پاکستانی سیاست میں پاناما کا ہنگامہ (یا افسانہ)اس طرح زیر بحث ہے کہ حویلی بہادرشاہ میں ایل این جی سے 760میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف کی تقریر میں بھی (اس حوالے سے) جے آئی ٹی کا ذکر آیا اور وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی اپنے پرجوش خطاب میں اس کا تذکرہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ حویلی بہادر شاہ میں صرف 73 دن میں گیس ٹربائن نصب کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ یہاں سے فی یونٹ 6روپے 42پیسے بجلی فراہم ہوگی، ایندھن کی مد میں سالانہ 5ارب 90کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔ اس منصوبے کو نیپرا کے طے شدہ معیارِ قیمت سے 57ارب روپے کم میں مکمل کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بھکھی، ہلوکی اور حویلی بہادرشاہ میں قائم ہونے والے بجلی کے تین منصوبوں میں مجموعی طور پر 168ارب روپے بچائے گئے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک منصوبہ گدو میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے زمانے میں لگایا گیا تھا جس پر 8لاکھ 47ہزار ڈالر فی میگاواٹ لاگت آئی تھی جبکہ حویلی بہادرشاہ پاور پلانٹ کو اس سے آدھی لاگت پر مکمل کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں لگائے جانے والے دوسرے منصوبوں کے مقابلے میں بھی موجودہ حکومت کا ہر منصوبہ کم لاگت پر مکمل کیا گیا ہے۔ بجلی کے منصوبوں کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ نیپرا نے ہر قسم کی بجلی پیدا کرنے کی لاگت کا تعین کر رکھا ہے۔ جب بھی کسی منصوبے کی منظوری دی جاتی ہے تو اسی طے شدہ لاگت کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حکومت نے جو تین منصوبے مکمل کئے ہیں، ان میں 168 ارب روپے کم لاگت کو اگر ظاہر نہ کیا جاتا اور اپنی جیب میں ڈال لیا جاتا تو اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھ سکتی تھی۔ نہ کوئی اعتراض ہوتا نہ کسی کو احتساب کی بات کرنے کی جرات ہوتی لیکن دیانت کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے طے شدہ لاگت کو کم کرکے دکھایا گیا اور یوں نیپرا کو آئندہ منصوبوں کا اسی اعتبار سے جائزہ لینے کا موقع بھی مل گیا۔ شہبازشریف کا اصرار تھا کہ اگر حکومت بددیانت ہاتھوں میں ہوتی تو اس رقم کی بچت کیونکر ہوتی؟ جو وزیراعظم اور ان کی ٹیم اربوں روپے بچانے میں لگی ہوئی ہے، اس پر پاناما کے حوالے سے الزامات لگائے جائیں یا ان کی دیانت اور امانت کو چیلنج کیا جائے تو یہ المیے سے کم نہیں ہے۔شہبازشریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاناما کے افسانے کو لوگ بھول جائیں گے، جبکہ اربوں روپے کی اس بچت اور بجلی کے ان منصوبوں کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔وزیراعظم نوازشریف کو بھی اطمینان تھا کہ بجلی پیدا کرنے میں شاندار کامیابی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے نے پاکستان کی معاشی ترقی کا جو راستہ کھولا ہے اسے بند نہیں کیا جا سکے گا اور سازشی عناصر میدان میں ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔
پاناما کے معاملات فی الحال سپریم کورٹ کے زیر نگرانی کام کرنے والی جے آئی ٹی کے سپرد ہیں۔ چند روز میں اسے اپنی رپورٹ پیش کرنا ہے، اس کے بعد معلوم ہو گا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ کس بات سے کس حد تک متفق ہوتا ہے اور کس معاملے میں کس حد تک آگے بڑھنے کی بات کرتا ہے۔ ماہرین قانون کی بھاری تعداد اس بات پر متفق ہے کہ دستور کی دفعہ 184(3) کے تحت کسی وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر یہ دروازہ کھل گیا تو پھر 58 (2) بی ایک نئے انداز سے بحال ہو جائے گی۔ یاد رہے اس دفعہ کے تحت صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرکے وزیراعظم کو ان کے عہدے سے سبکدوش کرنے کا حق حاصل تھا۔ سپریم کورٹ اپیل کی عدالت ہے۔ اس کے فیصلے کے خلاف صدر مملکت کو رحم کی درخواست تو دی جا سکتی ہے،کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کا دستور ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ اس سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، کسی کو امتیازی کارروائی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ پاکستان کے آئین نے تین عدالتی سطحیںقائم کر رکھی ہیں۔ سول کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ۔ ہر ملزم کو اس طرح اپیل کے دو حق مل جاتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون پر نظر رکھنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی قانون میں عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا (کم از کم ایک) حق نہ دیا جائے تو یہ قانون منصفانہ نہیں کہلا سکتا۔اسے ظالمانہ اور یک طرفہ کہا جائے گا۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کے تحت سزا پانے والوں کو بھی اپیل کا حق دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ کا فل بنچ اگر ابتدائی عدالت کے طور پر کام کرتے ہوئے کسی شہری کے خلاف حکم جاری کرتا ہے تو اسے اپیل کا حق نہیں مل سکتا۔ اس لئے دستور کے الفاظ ، اس کی مختلف دفعات اور سپریم کورٹ کے اپنے کئے گئے فیصلوں کے مطابق کسی شخص کو اس عدالتی تحفظ سے محروم نہیں کیا جا سکتا، جو ایک شہری کے طور پر اس کا ثابت شدہ حق ہے۔ وسیع قانونی حلقے شدت سے اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کا پاناما کے معاملات سے تعلق ثابت کرنا، اور پھر انہیں (کسی نہ کسی طور) نا اہل قرار دینا ممکن نظر نہیں آتا۔ جو بھی صورت ہو معاملے کو سماعت کے لئے زیریں عدالتی فورم میں بھیجنا ہوگا، تاکہ فریقین اپنے اپنے دلائل اور شواہد اچھی طرح پیش کر سکیں۔سید یوسف رضا گیلانی کا معاملہ موجودہ صورت حال سے غیر متعلق ہے۔ انہیں سپریم کورٹ کے ایک واضح حکم پر عمل نہ کرنے کے الزام میں توہین عدالت کی سزا سنائی گئی تھی، اس کے بعد ان کی نا اہلی کا سوال کھڑا ہوا۔ سپریم کورٹ نے انہیں براہِ راست نا اہل قرار نہیں دیا، نہ ہی ان کا معاملہ دفعہ (3)184 کے تحت زیر سماعت تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی سزا کا معاملہ بھی غیر متنازعہ نہیں ہے اگر اس وقت پارلیمنٹ متحد ہو جاتی، اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنا وزن یوسف رضا گیلانی کے پلڑے میں ڈال دیتی تو سپریم کورٹ کو دست درازی سے روکا جا سکتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے جسٹس افتخار چودھری صاحب کی فقہ افتخاریہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، اس لئے گیلانی صاحب کو بوریا بستر لپیٹنا پڑا۔
کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے کر ثابت کر چکے ہیں کہ 184 (3) کے تحت یہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔ مقامِ شکر یہ ہے کہ دو ججوں کی رائے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں بن پائی، اور تین فاضل ججوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ اب یہ ایک اقلیتی رائے ہے، ہر چند کہ جسٹس کھوسہ کے فیصلے میں کسی گئی پھبتیاں موضوع بحث رہیں گی، اور اس فیصلے کے بارے میں سوالات اٹھاتی رہیں گی۔ دلچسپ لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ سنایا گیا اور تحریری شکل میں سامنے لایا گیا تو اس کا آغاز اختلافی نوٹ سے ہوا تھا۔ تین فاضل جج صاحبان کا تحریر کردہ فیصلہ شاید اس لئے بعد میں درج کیا گیا کہ اختلافی نوٹ کے مصنف بنچ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنے احترام میں ترتیب بدل ڈالی۔ اس احتیاط کا تقاضا تھا کہ پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے دستور کی دفعہ 184 کی تشریح کرکے عدالت کو اس کے تحت عوامی نمائندوں کو نا اہل قرار دینے سے قطعی طور پر روک دیتی یا اس طرح کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق فراہم کر دیتی۔ ایسا ابھی تک نہیں کیا جاسکا۔ شاید مسلم لیگ (ن) نے سیاسی طور پر اس کی ٹائمنگ کو درست نہ سمجھا ہو، لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی طرف توجہ دینا ہو گی، تبھی ''جوڈیشنل کو‘‘ کا وہ راستہ مکمل طور پر بند کیا جا سکے گا۔جسے جسٹس کھوسہ نے کھولنے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کے تین فاضل رفقاء نے اس کی اجازت نہیں دی۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا ‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان ‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتاہے۔]