''ڈان‘‘ کے نمائندے سرل المیڈا کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے جو انٹرویو دیا، اس پر کئی دن گزر چکے ہیں،لیکن ہنگامہ ابھی تک اُٹھا ہوا ہے۔ ہر اخبار اور ہر چینل پر بحث جاری ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی اس کے حوالے سے غبار اڑایا جا رہا ہے، نکالا بھی جا رہا ہے اور ڈالا بھی جا رہا ہے۔ اِس انٹرویو سے پہلے بھی نواز شریف کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ جاری تھی۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ اور مُلک کا منتخب وزیراعظم ہونے کے باوجود اُن کی حب الوطنی پر سوالات اُٹھائے جا رہے تھے۔ ایسے اینکر، تجزیہ کار اور کالم نگار موجود تھے، جو ان پر بھارت کے مفادات کے تحفظ کا دن دیہاڑے الزام لگاتے تھے، اور کوئی ان کا منہ بند کرنے والا نہیں تھا۔ پیمرا اس کا نوٹس لے رہا تھا، نہ ہی غیرذمہ دار نشریاتی اور صحافتی اداروں کے کرتا دھرتا ٹس سے مس ہو رہے تھے۔ نواز شریف کے سیاسی حریف اس جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران مظفر آباد میں کھڑے ہو کر ''مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعرے لگائے اور لگوائے تھے۔ ان کا زورِ بیان اس پر صرف ہو رہا تھا کہ نواز شریف کا بھارتی وزیراعظم سے یارانہ ہے، اس لیے وہ کشمیری عوام کے اعتماد کے مستحق نہیں،لیکن اس کا جواب یوں ملا کہ آزاد کشمیر کے ووٹروں کی بھاری اکثریت نے اپنا وزن مسلم لیگ(ن) کے پلڑے میں ڈال دیا۔ برادر عزیز سردار عتیق احمد خان کی حکمتِ عملی مسلم کانفرنس کو مسلم لیگ(ق) کی سطح پر لے آئی، اور مسلم لیگ(ن) نے چودھری غلام عباس اور سردار عبدالقیوم کی امنگوں کی ترجمانی کا حق حاصل کر لیا۔ سردار سکندر حیات جیسے جیّد کشمیری رہنما نے بھی اس حوالے سے بھرپور کردار ادا کیا، اور آج وزیراعظم راجہ فاروق حیدر مسلم لیگ(ن) کے نمائندے کے طور پر آزاد کشمیر کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ہمسایوں سے تعلقات کی بحالی اور بہتری چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا پہیہ تیزی سے گردش میں نہیں آ سکتا۔ اسی کے لیے انہوں نے وزیراعظم واجپائی کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما تھا،جسے کارگل کی مہم جوئی نے سبوتاژ کر دیا۔ برسوں بعد وزیراعظم مودی کی ساری انتہا پسندی کے باوجود ان سے رابطہ بحال اور برقرار رکھنے کی کوشش جاری رہی۔ ان کا نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر کابل سے واپس جاتے ہوئے لاہور رکنا، ایک بڑی سفارتی پیش رفت ثابت ہو سکتی تھی لیکن اس پر توہین آمیز سوالات اٹھا دیے گئے، اور اسے طعنے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کا انتخاب پاکستان کے باسیوں نے نہیں کرنا۔ بھارتی ووٹر جس کو بھی منتخب کریں، اُس سے پاکستان کو معاملہ کرنا ہے۔ اگر وہاں سے اشارہ ملے تو پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے انکار نہیں کرنا۔ ایک بھارتی بزنس مین سے وزیراعظم کی ملاقات میں سے بھی وہ وہ کچھ نکالا گیا کہ خدا کی پناہ۔ گویا تعلقات کو معمول پر لانے کی ہر کوشش کو حب الوطنی کے منافی قرار دینے والے نہ صرف یہ کہ موجود تھے، بلکہ انہوں نے نو نو گز کی زبانیں نکال رکھی تھیں۔اس سے بڑا المیہ یہ ہواکہ نواز شریف اور ان کے اطلاعاتی معاونین اس صورتِ حال پر آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے۔ وہ اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ واضح کرنے کی اہمیت سمجھنے پر تیار نہیں تھے۔ مسلم لیگ(ن) اور وزیراعظم نواز شریف نے میڈیا کے محاذ پر جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس پر سر ہی پیٹا جا سکتا ہے، ان کا پیٹ لیا جائے یا اپنا۔ اسی ماحول میں ''ڈان لیکس‘‘ کا معاملہ اُٹھا اور اسی پس منظر میں سرل المیڈا کا انٹرویو ہوا، تو مخالفوں کے ہاتھ میں گویا ایٹم بم آ گیا۔سوال کیا گیا کہ آپ کی اپنے منصب سے بے دخلی کا سبب کیا تھا، تو سابق وزیراعظم نے براہِ راست اس کا جواب دینے کے بجائے گفتگو کا رُخ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی طرف موڑ دیا ''ہم نے اپنے آپ کو تنہا کر لیا ہے۔ ہماری قربانیوں کے باوجود ہمارا بیانیہ قبول نہیں کیا جا رہا۔ افغانستان کے بیانیے کو قبولیت مل رہی ہے،لیکن ہمارے کونہیں ہمیں لازماً اس کا جائزہ لینا چاہیے‘‘۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھی ''عسکری تنظیمیں سرگرم ہیں۔ انہیں ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کہہ لیجئے، کیا ہمیں انہیں سرحد پار کرنے اور ممبئی میں 150 افراد کو ہلاک کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟ ہم مقدمہ کی سماعت کو مکمل کیوں نہیں کر سکتے؟ (اشارہ ممبئی حملوں سے متعلق اُس مقدمے کی طرف تھا جس کی کارروائی راولپنڈی کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت میں رکی ہوئی ہے)۔ (نواز شریف بات جاری رکھتے ہیں) یہ قطعاً ناقابلِ قبول ہے۔ یہ وہ(معاملہ) ہے جس کے لئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ صدر پیوٹن نے یہ کہا ہے، صدر شی نے بھی یہ بات کہی ہے (جناب شریف نے کہا) ہم ''اپنی جی ڈی پی کی شرح نمو7فیصد تک لے جا سکتے تھے، لیکن ایسا کر نہیں سکے‘‘۔
