"MSC" (space) message & send to 7575

نگران وزیر اعظم کا نام

سیاست ایک قدم آگے دو قدم پیچھے، اور دو قدم آگے ایک قدم پیچھے کی رفتار سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ کبھی بے یقینی کے سائے گہرے ہو جاتے ہیں، تو کبھی یقین کی کرنیں جگمگانے لگتی ہیں۔ عبوری وزیر اعظم کے نام پر مشاورت مکمل ہو چکی ہے۔ قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ کے ساتھ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کانا پھوسی کر چکے ہیں، اور دونوں نے اپنے ہونٹ سی لیے ہیں۔ خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی کو ہوا نہیں لگنے دیں گے، اور نام کا اعلان ایک دھماکے کی صورت میں کریں گے۔ رضا ربانی جیسے سنجیدہ شخص کا دِل بھی اس ''سناٹے‘‘ سے اُکتا گیا ہے، انہوں نے مذکورہ بالا دونوں ذمہ داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سسپنس ختم کریں، اور باقاعدہ اعلان کریں۔ آج ہی کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ 15 مئی کو یہ کچھ کرکے دکھا دیا جائے گا۔ نگران وزیر اعظم کے لیے ابھی تک جسٹس تصدق حسین جیلانی اور ڈاکٹر عشرت حسین کا وزن زیادہ ہے، آخری لمحات میں کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ برادرم اجمل جامی کی اطلاع ہے کہ جیلانی صاحب کے نام کا فیصلہ ہو چکا، ان پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں، اِس لیے وہی حلف اٹھائیں گے۔ ان کی نئی شیروانی سل چکی ہے، اس لیے ان کا آنا ٹھہر گیا ہے۔ جامی صاحب کی اِس خبر کی مَیں یوں داد دے چکا کہ ایک بار (غیر منقسم) ہندوستان کے لیے وائسرائے کے تقرر پر ملکہ اور وزیر اعظم کے درمیان اتفاق ہو چکا تھا، لیکن کسی خاص مصلحت کے سبب اسے صیغۂ راز میں رکھا جا رہا تھا۔ ملکہ اور وزیر اعظم کے سوا کسی تیسرے کو اس کی کوئی خبر نہ تھی کہ نام اچانک ''لندن ٹائمز‘‘ میں چھپ گیا۔ اس پر ملکہ اور وزیر اعظم دونوں بھونچکے رہ گئے، اور ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان ہو گئے کہ اس سے راز کی حفاظت نہیں ہو سکی۔ بعد ازاں جب خبر دینے والے اخباری رپورٹر سے اس''سکوپ‘‘ کا ذریعہ پوچھا گیا تو اُس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ ایک عصرانے میں شریک تھا، وہاں مذکورہ لارڈ صاحب بعض شرکا سے ہندوستان کے موسم کے بارے میں پوچھتے ہوئے پائے گئے، اس پر اس کا ماتھا ٹھنکا کہ ہندوستان کے موسم سے ان لارڈ صاحب کا کیا تعلق؟ اس نے اندازہ لگایا کہ اس اعلیٰ مرتبے کا کوئی شخص اگر ہندوستان جاتا ہے تو وائسرائے ہو کر ہی جائے گا، تفریحی دورے پر تو وہاں کا رُخ کرنے سے رہا۔ سو، خبر داغ دی گئی۔ تیر نشانے پر لگا اور مذکورہ رپورٹر کی دھوم مچ گئی۔ نوز فار نیوز (NOSE FOR NEWS) کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ اور بات کہ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک بار ''نوز‘‘ کو اسی طرح ''نیوز‘‘ کے لیے استعمال کیا گیا تو معاملہ الٹا پڑ گیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور تھا، مغربی پاکستان (آج کے پورے پاکستان) کے گورنر تھے، نواب آف کالا باغ امیر محمد خان۔ ان کے مراسم چودھری ظہور الٰہی سے کچھ کچھائو کا شکار تھے۔ افواہیں اڑتی رہتی تھیں کہ چودھری صاحب کو گورنر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ چودھری صاحب مرحوم اُس وقت پی پی ایل (پروگریسو پیپرز لمیٹڈ) کے سربراہ تھے، جو روزنامہ ''پاکستان ٹائمز‘‘ اور ''امروز‘‘ شائع کرتا تھا۔ یہ اخبارات میاں افتخارالدین مرحوم سے چودھری صاحب تک کیسے پہنچے یہ ایک الگ کہانی ہے، جس کا آج کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ ''پاکستان ٹائمز‘‘ ان دِنوں بہت مؤقر انگریزی اخبار سمجھا جاتا تھا، ''ڈان‘‘ صرف کراچی سے شائع ہوتا تھا۔ ''پاکستان ٹائمز‘‘ لاہور اور راولپنڈی سے بیک وقت منصۂ شہود پر آتا تھا۔ راولپنڈی ایڈیشن میں خبر چھپ گئی کہ نواب کالا باغ علاج کے لیے بیرون مُلک جا رہے ہیں، اس پر زلزلہ برپا ہو گیا۔ نواب صاحب ان دِنوں اپنے آبائی شہر میانوالی میں محوِ آرام تھے، ان کو اطلاع ملی تو لال بھبھوکا ہو گئے، خصوصی طیارے کے ذریعے اخبار راولپنڈی سے میانوالی منگوایا گیا، اور انہوں نے اسے اپنے خلاف سازش قرار دے دیا۔ اس کے بعد چودھری ظہور الٰہی سے ان کی ٹھن گئی، اس کی تفصیلات بھی پاکستانی سیاست کے گہرے طالب علموں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ چودھری صاحب کی اَنا کو للکارنا، گویا شیر کے ہاتھ میں منہ ڈالنا تھا۔ بہرحال جو کچھ ہونا تھا، سو ہوا۔ بعد میں تفصیلات معلوم کی گئیں تو پتہ چلا کہ چودھری صاحب کو لاہور آفس سے اس خبر کی اطلاع ملی تھی، انہوں نے اسے فوری طور پر رکوا دیا تھا۔ ان دِنوں موبائل فون، اور انٹرنیٹ تو کیا، براہِ راست ڈائلنگ کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ کال بُک کرانا پڑتی تھی یا ٹیلیکس کے ذریعے پیغام بھیجا جا سکتا تھا، لاہور سے راولپنڈی ہدایت بروقت نہ پہنچی، اور وہاں خبر نے شائع ہو کر زلزلہ برپا کر دیا۔
اس کا ذریعہ ڈھونڈا گیا تو معلوم ہوا کہ کراچی سے نمائندہ خصوصی اور مشہور ٹریڈ یونینسٹ اخبار نویس منہاج برنا نے اسے بھجوایا ہے۔ انہوں نے جو کہانی بیان کی، وہ یہ تھی کہ وہ سٹیٹ بینک گئے، وہاں معلوم ہوا کہ گورنر ہائوس سے زرمبادلہ کی منظوری کی درخواست آئی ہے، یہ بیرون مُلک سفر کے لیے درکار تھا۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ گورنر صاحب چیک اَپ کے لیے بیرون مُلک جا رہے ہوں گے، تبھی تو یہ درخواست آئی ہے۔ سرکاری دورے پر جاتے تو اس منظوری کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے فوراً خبر بھجوا دی۔ لیکن معاملہ الٹ تھا۔ گورنر صاحب کے گھوڑے علیل تھے، ان کے لیے زرمبادلہ درکار تھا تاکہ انہیں علاج کے لئے بھجوایا جا سکے۔ گورنر صاحب نے یہ خرچ خود اٹھانا تھا، لیکن اُن دِنوں زرمبادلہ (آج کل کی طرح) وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوتا تھا، اس لیے سٹیٹ بینک کی منظوری درکاری تھی۔
نوز، فار 'نیوز‘ کی اہمیت لیکن اپنی جگہ ہے، ایک اچھے اخبار نویس کی ناک سب کچھ ایسا سونگھ لیتی ہے، جو کسی دوسرے کی ناک کے بس میں نہیں ہوتا۔ جامی صاحب کی ''نوز‘‘ اگر شیروانی کی بُو سونگھ کر وزارتِ عظمیٰ تک جا پہنچی ہے، تو اس کی داد دی جائے گی۔ بصورتِ دیگر، اسے تھوڑا سا اِدھر اُدھر کر لیں گے۔ نیچی ہونے سے تو یہ رہی کہ ''اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں‘‘۔
احسن اقبال پر حملہ
گزشتہ دِنوں وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ ان کی کہنی نے دیوار بن کر گولی کا راستہ روکا، تو اس کی شدت میں کمی آ گئی۔ وہ جسم کے اندر تو داخل ہوئی، لیکن ناقابلِ تلافی نقصان نہ پہنچا سکی۔ احسن اقبال پاکستان کے انتہائی باصلاحیت سیاست دان ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باوقار و باکردار۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی جان بچ گئی۔ ان پر حملہ کرنے والا بظاہر ایک جنونی تھا، لیکن اس کے پیچھے کون ہے، اس کا پتا لگانا لازم ہے، اُن ''کارخانوں‘‘ کو مسمار کرنا ہو گا، جہاں اس طرح کے جنونی تیار کیے جاتے ہیں۔ خود کش حملہ آوروں سے یہ مخلوق کچھ مختلف نہیں ہے۔
جاوید ہاشمی کی واپسی
سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی سربلند بیٹی مریم جلسے سے خطاب کرنے ملتان پہنچے، تو مخدوم جاوید ہاشمی کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت بڑے جلسے کو گواہ بنا کر جاوید ہاشمی واپس مسلم لیگ (ن) میں آ گئے۔ تحریک انصاف میں اُن کی شمولیت اور پھر بغاوت ہماری سیاسی تاریخ کے دلچسپ، لیکن المناک ابواب ہیں، ان کی تفصیل پھر کبھی بیان ہو گی، فی الحال جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ (ن) کی خوشی میں شریک ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ عزیزم فواد چودھری سے نظر بچا کر اس ملاپ پر دونوں کو مبارک باد۔
نیب کا المیہ
نیشنل اکائونٹیبلٹی بیورو (NAB) نے ایک تصوراتی تجزیے کو بنیاد بنا کر سابق وزیر اعظم نواز شریف پر 4.9 ارب ڈالر بھارت بھجوانے کا الزام لگا دیا۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے چیئرمین نیب سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن وہ سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ وہ آہنی ہاتھوں سے احتساب جاری رکھیں گے... ان کے آہنی ہاتھ سلامت رہیں، یہاں معاملہ ان کا نہیں، بلکہ ذہنی صلاحیت کا ہے۔ مذکورہ الزام پر جاری پریس ریلیز سے پتا چلتا ہے کہ نیب میں مالیاتی امور کو سمجھنے کی استعداد نہیں ہے، اسی لیے ایک افسانوی رپورٹ کو حقیقی سمجھ لیا گیا۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتِ حال ہے۔ مقتدر اداروں میں صلاحیت کا فقدان بڑے نقصانات کا موجب بن رہا ہے۔ ارد گرد برپا طوائف الملوکی میں اس کا ازالہ کون کرے گا، یہ بتانے والا کوئی نہیں، اور قومی مستقبل کے لیے یہ بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں