"MSC" (space) message & send to 7575

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

پاناما کیس کی سماعت ختم ہو چکی، فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند روز میں اس پٹاری سے جو کچھ برآمد ہونا ہو گا، ہو جائے گا۔ کہا نہیں جا سکتا کہ معاملہ یہاں ختم ہو جائے گا، یا اس سے اور کئی معاملات کا آغاز ہو گا۔ کتنے گڑے مردے اکھاڑے جائیں گے اور کتنے برپا ہونے والے محشر میں خود بخود آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ شریف خاندان کے مخالفوں کو توقع ہے کہ وزیر اعظم نااہل قرار پائیں گے، اور احتساب عدالت میں مقدمہ یا مقدمات بھی چلیں گے، جبکہ ان کے مداح مختلف توقعات قائم کر رہے ہیں۔ دھڑکا تو ان کو لگا ہوا ہے، لیکن انتہائی عدالتی اقدام کا جواز تلاش نہیں کر پا رہے۔ قانونی ماہرین اور تجزیہ کار بھی بٹے ہوئے ہیں۔ معاشرے میں موجود تقسیم ان کے اندر بھی سرایت کر گئی ہے۔ ان کی بڑی تعداد مختلف رنگ کی عینکیں لگائے بیٹھی ہے، اور حقائق کا حقائق کے طور پر جائزہ لینے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اودھم مچانے والے بھی مچھلی بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں وزیر اعظم اور ان کے بعض رفقا کے خلاف درخواست گزاروں، اور ان کا مقابلہ کرنے والوں نے عدالتی احاطے میں مسلسل دھما چوکڑی مچائے رکھی اور اسے ہائیڈ پارک بنا کر رکھ دیا۔ حکومت کے مخالفین نے وہ وہ الزامات لگائے، وہ وہ الفاظ استعمال کیے، اور (عدالت کو متاثر کرنے کے لیے) وہ وہ حربے اختیار کیے کہ الحفیظ الامان... حکومتی صفوں کے زبان دراز بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے بھی اپنے فن کا خوب مظاہرہ کیا، اور آڑے ترچھے ہاتھوں کا خوب استعمال کرتے رہے۔ بات والدین تک جا پہنچی یا یہ کہیے کہ پہنچا دی گئی۔ وزیر اعظم کے والد پر بھی حملے ہوئے، اور عمران خان کے والد بھی بد زبانی کی زد میں آئے۔ میاں محمد شریف مرحوم ایک نیک نام اور قابلِ احترام بزرگ تھے، غریبوں اور بے نوائوں کی مدد کرنے اور محنت سے اپنی دُنیا تعمیر کرنے والے۔ انہوں نے اپنی صنعتی ایمپائر کی بنیاد رکھی، ان کی (اور ان کے بھائیوں کی) قائم کردہ اتفاق فائونڈری کو بیکو کے بعد دوسرا بڑا ادارہ کہا جا سکتا تھا، جو قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی بننے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بیکو (بٹالہ انجینئرنگ کمپنی) جسے بعد میں پیکو کا نام دیا گیا، بٹالے کی بی کو پاکستان کی پی سے بدل دیا گیا، بین الاقوامی معیار اور ساکھ کی مالک تھی۔ ان اداروں پر نیشنلائزیشن کے نام پر قبضہ کرنا بھٹو صاحب کا ایسا جرم تھا، جس کی تلافی اب تک ممکن نہیں ہو پائی۔ یہ دونوں پاکستان کے برلا اور ٹاٹا بننے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اگر ان پر قبضہ نہ کیا جاتا تو پاکستان عرصہ پہلے کاریں، ٹرک، ٹینک اور جہاز بنا رہا ہوتا، اور اس کی مصنوعات اربوں ڈالر کما رہی ہوتیں۔ پاکستان جنوبی کوریا کیا جاپان کے ہم پلہ ہو سکتا تھا۔ اب شیری رحمن منہ پھاڑ کر یہ الزام لگاتی ہیں کہ اتفاق فائونڈری کو جنرل ضیا نے واپس کر کے بڑا احسان کیا تھا، تو شرم بھی شرم کے مارے منہ چھپا لیتی ہے۔ ان جیسی پڑھی لکھی اور مہذب خاتون کی بینائی بھی ''فرقہ وارانہ سیاست‘‘ نے متاثر کر ڈالی ہے۔ میاں محمد شریف کی فائونڈری پر قبضے ہی کے بعد ان کے دِل میں قومی سیاست کی طرف متوجہ ہونے کا خیال پیدا ہوا، اور برسوں بعد انہوں نے پہلے اپنے بڑے بیٹے محمد نواز شریف اور بعد میں چھوٹے بیٹے محمد شہباز شریف کو سیاست کے اکھاڑے میں اتارا۔ شریف خاندان نے بھٹو خاندان کی سیاست کو محدود کر کے رکھ دیا، اور اب اس کا نام پاکستان کی تاریخ سے خارج نہیں جا سکتا۔ قومی سیاست گزشتہ کئی دہائیوں سے اِن دونوں خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے، اگر عمران خان کا ظہور نہ ہوتا تو اس میں شاید ہی رخنہ پڑ سکتا... جہاں تک عمران خان کے والد کا تعلق ہے وہ بھی ایک بلند کردار، اور صدق گفتار شخص تھے۔ اکرام اللہ نیازی پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے، ڈاکٹر مبشر حسن کے ہم عصر، دونوں نے برطانیہ جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے سیاست میں نام پیدا کیا، تو اکرام اللہ نیازی نے سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر تعمیرات کے شعبے میں قدم رکھ دیا۔ ان پر کبھی بددیانتی کا الزام نہیں لگا۔ نواب کالا باغ سے (میانوالی کے) نیازی خاندان کی رقابت یا مخاصمت نے انہیں ملازمت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا، اور انہوں نے اپنی دُنیا آباد کر لی۔ برسوں پہلے کم وسیلہ طلبہ کو وظائف فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم میں وہ اور میرے انتہائی عزیز دوست محمود مرزا ایڈووکیٹ مرحوم اکٹھے تھے۔ مرزا صاحب کی محبت نے مجھے بھی اس میں کھینچ لیا۔ اُس وقت عمران خان کا نام سنا تک نہیں تھا، وہ شاید طالب علم تھے۔ مجھے ان سے شرف نیاز حاصل رہا، ایک درد مند اور صاف دِل شخص کے طور پر وہ میرے دِل میں رہے۔ بے لگام سیاست جب ان مرحومین پر تہمتیں لگاتی ہے، تو میرا دِل خون ہو ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاناما کے نام پر جو کچھ ہوا، اس میں عمران خان اور شیخ رشید کے جوش و جذبے اور تحرک کا بہت دخل ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو یہ طوفان کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کی خوش فہمی نے ان کے حوصلوں کو مہمیز دی۔ اگر حسنِ تدبیر سے مقابلہ کیا جاتا، تو آج پاناما پیپرز میں نامزد چھ سو کے لگ بھگ پاکستانی اداروں اور افراد کی طرح وہ بھی چین کی بانسری بجا رہے ہوتے۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا... گزرے ہوئے واقعات کو از سر نو تو ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ فیصلہ جو بھی ہو، قانون اور سیاست ایک دوسرے سے جو بھی سلوک کریں، معاملہ بالآخر عوام ہی کی عدالت میں آئے گا۔ جذبات سے تخت اُچھالے تو جا سکتے ہیں، ان پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ سنجیدہ ماہرین قانون اور کئی سابق جج صاحبان کو یقین ہے کہ انتہائی عدالت ابتدائی عدالت کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالے گی، اور کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا، جس سے زد میں آنے والوں کا اپیل کا حق متاثر ہو جائے... متعلقہ (یا زیریں) اداروں کا کردار سلب کرنے کی اپنی پیچیدگیاں ہیں، جن کا بوجھ ہمارے ''محاذ آرا ماحول‘‘ پر نہ لادنا ہی بہتر ہو گا۔ سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ تاریخ میں جس طرح بھی یاد رکھا جائے۔ کسی مسئلے کا وقتی حل تو اس کے ذریعے ممکن ہو ہی جاتا ہے۔ اس طرح ریاست کا بھرم برقرار رہ جاتا ہے۔ فریقین اِس بات کا بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ وہ فیصلے پر عمل کریں گے۔ یہ ایک اچھا اظہار ہے، لیکن یاد رہے کہ ایسا کہہ کر کسی پر احسان نہیں کیا جا رہا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تو بہرحال نافذ ہو کر رہنا ہے:کشتی کِسی کی پار ہو یا درمیاں رہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
حکومت کے مخالفین نے وہ وہ الزامات لگائے، وہ وہ الفاظ استعمال کیے، اور (عدالت کو متاثر کرنے کے لیے) وہ وہ حربے اختیار کیے کہ الحفیظ الامان... حکومتی صفوں کے زبان دراز بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے بھی اپنے فن کا خوب مظاہرہ کیا، اور آڑے ترچھے ہاتھوں کا خوب استعمال کرتے رہے۔ بات والدین تک جا پہنچی یا یہ کہیے کہ پہنچا دی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں