وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں،نگران وزیراعظم نے حلف اٹھا لیا ہے،لیکن تین صوبوں میں ابھی تک نگران وزیراعلیٰ کے نام پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکی، صرف سندھ میں سابق چیف سیکرٹری فضل الرحمن کے نام پر اتفاق ہوا تھا، اس لیے تین وزرائے اعلیٰ اپنی اپنی جگہ ہیں، اور اگر معاملہ پارلیمانی کمیٹیوں سے ہوتا ہوا الیکشن کمیشن کے پاس جاتا ہے،تو پھر ان کے اقتدار کی مہلت میں چند روز کی توسیع ہو سکتی ہے۔ جب تک کسی صوبے میں نگران وزیراعلیٰ مقرر نہیں ہوتا،اُس وقت تک وزیراعلیٰ، سابق نہیں ہو سکتا۔ خیبرپختونخوا میں جن صاحب کے نام پراتفاق کی خبر آئی تھی، ان کے بارے میں اعتراضات سامنے آنے پر تحریک انصاف نے اپنی رائے تبدیل کر لی، اور یہ معاملہ پھر اپوزیشن لیڈر (مولانا لُطف الرحمن) کے ساتھ مشاورت کی زد میں آ گیا۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف نے سابق چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ کا نام پیش کیا، مسلم لیگ(ن) نے اس سے اتفاق بھی کر لیا،لیکن پھر سوشل میڈیا کے احتجاج کا عذر پیش کر کے یہ نام واپس لے لیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) کا موقف یہ تھا کہ آئینی مشاورت مکمل ہونے کے بعد نام کو حتمی شکل دے دی گئی ہے‘ سمری گورنر کو بھجوائی جا چکی، نوٹیفکیشن جاری ہونے والا ہے، اس لیے اس پر نظرثانی نہیں ہو سکتی۔یعنی آئین اور قانون میں تھوک کر چاٹنے والی کوئی دفعہ موجود نہیں ہے۔رانا ثناء اللہ لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں تھے، اور ناصر کھوسہ کی نامزدگی کو حتمی قرار دینے پر تُلے ہوئے تھے۔لیکن خود ناصر کھوسہ پیچھے ہٹ گئے۔ بھاڑ میں جائے سونا جس سے پھوٹیں کان۔ انہوں نے وہی کیا جو ایک شریف آدمی کو کرنا چاہیے تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ناصر کھوسہ سے خود عمران خان صاحب نے ٹیلی فون پر بات کر کے ان کی رضا مندی حاصل کی تھی،لیکن بعد میں اپنی رائے پر قائم رہنے کا حوصلہ نہ رہا۔پنجاب اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف جو کہ تحریکِ انصاف کے نامی گرامی رہنما بھی ہیں،دوبارہ مشاورت کے دائرے میں داخل ہوئے۔لیکن اس بار ان کی تشریف دو رانوں کے درمیان تھی۔ رانا ثناء اللہ کے ساتھ ساتھ سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال بھی اجلاس میں شریک ہو گئے۔اب تک کی خبروں کے مطابق انصافی ناموں میں تین میڈیا پرسنز کے ساتھ ساتھ ایک صنعتکار یعقوب طاہر اظہار کا نام بھی شامل ہے۔ڈاکٹر حسن عسکری رضوی، ایاز امیر اور اوریا مقبول جان کی پتنگیں ابھی اُڑ رہی ہیں۔یہ تینوں حضرات اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود مسلم لیگ(ن) کے سکہ بند ناقد ہیں، اور اپنے اپنے انداز میں اس کے لتّے لیتے رہتے ہیں۔جہاں تک یعقوب طاہر اظہار کا تعلق ہے،وہ اظہار لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور تحریکِ انصاف کی کور کمیٹی کے بھی ممبر ہیں۔ ان کی شرافت اور دیانت کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیںلیکن سیاسی وابستگی اپنی جگہ حقیقت ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے پیپلزپارٹی نگران وزیراعظم کے لئے اپنی جماعت کے ایک رہنما(ذکا اشرف) کا نام پیش کرنے کا تجربہ کر چکی ہے۔انہوں نے تو چند روز پہلے پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی سے استعفیٰ دے کرگویا اپنے آپ کو ''غیر جانبدار‘‘ بھی بنا لیا تھا،لیکن ان کی اس ادا کی داد مسلم لیگ(ن) دینے پر تیار نہ ہوئی، اس لیے ان کا نام حتمی طور پر طے نہ ہو سکا۔ قرعہ سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے نام نکل آیا۔ ان کے سورج کے سامنے کسی اور کا چراغ جل نہ پایا۔ اب دوسرا تجربہ یعقوب طاہر اظہار کے معاملے میں تحریک انصاف نے کیا ہے۔ لطف یہ کہ اول اول خیبرپختونخوا کے سابق آئی جی ناصر خان درانی کا نام بھی پیش کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے معذرت کر لی، ناصر کھوسہ کا حشر دیکھنے کے بعد ان کا حوصلہ ٹوٹ گیا ہو گا۔اب ایک خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) ناصر خان درانی کو اپنانے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ وہ اپنی معذرت واپس لے لیں۔ مسلم لیگ(ن) نے اپنی طرف سے چار نام پیش کر دیے ہیں۔ اِن میں ایڈمرل ذکاء اللہ اور جسٹس(ر) سائر علی بھی شامل ہیں۔ سائرعلی اِس وقت بیرون ملک گرمیاںگزار رہے ہیں۔اوریا مقبول جان کا نام بقول میاں محمود الرشید، چیئرمین عمران خان سے پوچھ کر شامل کیا گیا،لیکن فواد چودھری نے اس کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔یوں ان کا نام ہر چند کہیںکہ ہے، نہیں ہے... والی صورت اختیار کر گیا۔ تحریک انصاف کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر شدید تنقید ہو رہی ہے،لیکن اس کے حامی اسے ناتجربہ کاری کا نتیجہ قرار دے کر اس کے خلوص کی داد دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان سیاسی جماعتوں کی طرح نہیں ہے جو عوامی ردعمل کی کوئی پروا نہیں کرتیں۔ اس سارے شر میں خیر کا پہلو یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو اپنے کان کھلے رکھنے چاہئیں، ان میں روئی ٹھونس کر بیٹھ رہنے کو ''ثابت قدمی‘‘ نہیں ''ہٹ دھرمی‘‘ کہا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ لیڈر حضرات کانوں کے کچے نہ ہوں۔ پنجابی محاورے کے مطابق ''جنہیں لائی گلّی، اودھے نال ٹر چلّی‘‘ (جس نے باتوں میں پھنسایا اس کے ساتھ چل پڑے) امید کی جانی چاہئے کہ صوبوں میں بھی نگران وزرائے اعلیٰ جلداز جلد حلف اٹھا لیںگے۔اس حوالے سے دستور کی دفعہ224 بڑی واضح ہے۔ اس کے تحت معاملات کو کھلا نہیں چھوڑا گیا، واضح لائحہ عمل کا تعین کر کے دن بھی مقرر کر دیے گئے ہیں، کسی کی سیاسی یا غیر سیاسی خواہشات جو بھی ہوں، گاڑی کو تو بہرحال آگے بڑھنا ہے۔
نگران وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہی اعلان کیا ہے کہ انتخابات25جولائی کو ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے بھی یہی بات کہی جا رہی ہے۔الیکشن کمیشن کو بھی اس پر اصرار ہے، اس کے باوجود پُراسرار چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ بلوچستان اسمبلی اس حوالے سے ایک قرارداد بھی منظور کر چکی ہے، ہر چند کہ اس کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں ہے،بلکہ اگر اسے غیر آئینی قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔اس سے یہ بہرحال واضح ہو جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی ایسا ضرور موجود ہے جو انتخابات کی منزل کھوٹی کرنا چاہتا ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ اس طرح کی آرزوئیں خام ثابت ہوں گی، اور دستور کے مطابق آگے بڑھنے کا عمل روکا نہ جا سکے گا۔انتخابات کا انعقاد دستوری طور پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، دوسرے تمام اداروں کو اس کی معاونت کرنا ہے، نگران حکومتیں ہوں یا دفاعی اور عدالتی ادارے ان میں سے کسی کو بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔الیکشن کمیشن کو پورے اعتماد اور اختیار کے ساتھ اپنے طاقتور وجود تک کا احساس دِلانا ہے، دستور سے انحراف کا نتیجہ نہ ماضی میں اچھا ہوا ہے، نہ مستقبل میں ہو سکے گا۔
کاغذاتِ نامزدگی فارم کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے نے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے طویل غورو خوض اور مباحثے کے بعد الیکشن آرڈر2017ء مرتب کیا تھا۔ اس میں کاغذات نامزدگی کے فارم کو آسان بنایا گیا تھا، اور بعض ایسی تفصیلات حذف کر دی گئی تھیں‘ جنہیں غیر ضروری سمجھا گیا۔لیکن لاہور ہائی کورٹ نے پرانا فارم بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر امیدوار کے لیے یہ حلف نامہ داخل کرنا لازم ہے کہ وہ دستور کی دفعہ 62 اور63 کے مطابق اہل ہے۔ اس کے بعد فارم میں خانہ وار تفصیل دینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ نیا فارم بنانے سے شیڈول متاثر ہو سکتاہے۔ الیکشن کمیشن اور سپیکر قومی اسمبلی نے اس پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ حلقہ بندیوں سے متعلق مختلف اعلیٰ عدالتوں میں رٹ جورسڈکشن کے تحت درخواستیں دائر کی گئی ہیں، اور کئی ایک پر فیصلے بھی آ چکے ہیں۔ اس سے بھی چہ میگوئیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف قوم اس امید سے دیکھنے میں حق بجانب ہے کہ ہر طرح کا ابہام دور کیا جائے، اور(بھارت کی طرح) اعلیٰ عدلیہ کو ہدایت جاری کریں کہ وہ انتخابی عمل میں کسی بھی طور، کسی بھی طرح کی مداخلت نہ کریں۔ الیکشن ایکسپریس کا ڈرائیور ایک ہی ہونا چاہیے، اور وہ ہے الیکشن کمیشن۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)