جب سے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت شروع ہوئی ہے، جہاں بھی موقع ملا، جملہ اداروں اور احباب کی توجہ اِس طرف مبذول کرائی گئی کہ اب اِس معاملے میں پبلک ڈبیٹ ختم ہو جانی چاہیے۔ ٹیلی ویژن پر اپنے پروگرام نقطہ نظر میں بھی کئی بار اِس نکتے پر زور دیا، ان کالموں میں بھی اس کا ذکر ہوا، مختلف مذاکروں اور اجتماعات میں بھی جب اظہارِ خیال کا موقع ملا، یا کسی سوال کا جواب دینا پڑا، تو یہ عرض کیا گیا کہ زیرِ سماعت مقدمات پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اور جلسہ گاہوں میں اظہارِ خیال بند ہو جانا چاہیے۔ فاضل جج صاحبان سے بھی استدعا کی جاتی رہی کہ وہ اِس صورتِ حال کا نوٹس لیں۔ سپریم کورٹ کے احاطے کو جلسہ گاہ بننے سے روکیں، اور ٹی وی اینکرز کو بھی نظم و ضبط میں لائیں کہ غیر ذمہ دارانہ مباحث سے ماحول آلودہ ہو گا۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی حلقے اِس دھن میں تھے کہ جج صاحبان کو دبائو میں لائیں۔ جلسوں میں کی گئی ایسی تقریریں ریکارڈ پر ہیں جن میں پانامہ کیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے لیے منظوری عوامی دبائو کا نتیجہ قرار دی گئی کہ اول اول تو سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے ان درخواستوں کو ''بے تکا‘‘ قرار دے کر اپنے طور ہی پر مسترد کر دیا تھا۔ گزشتہ کئی عشرے اِس بات پر شاہد ہیں کہ جب کوئی درخواست کسی عدالت میں سماعت کے لیے قبول کر لی جاتی تھی تو اس پر رائے زنی رُک جاتی تھی۔ کسی سیاستدان یا قانون دان سے اس حوالے سے سوال ہوتا تو وہ ''سب جوڈس‘‘ (SubJudice) کہہ کر ہونٹوں پر انگلی رکھ لیتا۔ پانامہ کیس کے معاملے میں بالکل الٹ ہوا، کہا جا سکتا ہے کہ یہ روش کچھ عرصہ پہلے سے اپنائی جا چکی تھی، لیکن پھر بھی اس بات کی تردید نہیں کی جا سکتی کہ پانامہ کے حق میں یہ حرکت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
ایک زمانے میں تو یہ کہا جاتا تھا کہ جج صاحبان اخبارات بھی نہیں پڑھتے کہ کہیں کسی معاملے میں ان کی آزادانہ رائے متاثر نہ ہو جائے۔ ان کی سماجی سرگرمیاں بھی محدود ہوتی تھیں، خوشی یا غمی کے مواقع پر بھی وہ منظر عام پر آنے سے گریزاں ہوتے تھے، اور ان کے ذاتی تعلقات کی کوئی نمائش بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ پانامہ کیس میں ایک طرف عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا، تو دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا پر گرما گرم بحثیں جاری تھیں۔ مقدمے کے فریقین اپنے اپنے گلے پھاڑ رہے تھے، اور ایک دوسرے کے ایسے لّتے لے رہے تھے کہ الحفیظ الامان۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت کے باہر جذبات سرد ہونے کے بجائے اپنی گرمی عدالت کے اندر پہنچانے لگے۔ اس صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی لیکن نیم دلی کے ساتھ۔ نرم الفاظ گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ نتیجتاً رائے عامہ تقسیم در تقسیم ہوتی اور ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوتی چلی گئی۔
کسی بھی مہذب معاشرے یا ریاست میں عدالت کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پاکستان الحمدللہ کوئی جنگل تو ہے نہیں کہ جو زیادہ دھاڑے، وہ اپنے آپ کو منوا لے۔ ہمارا ایک باقاعدہ تحریری دستور ہے، اور اس میں مختلف اداروں کے فرائض اور ذمہ داریاں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں۔ یہاں حکومت عوام کے ووٹوں سے قائم ہوتی، اور عوام ہی کے ووٹوں سے ختم ہوتی ہے۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتیں رائے عامہ کو متحرک کر سکتی ہیں۔ انہیں اجتماع اور اظہارِ رائے کا وسیع حق حاصل ہے، وزیر اعظم قومی اسمبلی کو جواب دہ ہوتا، اور جب تک اسے اکثریت کی حمایت حاصل رہے، اپنے عہدے پر برقرار رہتا ہے۔ عدالتیں انتظامیہ کی نگران ہیں، اور قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے ان کے اختیارات وسیع ہیں۔ یہ دستور کے خلاف قانون کو کالعدم قرار دے سکتی اور قوانین کے منصفانہ استعمال کے لئے حکم جاری کر سکتی ہیں۔ لیکن عدالتیں بھی بہرحال اپنی طاقت اور اختیار دستور ہی سے حاصل کرتی ہیں، اور اس کے تابع ہی اس کا استعمال کر سکتی ہیں۔ ججوں کا اپنا ضابطہ اخلاق بھی موجود ہے، اور عدلیہ کی آزادی کو ججوں کی آزادی کا نام بہرحال نہیں دیا جا سکتا، نہ ہی انہیں خدائی اختیارات تفویض کیے جا سکتے ہیں۔ ہماری دستوری سکیم میں مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ ایک جسدِ خاکی کا حصہ ہیں۔ ان کے باہمی ربط ہی سے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ ایک دوسرے کے در پے ہو جائیں، ایک دوسرے کے خلاف غصے میں آ جائیں، اداراتی اختیارات کو ذاتی سمجھنا شروع کر دیں، توہین آمیز الفاظ اور اصطلاحات کا چلن عام ہو جائے، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کو انصاف یا حسن انتظام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے مترادف قرار دے لیا جائے تو پھر اور جو بھی ہو، معاشرے کی ترتیب برقرار نہیں رہ سکتی۔
پانامہ کیس کے حوالے سے یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ یہ آج کا قصہ نہیں ہے، برسوں پہلے کی کہانی ہے۔ بنیادی طور پر یہ قبر کشائی کے مترادف ہے۔ پاکستانی سیاست میں اس معاملے نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ نتیجتاً وزیر اعظم اپوزیشن اور اپوزیشن برسر اقتدار جماعت کے نشانے پر ہے۔ عمران خان صاحب پر بھی جوابی وار ہو رہے ہیں، اور اس کا ایک دلچسپ نتیجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو معصوم عن الخطا قرار دینے پر تل گئی ہے۔ بہرحال پانامہ کیس سپریم کورٹ میں ہنوز زیر سماعت ہے۔ دو فاضل ججوں نے وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دیا، لیکن جو زبان استعمال کی گئی اس پر ایک عالم کی انگلیاں دانتوں میں دبی ہوئی ہیں۔ تین ججوں کے زیر نگرانی جے آئی ٹی (مزید) جانچ پڑتال کر ہی ہے... المیہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک جیالے سینیٹر نہال ہاشمی غصے میں آئے اور تفتیش کاروں کو دھمکیاں دے ڈالیں، ان کے بچوں تک سے حساب لینے کے بے تُکے دعوے کر ڈالے۔ اس پر ان کے خلاف سخت کارروائی ہوئی، انہیں مسلم لیگ (ن) کی بنیادی رکنیت اور سینیٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سپریم کورٹ نے بھی توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا، لیکن اس المیے سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ جج صاحبان غصے میں آ گئے۔ حکومت کو سسلین مافیا قرار دے کر نہال ہاشمی کے پردے میں کسی اور کو بولتا ہُوا، دیکھ لیا۔ خامہ انگشت بدنداں ہے کہ اسے کیا لکھئے؟ جس عدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرکے باہر کی گرمی سے نبٹنا تھا۔ یوں لگا کہ باہر کی گرمی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس پر حکومتی ترجمان نے صدائے احتجاج بلند کی، سلجھانے والے اُلجھ گئے یا اُلجھا دیئے گئے۔ یہی سنتے اور پڑھتے چلے آئے تھے کہ جج غصے میں نہیں آتا، مشتعل نہیں ہوتا، کسی فریق کی توہین نہیں کرتا، تعصب اور عناد سے دور رہتا ہے۔ منظر بدلا نظر آئے تو پھر کس کی دہائی دی جائے، کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)