ان الفاظ پر بھارتی میڈیا نے طوفان اٹھا دیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے ممبئی حملوں کے متعلق بھارتی موقف کو تسلیم کر لیا ہے، یہ لہر پاکستان پہنچی اور یہاں بھی ''غدار ہے، غدار ہے‘‘ کے نعرے پُرزور ہو گئے۔ جن زبانوں کو پہلے ہی یہ الفاظ ازبر تھے ان کی تیزی دیدنی تھی۔ یہ الفاظ یقینا سہواً ادا نہیں ہوئے۔تمام تر تنقید کے باوجود انہیں واپس بھی نہیں لیا گیا۔ نواز شریف اس سارے معاملے پر ایک قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جا سکے۔کسی کو الفاظ کے اس چنائو سے اتفاق ہو یا نہ ہو،ان کے اہداف اور مقاصد پر جو بھی رائے دی جائے، یہ بات اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم کو اشارۃً یا کنایۃً بھی ایسی بات نہیں کہنی چاہئے، جس سے پاکستان کے سرکاری بیانیے پر آنچ آتی ہو، اور اپنے اقتدار کے دوران جس نے اس کی درستی یا اصلاح کے لیے وہ اقدام بھی نہ کیا ہو جو اب تجویز کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ سابق وزیراعظم کا سارا زور معاشی ترقی پر تھا، اور 7فیصد شرح نمو حاصل کرنے کے لیے وہ ماحول کو سازگار بنانے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔ اس میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ بھارت اور پاکستان جب تک اپنے مسائل کے پُرامن تصفیے پر اتفاق نہیں کریں گے، اور اپنے اپنے اندر سرگرم غیر ریاستی جنگجوئوں کی سرکوبی نہیں کریں گے، اس خطے کے عوام کی زندگی میں وہ تبدیلی نہیں آ سکے گی، جس کے وہ حقدار ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات جس بھی نہج پر ہوں تاریخی پس منظر میں ان کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کو معصوم تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی قیادت کی کوتاہ نظری کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ خود گاندھی جی نے اس کے پاکستان مخالف اقدامات پر احتجاج کرتے ہوئے جان دی۔ قاتل نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ پاکستان کے حق میں مہم چلائے ہوئے تھے، یاد رہے ان کا مطالبہ برطانوی ترکے میں سے پاکستان کے واجبات کی جلد ادائیگی کا تھا۔
نواز شریف کے الفاظ جتنے بھی ناپسندیدہ ہوں، ان سے ان کے مخالف جو کچھ برآمد کر رہے ہوں، انہیں پٹاخہ سمجھا جائے یا ایٹم بم۔غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سے ہم پاکستانی سیاست کو ہموار اور بااعتبار نہیں بنا سکتے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ ''مائنڈ سیٹ‘‘ آغاز ہی سے موجود رہا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو تحریک پاکستان کے (قائداعظم کے بعد) دوسرے بڑے رہنما تھے، اپنی دو اضلاع پر مشتمل جاگیر کو قربان کر کے پاکستان آئے تھے، اور اس کا معاوضہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کوئی کلیم بھی داخل نہیں کیا تھا۔ جو اپنی تنخواہ پر گزارا کرنے کے تجربے سے صبرواستقامت کے ساتھ گزر رہے تھے، ان کے خلاف1951ء ہی میں فوجی بغاوت کی کوشش ہوئی، جسے ناکام بنا دیا گیا۔ میجر جنرل اکبر خان اس کی قیادت کر رہے تھے۔ باغیوں پر مقدمہ چلا تو انہوں نے اپنے بیانات میں ان پر ''کرپشن‘‘ اور ''نااہلی‘‘ کے الزامات لگائے، اور کشمیر میں جنگ بندی قبول کرنے کو ملکی مفادات سے بے وفائی (غداری) قرار دیا۔ یہ سازش تو پکڑی گئی،لیکن اس کے چند ہی ماہ بعد انہیں گولی مار کر اس دُنیا سے رخصت کر دیا گیا۔وہ دن جائے اور آج کا آئے، پاکستانی سیاست میں بار بار ''غداری‘‘ کے الزامات گونجتے رہے ہیں۔ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے پر اصرار کیا جاتا رہا ہے۔ لیاقت علی خان کے جانشینوں پر گزرنے والے صدموں کی تفصیل بیان کرنے کی اس وقت گنجائش نہیں یہ تفصیل پھر بیان ہو گی ؎
نہ تم بدلے، نہ دِل بدلا، نہ دِل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلاب آسماں کر لوں
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)