عام انتخابات مکمل ہو چکے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے نتائج کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ چند نشستوں کو چھوڑ کر جیتنے اور ہارنے والوں کے نام سامنے آ چکے۔ پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔ قومی اسمبلی میں اس کے ارکان سب سے زیادہ ہیں لیکن حکومت سازی کے لئے مطلوب اکثریت بنانے کے لئے اسے آزاد ارکان اور بعض یک رکنی‘ دو رکنی اور سہ رکنی جماعتوں کے ساتھ معاملہ کرنا پڑے گا۔ خیبر پختونخوا میں اسے انتہائی شاندار کامیابی ملی ہے۔ پہلے سے کہیں زیادہ اس کی پوزیشن مستحکم ہو چکی۔ پورے صوبے میں اس پر اعتماد کا اظہار کیا گیا‘ اور اب یہ اپنے طور پر حکومت سازی کر سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پرویز خٹک ہی نئے وزیر اعلیٰ ہوں گے کہ ان کی صوبائی قیادت میں یہ معرکہ مارا گیا ہے۔ عمران خان کی سحر انگیز شخصیت کے ساتھ ان کے کردار کا انکار بھی ممکن نہیں ہو گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے 2013ء کے مقابلے میں بہتر نتائج حاصل کئے ہیں‘ اور یہاں بھی وزارتِ اعلیٰ کا ہما سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے سر پر دوبارہ بٹھا دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں بی اے پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے‘ وہاں روایتی مخلوط حکومت ہی بنے گی۔ اس کی سربراہی کے لئے جام کمال کا نام سامنے آیا ہے جو جام میر غلام قادر آف لسبیلہ کے پوتے اور جام محمد یوسف کے بیٹے ہیں۔ میر غلام قادر کو یہ شرف حاصل ہوا تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت خان آف قلات کی پروا نہ کرتے ہوئے لسبیلہ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی خاران اور مکران کی ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ ملحق ہو گئیں اور قلات کی ریاست کا سمندر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ بعد ازاں میر احمد یار خان مرحوم نے بھی الحاقِ پاکستان کی دستاویز پر دستخط کر دیئے۔ لسبیلہ کے حکمران خاندان کو پاکستان کے مقتدر (اور تاریخ سے آگاہ) حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جام غلام قادر اور ان کے بیٹے جام یوسف کئی بار ''متفقہ شخصیت‘‘ کے طور پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔ جام کمال اپنے تقوے اور ذہانت کے حوالے سے ممتاز ہیں۔ اگر قرعہ ان کے نام نکل آیا تو یہ نیک شگون ہو گا۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف آمنے سامنے ہیں۔ اسمبلی میں مسلم لیگ سب سے بڑی جماعت ہے لیکن پی ٹی آئی سے اس کا فاصلہ بہت کم ہے۔ آزاد ارکان کے ہاتھ میں دونوں کی تقدیر ہے۔ جن عوامل نے مسلم لیگ (ن) کو یہاں تک پہنچایا ہے‘ وہ آزاد ارکان کو اس کے قریب کہاں آنے دیں گے۔ مسلم لیگ (ق) اور آزادوں سے مل کر تحریک انصاف حکومت بنانے کے لئے پَر تول رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی صوبائی نشست ہار چکے ہیں۔ عبدالعلیم خان خود کو مردِ میدان تو سمجھ رہے ہیں لیکن فواد چودھری کے قدم بھی جمے ہوئے ہیں۔ ان کی دھاڑ اور للکار کا انکار بھی ممکن نہیں۔ اَن تھک ڈاکٹر یاسمین راشد بھی توجہ کا مرکز ہیں۔ اٹک کے سابق ضلعی ناظم طاہر صادق کا نام بھی گردش میں ہے۔ ان کی گڈ گورننس سے ایک زمانہ واقف ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا نام بھی ہونٹوں پر ہے‘ اگر آزاد ارکان ان کے ساتھ مل جائیں یا مسلم لیگ (ن) ان سے معاملہ کرنے پر آمادہ ہو جائے تو کھیل بدل سکتا ہے۔
حمزہ شہباز نے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی جماعت (PTI) کے لئے راستہ چھوڑ دیا تھا اور اسے بلا مقابلہ حکومت بنانے کا موقع دیا تھا‘ اسی طرح اب پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حیثیت کو تسلیم کیا جائے‘ لیکن دستور کے مطابق وزیر اعلیٰ کا انتخاب وزیر اعظم ہی کی طرح ایوان کے اندر ہونا ہے۔ جو وہاں اکثریت ثابت کر دے گا‘ اسی کو گورنر دعوت دے سکے گا۔ پاور پالیٹکس میں کوئی کسی پر رحم نہیں کھاتا۔ پنجاب کی حکومت کے بغیر پاکستان کا اقتدار گوشت کے بغیر پلائو ہے‘ جسے خصّی پلائو کہا جاتا ہے۔ ایسی خصّی حکومت خان صاحب بآسانی کیوں قبول کریں گے؟ حیرت کی بات ہے کہ بڑے جیّد دانشور بھی یوم انتخاب ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے ہوئے سب سے بڑی جماعت کو دعوت دینے کے فوائد گنواتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ گورنر کو پہل کرنی چاہئے‘ حالانکہ دستور میں ایسی کوئی دفعہ موجود نہیں۔ اب 1973ء کے اصل دستور کی وہ دفعات نافذ العمل ہیں‘ جن کے مطابق وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں اپنا قائد ہاتھ کھڑے کر کے چنتی ہیں‘ اِس حوالے سے صدر یا گورنر کے پاس ذرہ برابر اختیار بھی نہیں ہے۔
