"MSC" (space) message & send to 7575

ریاست کا یتیم خانہ

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے اقتدار کے ڈھلتے ہوئے دنوں میں ٹیکس اصلاحات اور معافی سکیم کا اعلان کیا ہے۔ مجوزہ اقدامات کی تفصیل اخبارات میں شائع ہو چکی ہے، اس لئے انہیں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ شرم کا مقام یہ ہے کہ 22 کروڑ کو چھوتی ہوئی آبادی میں ٹیکس گزاروں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ پاکستانی ریاست سے لطف اندوز ہونے والے جو کما رہے ہیں، اس میں سے ریاستی حصہ ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے بازاروں اور سڑکوں پر رونق ہے، ہوٹل بھرے رہتے ہیں، ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نئے سے نئے شادی گھر تعمیر ہو رہے ہیں، بعض مقامات پر ون ڈش کی پابندی کے باوجود لاکھوں روپے ضیافتوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں مہمان نوازی کے نام پر دستر خوان سجے رہتے ہیں۔ جہاں بھی چلے جائیں ریل پیل اور رونق میلہ ہے۔ ہر بڑے چھوٹے شہر کو ہائوسنگ سوسائٹیوں نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بڑے بڑے شہروں کے بیچوں بیچ فارم ہائوس تعمیر ہو رہے ہیں اور ایک ایک شخص درجنوں کیا سینکڑوں افراد کا زمینی حصہ ہڑپ کئے بیٹھا ہے۔ عالی شان کوٹھیاں تعمیر ہو رہی ہیں، پراپرٹی ڈیلروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لیکن ملکی خزانے میں وہ کچھ نہیں پہنچ رہا جو اس کا حق ہے۔ ایک عرصے سے کاروبارِ مملکت قرض پر چلایا جاتا رہا۔ پاکستان کا محل وقوع اس کی معیشت کو سنبھالنے کا ذریعہ بنا رہا۔ قرض لینا بری بات نہیں، بشرطیکہ اسے کاروباری، تجارتی یا صنعتی مقاصد کے لئے لیا جائے۔ ایسا قرض لینے والے اسے بآسانی واپس کر دیتے ہیں اور اپنی قسمت بھی تبدیل کر گزرتے ہیں... ایک زمانے تک پاکستان بھی بیرونی وسائل کو اندرونی وسائل کی کشادگی کے لئے استعمال کرتا اور آگے بڑھتا رہا... لیکن پھر یہ ہوا کہ غیر پیداواری قرضے لئے جانے لگے۔ قرضوں کی بہتی گنگا میں ہاتھ اس طرح دھوئے گئے کہ ان کی واپسی کے لئے بھی قرض لیا جاتا رہا (اور لیا جا رہا ہے)۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب پاکستانی معیشت کا سائز بہت بڑھ چکا ہے، لیکن یہ اس سے سو گنا بڑھ سکتا تھا، اگر کفایت شعاری اور ذمہ داری سے کام لیا جاتا۔ اس دوران پاکستانی ریاست کو کئی صدمے بھی برداشت کرنا پڑے، بڑا حصہ بڑی خونریزی کے بعد الگ ہوا۔ مشرقی پاکستان خون میں نہا کر بنگلہ دیش بنا اور ہمارے چہرے پر ایک ایسا داغ لگا گیا کہ دھوئے نہیں دھلتا۔ ''نئے پاکستان‘‘ میں بڑے بڑے صنعتی اداروں پر سرکار قابض ہو گئی۔ بھٹو مرحوم کی اس پالیسی نے ہماری معیشت کی وہ درگت بنائی کہ الحفیظ و الامان، ابھی تک اس کے اثرات سے جان نہیں چھوٹ سکی۔ سرمایہ کاروں کو رسوا کیا گیا، ان کے جہاں سینگ سمائے، وہاں چلے گئے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے، پاکستان خالی ہاتھ ہے۔ وہ برآمدات کے قابل مصنوعات تیار نہیں کر پایا۔ جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، تائیوان کہاں سے کہاں نکل گئے اور ہم ابھی تک خاک چاٹ رہے ہیں۔ ہماری برآمدات سے بنگلہ دیش کی برآمدات بھی بڑھ چکی ہیں۔
نواز شریف منظر عام پر ابھرے تو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں نج کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ کم پڑتے وسائل نے ان شعبوں میں سرکار کی موجودگی کو کم سے کم کر دیا۔ اس کا نتیجہ آج سامنے ہے۔ تعلیم مہنگی ہو چکی، سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی بحالی آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے مترادف ہو چکی۔ مقامِ آہ و فغاں کوئی ایک تو ہے نہیں... ''تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم‘‘... بہرحال لشٹم پشٹم آگے کا سفر جاری ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے جہاں ٹیکس اصلاحات کی ہیں، وہاں اندرون اور بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں کی دولت کو بھی قومی معاشی دھارے میں واپس لانے کی سعی کی ہے۔ اس پر اپوزیشن جماعتوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ عمران خان صاحب نے اسے ''چوروں‘‘ کو نوازنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنا فلیٹ اسی طرح کی ایک ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈکلیئر کیا تھا۔ بہرحال معاشی ماہرین کی بھاری تعداد اس اقدام کی حمایت کر رہی ہے۔ ضروری یہ ہے کہ جو بھی اقدام ہو، اسے پارلیمنٹ کے ساتھ ریاستی اداروں کی اشیرباد بھی حاصل ہو۔ اگر عدالتوں نے اس میں دخل اندازی شروع کر دی تو پھر یہ سکیم سانس لینے سے پہلے ہی دم توڑ جائے گی۔ سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے اس معاملے کا سووموٹو نوٹس لے رکھا ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس پر عدالتی مہر لگ جائے تاکہ استفادہ کرنے والے اطمینان قلب کے ساتھ کام کر سکیں۔ ان کے لئے بھی یہ سنہری موقع ہے کہ اب دنیا بھر میں سرمائے کا شجرۂ نسب دریافت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان سے لے جائی جانے والی دولت پر وہاں بجلی گر سکتی ہے، اس لئے اگر ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا لیا جائے گا، تو یہ خود اہل سرمایہ کے شدید ترین مفاد میں ہو گا۔
پاکستان سے سرمایہ باہر لے جانے کی ایک بڑی وجہ بھٹو عہد کی نیشنلائزیشن سے پیدا ہونے والی بے یقینی ہے۔ اب اس طرح کی کوئی صورت حال پیدا ہونے کا امکان تو نہیں ہے، لیکن تحفظ کا احساس ہر ممکن حد تک دلایا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فیصلہ کر لیا جائے کہ اس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کے ساتھ پوری شدت اور طاقت سے نبٹا جائے گا اور ہر ایسی جائیداد (یا سرمایہ) جسے ڈکلیئر نہ کیا گیا ہو، اسے مکمل طور پر بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔ اس کے لئے پوری قوم کو متحرک کرنا ہو گا کہ جو شخص ایسی کسی جائیداد کا سراغ لگا کر اس کی اطلاع فراہم کرے، اس کا ایک بڑا حصہ اس کو بطور انعام دے دیا جائے۔ پاکستانی ریاست کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے تو اسے اپنے ہر شہری کے کاروبار سے ہر قیمت پر اپنا حصہ وصول کرنا ہو گا۔ ملک یتیم خانوں کی طرح چلائے نہیں جا سکتے۔
سلیم صافی کے گھر پر حملہ
پاکستان کے انتہائی ممتاز میڈیا پرسن برادرِ عزیز سلیم صافی کے گھر پر اسلام آباد میں مسلح افراد حملہ آور ہوئے۔ لیکن ان کے محافظ صحبت خان کی بہادری اور چوکسی کی وجہ سے وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ صحبت خان نے جان کی بازی لگا کر انہیں پسپا کر دیا۔ اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں ایسی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں اور کئی ممتاز اخبار نویسوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے، لیکن سنگینی کے اعتبار سے یہ واقعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ سلیم صافی کے وقار اور اعتبار کی زمانہ گواہی دیتا ہے۔ ان پر قومی صحافت ناز کر سکتی ہے۔ ان کا لہجہ کھردار اور سخت ہو سکتا ہے لیکن اس میں خود غرضی یا مفاد کا کوئی شائبہ بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ حملہ آوروں کو تلاش کر کے کیفر کردار تک پہنچانا وزارت داخلہ کا فرض اولین ہونا چاہیے۔ صافی صاحب پر حملے نے پورے ملک میں ان کے مداحوں کو مضطرب کیا ہے اور تمام سیاسی اور مذہبی رہنمائوں نے ان سے یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف کا کوئی رہنما البتہ ان کے دکھ میں شریک نہیں ہوا۔ یہ مانا کہ وہ اس کے سخت ناقد ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حملہ کرنے والوں کی مذمت نہ کی جائے۔ سلیم صافی صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ پورے ملک میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کے باوجود وزارت اطلاعات اور آئی ایس پی آر کے حکام تک اس کی اطلاع نہیں پہنچی اور ان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ اطلاعاتی اداروں سمیت ہر ذمہ دار شخص (یا محکمہ) اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گا۔ سلیم صافی گھبرانے والے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں سلامت اور ثابت قدم رکھے اور وہ اپنے قلم کو اسی طرح تلوار بنائے رکھیں؎
زمانہ یوں تو کسی پر نظر نہیں کرتا
قلم کی بے ادبی درگزر نہیں کرتا
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں