جس روز سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اُن کی بیٹی گرفتاری پیش کرنے کے لیے لندن سے لاہور واپس آ رہے تھے، پنجاب ہی نہیں وفاقی حکومت کی توجہ بھی اِس طرف مرکوز تھی۔ نگران وزیر قانون و اطلاعات صوبائی حکومت سے ہر ممکن تعاون کی علی الاعلان یقین دہانیاں کرا رہے تھے، پنجاب حکومت کے وزیر اعلیٰ اور جملہ پولیس افسران بھی اس طرف متوجہ تھے۔ صوبے کے نگران وزیر داخلہ چونکہ سابق انسپکٹر جنرل ہیں، اِس لیے وہ اپنے مزاج اور تربیت کے مطابق معاملات چلانے کی کوشش میں تھے۔ لاہور آنے والے راستے بند کیے جا رہے تھے،ایئر پورٹ جانے والی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی تھیں۔ الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کا نام لے لے کر ہر وہ کارروائی کی جا رہی تھی، جس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما سٹپٹاتے نظر آئیں۔ یونین کونسل کے چیئرمینوں اور کونسلروں کی گرفتاریاں جاری تھیں، لاہور سے باہر بھی جہاں مناسب سمجھا جاتا، ہاتھ صاف کر لیا جاتا۔ لاہور پولیس کے انچارج ارشاد فرما رہے تھے کہ محض شرپسند سیاسی کارکنوں کو حوالۂ زنداں کیا جا رہا ہے۔ شر پسند کی تشریح ان کے بس کی بات تھی، نہ جناب وزیر داخلہ اِس حوالے سے چبھتے ہوئے سوالات کرنے والوں کو مطمئن کر پا رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنمائوں کی نظر بندی کے احکامات بھی جاری ہو چکے تھے۔ حیرت اِس بات پر تھی کہ انتخاب 25 جولائی کو ہونے والا ہے اور نظر بندیاں تیس تیس دن کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اِس ماحول میں بنوں سے خبر آئی کہ سابق وزیراعلیٰ اور متحدہ مجلس عمل کے رہنما اکرم درانی کے قافلے پر حملہ ہوا ہے، جس میں پانچ افراد شہید ہو گئے ہیں۔ درانی صاحب محفوظ رہے تھے، لیکن خون کے دھبے پھیل گئے تھے۔ چند ہی روز پیشتر پشاور میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور کی ایک کارنر میٹنگ کو نشانہ بنایا گیا تھا، بہادر باپ کا یہ بہادر بیٹا زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا تھا۔ پشاور کی ممتاز بلور فیملی اِس سے پہلے اپنے سر بلند سپوت بشیر بلور کو قربان کر چکی تھی۔ وہ خیبر پختونخوا میں اے این پی حکومت کے سینئر وزیر تھے، اور دہشت گردوں کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوئے تھے۔ اب اُن کے جواں سال بیٹے کی جان لے لی گئی تھی۔ ہارون بلور مرحوم پاکستان کی محبت میں سر تا پا ڈوبے ہوئے تھے، اور اِسے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے کوشاں۔ دہشت گردوں نے ان کی ایک کارنر میٹنگ کو نشانہ بنایا، اور انتخابی مہم کو داغدار کر دیا۔ 21 افراد لقمہ اجل ہو گئے۔ اس زخم سے خون رس ہی رہا تھا کہ بنوں میں ہولی کھیل لی گئی... کچھ ہی دیر بعد مستونگ سے قیامت خیز خبر آ گئی۔ پاکستان کے ایک اور دلیر بیٹے سراج رئیسانی کی کارنر میٹنگ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ سراج سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے، اور پاکستان کی محبت میں سرشار۔ اس کے دشمنوں کے راستے کی دیوار... ایک ہی دن پہلے ''دُنیا نیوز‘‘ میں کامران خان صاحب کے شو میں انہوں نے اپنے جذبات اور مستقبل کے منصوبوں کا اظہار کرکے سننے والوں کے دِل میں جگہ بنائی تھی۔ ایک اطلاع کے مطابق یہاں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد ایک سو پچاس سے تجاوز کر چکی ہے۔ نواب سراج کی رہائش گاہ کے قریب ہی ایک بند احاطہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہاں آنے والوں کی تلاشی لینے کا کوئی اہتمام نہ تھا کہ اسے شاید بلوچوں کے آدابِ میزبانی کے خلاف سمجھا گیا۔ اپنے علاقے میں بے خوفی بھی کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔ خود کش حملہ آور آنکھ بچا کر اگلی صف میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ دہشت گردی کی بھیانک ترین وارداتوں میں ایک کا اضافہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ شہدا کی مغفرت فرمائے، اور ان کے لواحقین کو صبر دے لیکن یہ حقیقت تو واضح ہے کہ دہشت گردی کے جن کو قابو کر لینے کی لوری ہم سب نے ایک دوسرے کو سُنا سُنا کر سُلا رکھا تھا۔ حساس ادارے بھی مطمئن تھے، اور سیاسی کارکن بھی اپنی دھن میں مگن تھے۔ اب سب ہڑبڑا کر اُٹھے ہیں اور احتیاطی تدابیر کی طرف پھر توجہ مبذول کی جا رہی ہے۔