بڑے بڑے سیاسی لیڈر بشمول مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی‘ سراج الحق‘ محمود خان اچکزئی‘ غلام احمد بلور‘ فاروق ستار چاروں شانے چت گرے ہیں۔ کئی اور نامیوںکے نشان بھی مٹ گئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری مالاکنڈ تو کیا لیاری میں بھی کامیاب نہیں ہو پائے۔ کراچی میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ پچھڑنے والی جماعتوں نے میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مولانا اور ان کے ہم نوائوں کا موقف ہے کہ استعفے دے کر نئے انتخابات کے لئے مہم چلائی جائے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس معاملے پر غور کرنے کے لئے مہلت طلب کی ہے۔ بلاول نے بھی انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کے باوجود اسمبلیوں میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسمبلیوں کا بائیکاٹ یا استعفیٰ بازی کوئی مناسب آپشن نہیں ہو گا۔ یوم انتخاب سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا‘ اسے رکھیے ایک طرف‘ پولنگ کے دوران کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں لائی گئی۔ فوجی محافظوں کی موجودگی اطمینان کا باعث بنی رہی۔ اکثر جگہ لوگ انہیں پھول پیش کرتے رہے لیکن گنتی کے دوران جو کچھ ہوا‘ اس نے بے چینی پیدا کی۔ الیکشن کمیشن نے جو رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم (RTS) بنایا تھا اس کے مطابق ہر پولنگ سٹیشن سے براہ راست (سمارٹ فون کے ذریعے) نتیجے کو الیکشن کمیشن تک پہنچنا تھا۔ پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب اس نظام کی کامیابی پر پہلے ہی شک کا اظہار کر چکے تھے۔ اس ناکامی نے نتائج کو مؤخر کیا اور ان گنت شکایات بھی سامنے آئیں۔ اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں کہ اس کا سبب کیا تھا کہ اس کے بغیر دِلوں کو اطمینان نصیب نہیں ہو گا۔ اس سے قطع نظر انتخابی نتائج کو بحیثیتِ مجموعی غیر ملکی اور ملکی مبصرین نے قبول کر لیا ہے۔
دھاندلی کا الزام لگا کر تحریک چلانے اور مزید دھاندلی کا سامان کرنے کی کسی کوشش کی داددینا مشکل ہے۔ شکایات کا ازالہ قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی تیاری کرے۔ ہنگامے‘ فساد کی سیاست نے نہ تو پہلے پاکستان کو کچھ دیا ہے‘ نہ آئندہ دے گی۔ ہاں جنوبی پنجاب کا (پہلے سو دن کے اندر اندر) الگ صوبہ بنوانے کا جو وعدہ عمران خان نے کیا تھا‘ اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) اس پر عملدرآمد کے لئے پورا زور لگا ڈالے۔ عمران خان مقبول لیڈر بن کر ابھرے ہیں‘ انہیں وزارتِ عظمیٰ اور قوم کو وزیر اعظم عمران خان مبارک۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب یہی ہے کہ ووٹ کا فیصلہ تسلیم کیا جائے۔ عمران خان نے انتخاب جیتنے کے فوراً بعد اپنی نشری تقریر میں اپنی جو ترجیحات بیان کی ہیں‘ جس دھیمے پن سے قومی مسائل کا ذکر کیا۔ جس پُر عزم لہجے میں سادگی اور دیانت داری کو شعار بنانے کا یقین دلایا‘ اور جن صاف الفاظ میں بھارت سے اچھے تعلقات کی بات کرتے ہوئے کشمیر کے حل پر زور دیا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو صراحت کی‘ اس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ان سے اختلاف کرنے والوں نے بھی ان کے لہجے کی داد دی ہے۔ سادہ شلوار قمیص میں ملبوس آئندہ وزیر اعظم نے اپنی قومی زبان میں اپنے دل کو زبان دی‘ تو اسے پسندیدگی سے دیکھا گیا... انہوں نے طویل و عریض وزیر اعظم ہائوس کی بجائے وزیروں کے لئے مختص رہائش گاہوں میں سے کسی ایک میں رہنے کی خبر دی... دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ اپنے الفاظ کو عملی جامہ کیسے پہناتے ہیں‘ لفظوں کی ڈسی ہوئی قوم اب صرف لفظوں سے مطمئن نہیں ہو سکتی۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]