"MSC" (space) message & send to 7575

’’سول، ملٹری تعلقات‘‘

سول، ملٹری تعلقات‘ ہمارے دانشوروں، تبصرہ نگاروں، تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کے پسندیدہ اور لذیذ موضوع ہیں۔ ان کے بارے میں بیسیوں کتابیں لکھی جا چکیں، درجنوں کیا سینکڑوں مقالے رقم ہو چکے۔ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر ان گنت نکتے نکالے اور شوشے اڑائے جا چکے۔ ریٹائرڈ فوجی افسروں کو تو بزعم خود اس موضوع پر بھرپور گرفت کا دعویٰ رہتا ہے، اور اس سے قطع نظر کہ فوجی حلقوں میں ان کی کوئی وقعت اور اہمیت ہے یا نہیں، سویلین سامعین پر وہ رعب جھاڑتے اور فوج کے ترجمان بن بن کر دھمکاتے اور ڈراتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان تعلقات پر جو بحثیں جاری رہتی ہیں، ان کی وجہ سے وہ خراب نظر آتے یا خراب ہو ہو جاتے ہیں، یا خرابی کی وجہ سے مناظرے برپا ہوتے ہیں۔ اس بارے میں بھی پی ایچ ڈی کے متعدد مقالے لکھے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہاںسول، ملٹری تعلقات کے وسیع تر دائرے کی نہیں، صرف اس پر بحث و تمحیص کے اثرات یا یوں کہہ لیجئے کہ میڈیا کی توجیحات کی بات ہو رہی ہے۔
یہ کہنا مشکل ہو گا کہ سو فیصد میڈیا کی بی جمالو ہی تنائو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ تاریخی طور پر سول اور ملٹری کے درمیان ساس بہو کا معاملہ پایا جاتا ہے۔ ماں اور بیٹی کے درمیان جو بھی تلخی ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کے جتنے بھی لتّے لے لیں، اکثر معاملہ رات گئی، بات گئی والا ثابت ہوتا ہے۔ چند لمحوں بعد نہیں تو چند دِنوں بعد سہی، وہ شیر و شکر نظر آتی ہیں، اور ایک دوسرے پر یوں، واری صدقے جا رہی ہوتی ہیں کہ جیسے کبھی کوئی ''تبادلہ خیالات‘‘ ہوا ہی نہیں تھا۔ اگر کوئی لگائی بجھائی کی کوشش کرے تو اسے دھتاّ بتا دیا جاتا ہے، جبکہ ساس اور بہو کے درمیان ہلکی سی تندی کے اثرات بھی دِنوں کیا مہینوں جاری رہتے ہیں۔ معمول کے الفاظ تک سے طرح طرح کے معانی نکال لیے جاتے ہیں، اور ایک دوسرے کو زچ کر کے اپنی اپنی بلائیں لے لی جاتی ہیں۔ ماں، اور بیٹی ایک دوسرے کی ڈھال بنی رہتی ہیں۔ ایک دوسرے کی چادر پوشی کے لیے ہر وقت تیار۔ منفی الفاظ کی بھی مثبت تشریح سے گریز نہیں کیا جاتا، جبکہ ساس، بہو روزمرہ کے معمولات سے بھی بدبوئوں کے بھبھکے برآمد کر لیتی ہیں... پاکستان میں چونکہ بار بار مارشل لاء لگا، اور سیاست دانوں کی مبینہ بداعمالیوں کی سزا دینے کے لئے اقتدار اور سیاست کے ایوانوں سے انہیں نکالا جاتا رہا، اس لئے اب ہلکی سی کھٹ پٹ پر بھی ایٹمی دھماکے کا گمان گزرتا ہے۔ اہلِ اقتدار کو ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ کوئی گھات میں ہے‘ ہر قدم کی چاپ ہے ''تصویر یار‘‘... ملٹری حلقے ہر بات کو دفاعِ وطن کے حوالے سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں، دشمنوں کو دوست بنانے کی ہلکی سی کوشش (یا خواہش) کو بھی وہ سنگین خطرہ سمجھ لیتے ہیں۔ سویلین دستور کی کتاب سرہانے رکھ کر سوتے، اور فوجی بالادستی کے خلاف اس کی شقوں کا ورد کرتے رہتے ہیں، جبکہ فوجی دماغ انہیں بے شمار دفعات میں سے ایک، دو یا تین قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انہیں اسی طرح بآسانی نظر انداز کیا جا سکتا ہے جس طرح انتظامی اور عدالتی ادارے دستور کی متعدد دفعات کو حسبِ موقع نظر انداز کر کے بانسریاں بجاتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں ''ڈان لیکس‘‘ نام کا جو تنازعہ اٹھا، اُس کا سر پیر تک (کم از کم) ان لوگوں کو تو معلوم نہیں ہو پا رہا جن کی عمریں صحافت کی وادی میں گزری ہیں۔ پاکستان ہی نہیں دُنیا کی تاریخ میں بھی پہلی بار یہ تماشا دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی اخباری رپورٹ کی بنیادی ذمہ داری اخبار یا اخبار نویس کے بجائے بعض دوسرے نام نہاد کرداروں پر ڈالی جا رہی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں تھا، جتنا بنا ڈالا گیا۔ دبائو ڈال کر وسعت (ایکسٹینشن) حاصل کرنا مقصود تھا۔ سر تسلیمِ خم نہ ہوا تو کمر دوہری کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ اس بات سے اتفاق نہ ہو تو بھی جب کمیٹی بن گئی اُس نے اپنی تحقیقات مکمل کر لیں، سفارشات بھی تیار ہو گئیں‘ وزیر اعظم کے دو انتہائی معتمد رفقا کی قربانی لے لی گئی، ایک بڑے افسر کو بھی بھینٹ چڑھا دیا گیا، تو پھر وزیر اعظم ہائوس کے ایک داخلی میمو پر اتنا شدید ردعمل کیوں ہوا کہ اسے نوٹیفکیشن قرار دے کر مسترد کر ڈالا گیا۔ وزیر اعظم آفس کی اس سبکی نے ہر شخص کو حیران کر دیا۔ سنا ہے چیف آف آرمی سٹاف اس کا ازالہ کرنے کی تدبیر کر رہے ہیں، اور وزیر اعظم نے بھی وزارتِ داخلہ کو تدبیر سازی کا کام سونپ دیا ہے، لیکن جو کچھ ہوا، وہ مرض نہیں، اس کی علامت ہے... دِلوں میں موجود (کدورت نہ کہیں تو بھی) فاصلوں کی نشاندہی تو ہو رہی ہے۔ ساس اور بہو کی یاد تو آ رہی ہے... گزارش کی جا سکتی ہے کہ اپنے اپنے گریبان میں منہ نہ ڈالنا ہو تو بھی دائیں بائیں بہرحال دیکھ لیجیے کہ محلے والے کیا تھو، تھو کر رہے ہیں، پھبتیاں کسی جا رہی ہیں، اور طعنے دیے جا رہے ہیں۔ جب چھت سانجھی ہے، اور چار دیواری بھی تو پھر آواز باہر کیوں جانے پائے؟ لائوڈ سپیکر کا استعمال تو مسجد میں بھی محدود ہو چکا ہے خانہ ٔ خدا پر ڈسپلن نافذ کر دیا گیا ہے تو اپنے گھر میں مائیک آن کیوں رکھا جائے؟ اے بے خبر یا با خبر:؎
غیر کے سامنے اشکوں کی آبرو نہ گنوا
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں