کرکٹ کے میدان سے تو بہت اچھی خبریں (دیکھنے اور) سننے کو ملیں۔ ورلڈ الیون پاکستان میں آئی، لاہور کا قذافی سٹیڈیم تین دن تک جوش و خروش سے بھرا رہا۔ پاکستانی نوجوانوں نے تین میں سے دو میچ جیت کر سیریز اپنے نام کر لی۔ نجم سیٹھی صاحب کی کوششیں رنگ لائیں اور بین الاقوامی کرکٹ کو وہ پاکستان کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ دہشت گردی کا خوف ٹوٹا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان میں تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ سیریز اپنی نوعیت کی آخری نہیں پہلی تھی۔ اب دوسرے ممالک کی ٹیمیں پاکستان آتی چلی جائیں گی۔ ویسٹ انڈیز نے تو اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا ہے۔ لاہور کے شہریوں کو کرکٹ میلے کے دوران ٹریفک کی شدید مشکلات درپیش رہیں، سٹیڈیم کے ارد گرد کاروباری سرگرمیاں محدود کر دی گئیں، اس کے باوجود کسی ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ بڑی خوشی کے لئے (قدرے) چھوٹی مشکلات کو ہنسی خوشی جھیل لیا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب لندن میں تھے، انہوں نے وہیں سے بیان داغا کہ کہیں بھی ٹریفک جام نہیں ہونا چاہئے، لیکن... ہاتھ رکھنے سے کہیں دردِ جگر جاتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں سڑکوں کی کشادگی، نئی سڑکوں اور فلائی اوورز کی تعمیر کے باوجود ٹریفک کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ وزیر اعلیٰ کبھی (بھیس بدل کر ہی سہی) عام آدمی کے طور پر سفر کریں تو ان کو پتہ چلے کہ ٹریفک کس قدر بے ہنگم ہے، اور کس طرح کاریں، بسیں، رکشے اور موٹر سائیکلیں چلانے والوں کو سفارش (یا ؟)کی بنیاد پر لائسنس جاری کر دیئے گئے ہیں۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوا، برسوں کی ''محنت‘‘ نے حالات کو اس حالت پر پہنچایا ہے۔ کسی شخص کو کچھ معلوم نہیں کہ اس کی لین (Lane) کون سی ہے۔ رکشے انتہائی دائیں جانب چلتے نظر آتے ہیں‘ بس اور ٹرک (حتیٰ کہ فوجی ٹرک) چلانے والے بھی اس شعور سے عاری ہیں۔ موٹر سائیکل پر تین تین، چار چار افراد سوار نظر آتے ہیں، گودیوں اور کندھوں سے چپکے ہوئے بچے اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ پارکنگ ایریاز مفقود ہیں، ناجائز عمارات اور تجاوزات کی بھرمار ہے جگہ جگہ شادی گھروں کی تعمیر کی اجازت دے دی جاتی ہے، یا بغیر اجازت کے وہ (مٹھی گرم کرکے) کام چلا رہے ہیں۔ میرے انتہائی عزیز دوست اور معروف بزنس مین امتیاز انور کے ساتھ تو یہ سانحہ پیش آیا کہ جس روز ورلڈ الیون کے کھلاڑی لاہور پہنچ رہے تھے، اسی دن انتہائی صبح کو ان کی اہلیہ کو دل کا دورہ پڑ گیا، وہ گلبرگ II میں رہتے ہیں، وہاں سے دس منٹ کی مسافت پر پی آئی سی (پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی) ہے لیکن راستے بند تھے اور پولیس کے آن ڈیوٹی اہل کار ان پر رحم کھانے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے 1122 سے ایمبولینس منگوائی تو اسے بھی پولیس والوں نے راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ تمام تر مستعدی کے باوجود وہ آگے بڑھنے میں ناکام رہی۔ الحجاز ہسپتال، فضل ہسپتال، رازی کلینک کے درمیان دوڑتے پھرے لیکن کہیں کوئی ڈاکٹر تھا نہ دوا... لمحوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر کے پی آئی سی پہنچے تو ڈاکٹر ندیم حیات ملک کی مسیحائی ان کے کام آئی کہ یہاں بین الاقوامی معیار کی سہولتیں اور عملہ دستیاب تھا۔ یہ تفصیل اس لئے بیان کی گئی ہے کہ پولیس کو (شاید) یہ تربیت ہی نہیں دی گئی کہ ایمبولینس کی کیا اہمیت ہے اور بیمار کو ہسپتال لے جانا کس قدر ضروری ہوتا ہے۔ ہر طرح کی ناکہ بندی کے باوجود ایمبولینس اور مریض کے سامنے دیوار بننا بھی ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔ پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل کاروں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ اہلِ اقتدار کے علاوہ عام شہری بھی عزت اور توجہ کے مستحق ہیں۔
