ بھارت، افغانستان اور پاکستان‘ تینوں مل بیٹھیں۔ ایک دوسرے کے الزامات، خدشات اور شبہات پر ٹھنڈے دِل سے غور کریں۔ آپسی اختلافات بات چیت کے ذریعے طے کرنے کا عہد کریں اور پورے خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ فورس کا قیام عمل
میں لائیں۔ طیش میں آ کر کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جو معاملات کو مزید پیچیدہ کر دے۔ افغان سفارت کار کو جی ایچ کیو میں طلب کرنا ایک غیر معمولی اقدام ہے، وزارتِ خارجہ کا کام وزارتِ خارجہ ہی کو کو کرنا چاہئے۔ یہ طلبی وزیر اعظم کی مرضی سے ہوئی ہے تو
بھی، اور اگر اس سے بالا ہوئی ہے تو بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ افغان علاقے کے اندر جا کر کارروائی کا تاثر بھی نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ ہاں، افغانستان میں موجود امریکی فوج کے کمانڈر سے براہِ راست رابطے کو درست سمت میں درست قدم کہا جائے گا۔ چین کو اس سب پر اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ چین کے تعلقات اگرچہ تینوں ملکوں سے یکساں نہیں ہیں، تاہم اس کی کسی سے ''کٹّی‘‘ بھی نہیں ہے۔ بیجنگ دہلی اور کابل سے براہ راست رابطہ رکھتا ہے، اس لئے اگر وہ مشترکہ لائحہ عمل بنانے میں معاونت کرے تو حالات کو سنبھالا جا سکتا ہے۔ جو ملک تعاون کرنے پر آمادہ نہ ہو، باقی ممالک اکٹھے ہو کر اس کا ناطقہ بند کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق لڑائی (اور لسَی) میں اضافہ کرنے کے لئے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے ختم یا کم کرنے کے لئے ایڑی اور چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے۔ سو، اس خطے کے سارے باسیوں کو اپنی اپنی ایڑی اور چوٹی بچانے کے لئے اپنا اپنا زور لگانا پڑے گا۔
منصور طیب مرحوم
گزشتہ دِنوں ہمدم دیرینہ شیخ منصور طیب طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ ہفت روزہ ''اسلامی جمہوریہ‘‘ کے پبلشر اور ایڈیٹر تھے۔ بھٹو صاحب کے عہد میں جبکہ کسی ہفت روزے کے ڈیکلریشن کا حصول جوئے شیر لانے سے بھی کٹھن تھا، اور میرے زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزوں کی اشاعت (یکے بعد دیگرے) ناممکن بنا دی جاتی تھی، شیخ منصور طیب مرحوم پوری جرأت اور ہمت کے ساتھ میرے ہم سفر بنے۔ بھٹو عہد کے آخری ایام میں ہفت روزہ ''اسلامی جمہوریہ‘‘ میرے زیر ادارت شائع ہوتا رہا، اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس دور کے خاتمے کے بعد منصور مرحوم نے اپنے مجلے کی معمول کے مطابق اشاعت شروع کر دی۔ اے کاش، اُن کی اس جرأت و ہمت کو سرکاری سطح پر بھی تسلیم کیا جائے اور انہیں بعد از مرگ اعزاز سے نوازا جائے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]