لاہور میں قیامت کے اِسی ایک دن کے دوران مسلم لیگ(ن) اور پنجاب حکومت کے درمیان جو کچھ ہوا، وہ بھی خواب غفلت ہی کے سبب ہو سکتا تھا۔ حالات کی سنگینی کا احساس کرنے والوں کو قانونی‘ سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت کی نہ تو ضرورت ہے، نہ ہی ان کے پاس اس کا وقت ہونا چاہیے، لیکن انتخابی مہم میں جس طرح من مانیاں کی جا رہی ہیں، جس طرح گرفتاریاں جاری ہیں، جس طرح امیدواروں کو دبائو میں لایا جا رہا ہے، اور جس طرح میڈیا پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذمہ داروں کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے سے زیادہ سیاسی عمل کو گدلا کرنے، اور مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے اعلان کر رکھا تھا کہ لندن سے واپس آنے والوںکے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے اس کے جتّھے ایئر پورٹ کا رُخ کریں گے۔ کسی کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے جانا کوئی غیر قانونی سرگرمی نہیں ہے۔ یہ ہماری ایک سماجی روایت بھی ہے، اور سیاسی تعلق کے اظہار کا ذریعہ بھی۔ اگر حکومت مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بنا لیتی تو وقت اور سرکاری خزانے کا وہ ضیاع نہ ہوتا جو اس روز دیکھنے میں آیا۔ نگران حکومت کا چہرہ صاف رہتا، اور اس پر جانبداری کی پھبتی نہ کسی جا سکتی۔ یہ مسلم لیگ(ن) کی اپوزیشن حکومت تو ہے نہیں، پھر اسے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا، اور کیا حاصل ہوا؟ کارکنوں اور پولیس کے درمیان اِکا دُکا جھڑپیں ہوئیں، لیکن کسی بڑے تصادم تک نوبت نہیں پہنچی کہ یہ مقصود ہی نہیں تھا، جس جماعت کی توجہ 25 جولائی کے انتخابات پر ہو، وہ دھینگا مشتی کی متحمل کیسے ہو سکتی ہے؟
نواز شریف اور اُن کی بیٹی میڈیا کے جلو میں لاہور پہنچے، سکون اور اطمینان سے گرفتاری دی، بذریعہ خصوصی جہاز اُنہیں اسلام آباد لے جا کر اڈیالہ جیل میں بند کر دیا گیا۔ کسی نے کوئی مزاحمت کی، نہ جھگڑا کیا، قانون کے مطابق ہر کام ہوتا چلا گیا۔ اب احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف ان کی اپیل کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہو گی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت قانون دانوں کی بھاری تعداد کی رائے میں احتساب عدالت کا فیصلہ قانونی طور پر کمزور ہے۔ اگر یہ معطل ہوتا ہے تو نواز شریف رہا بھی ہو سکتے ہیں، اور مریم کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل سکتی ہے۔ نواز شریف تو تین بار وزیر اعظم بن چکے، اب اُن کی سیاست بند گلی میں رہے یا یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے، اس سے زیادہ نظریں مریم پر لگی ہوئی ہیں کہ جن کی سیاست کو مضبوط بنیاد فراہم کر دی گئی ہے۔
بد ذوقی اور تُھڑ دلی کی انتہا دیکھیے کہ باپ اور بیٹی کو ایک احاطے میں نہیں رکھا گیا۔ نواز شریف کو تو بی کلاس دے دی گئی ہے۔ یاد رہے یہ بی بیٹر (BETTER) کی ہے، دوسرے درجے کی نہیں۔ جیل میں دو ہی کلاسیں ہوتی ہیں، بی اور سی... اے کلاس کے الفاظ محض فراخدلی کا رعب جمانے کے لیے استعمال کر لیے جاتے ہیں۔ مریم کو سی کلاس میں رکھ کر یہ فرمائش کی گئی ہے کہ بی کلاس کے لیے باقاعدہ درخواست دی جائے تو غور کر لیا جائے گا۔ نگران حکومت کی یہ حرکت اس کے ماتھے کا جھومر نہیں، چہرے کا سیاہ داغ بنے گی۔ مریم نے یہ درخواست دینے سے انکار کر دیا ہے۔ عام خواتین کے ساتھ رہنا انہیں زیادہ پسند ہے۔ یہاں اقبال یاد آ گئے، مریم کے نام میرا پیغام بھی یہی ہے ؎
ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرۂ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند
مشک اذفر چیز کیا ہے، ایک لہو کی بوند ہے
مشک بن جاتی ہے ہو کر نافۂ آہو میں بند
ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیںدام و قفس سے بہرہ مند
''شہپرِ زاغ و زغن در بندِ قید و صید نیست
ایں سعادت قسمتِ شہباز و شاہیں کردہ اند‘‘
آخری (فارسی) شعر کا مفہوم یہ ہے کہ چیلوں اور کووں کے لیے جال نہیں بچھائے جاتے، یہ سعادت شاہباز و شاہیں کی قسمت ہی میں لکھی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)