بات ذرا دور نکل گئی، کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کی کامیابی کا سہرا برادر عزیز نجم سیٹھی کے سر سج گیا ہے۔ ان کو طرح طرح کی پھبتیوں اور الزاموں بلکہ تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ''اقربا‘‘ پروری کے طعنے دیئے گئے۔ عمران خان جیسے شخص نے بھی کوئی ایسا تیر نہیں تھا جو چلایا نہ ہو، لیکن سیٹھی صاحب اپنی دھن میں مگن رہے۔ وہ کر دکھایا جو شاید ہی کوئی دوسرا کر سکتا تھا۔ وہ ہمارے ''پیٹی بھرا‘‘ ہیں اور ایک اخبار نویس کے طور پر ہمارا سر بھی اونچا ہو گیا ہے، انہی کے الفاظ میں : مبارکاں، مبارکاں، مبارکاں۔
ارادہ کرکٹ کے سرسری تذکرے کے بعد سیاست کے میدان میں قلم رکھنے کا تھا، لیکن بات لمبی ہوتی چلی گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے نظرثانی کی جو درخواستیں دائر کی تھیں، وہ توقع کے عین مطابق، مسترد ہو چکی ہیں۔ نظرثانی کی درخواست کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے اور کہیں سطح پر کوئی ''تیرتی‘‘ ہوئی غلطی نظر آئے تو اس کی درستی کی جا سکتی ہے۔ برادر مکرم و محترم اکرم شیخ چیختے اور چلاتے رہے کہ دستور کی دفعہ 188 کے تحت قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کے اس نوعیت کے فیصلوںکے خلاف اسی کے بڑے بنچ کے سامنے اپیل کا حق دیا جائے، لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دفعہ کے تحت نظرثانی کی حدود واضح کرنے کے لئے جس قانون سازی کی اجازت دی گئی تھی، اس پر گزشتہ 42 سال میں کسی مقننہ (یا انتظامیہ) نے کوئی توجہ نہیں دی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ پاکستان ہی کی نہیں، دنیا کی تاریخ میں بھی زیر بحث رہے گا ۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی کہ سپریم کورٹ کا کہا حرفِ آخر ہے۔ صرف فدویانہ نظرثانی کی گزارش کی جا سکتی ہے۔ عزیزم بیرسٹر کامران شیخ اس نکتے پر زور دیتے رہے کہ لا ریفارمز آرڈی ننس میں ایک سادہ ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ایک لارجر بنچ کے سامنے اپیل کا حق اسی طرح دیا جا سکتا ہے جس طرح ہائی کورٹ میں سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف اپیل، ڈویژن یا فل بنچ سننے کا حق رکھتا ہے۔ دونوں شیخ صاحبان کی یہ باتیں مَیں نے ذاتی طور پر بھی مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ ترین سیاسی اور قانونی دماغوں کے سامنے بڑی وضاحت سے بیان کیں، لیکن اس سمت میں کوئی قدم (تاحال) نہیں اٹھایا جا سکا۔
نواز شریف صاحب کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخاب کا دن آن پہنچا ہے۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، وہاں ووٹ ڈالے جا رہے ہوں گے۔ اس وقت اس پر کوئی تبصرہ کرنا غیر ضروری ہو گا۔ اس حلقے کا نتیجہ پاکستان کی آنے والی سیاست پر یقینا اثر انداز ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تنہا مریم نواز نے انتخابی مہم چلائی ہے، جبکہ مقابل ڈاکٹر یاسمین راشد کو اپنی جماعت کے تمام رہنمائوں کا تعاون حاصل رہا۔ مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کلثوم نواز بیمار، ان کے شوہر نامدار ان کے تیماردار، کئی معتبر اعزا و اقربا سمندر پار۔ عمران خان اور مریم نواز، دونوں نے نتیجے کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عوامی تبصرہ، یعنی عوام کی عدالت کا فیصلہ قرار دیا ہے۔ اس فیصلے سے عین دو دن پہلے قانون کی عدالت سے نظرثانی درخواستوں کا اخراج اپنے اندر بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں 54 امیدوار میدان میں اترے تھے، دس نے کاغذات واپس لے لئے، دو درجن کے لگ بھگ ابھی تک ایکٹو (Active) ہیں۔ ان میں مختلف مذہبی جماعتوں کے حمایت یافتہ بھی شامل ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں افراد اکھاڑے میں (شاید) اس لئے اترے یا اتارے گئے کہ فی کس ایک، دو، تین ہزار ووٹ بھی حاصل کر لیں تو کم از کم ''ن‘‘ کی گنتی ہی کم کر ڈالیں۔ قانون کی عدالت سے عہدہ برآ ہونے کے بعد عوام کی عدالت سے نبٹا جاتا ہے، یا وہ نبٹنے والوں سے پوری طاقت کے ساتھ نبٹ کر دکھاتی ہے، اس کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]