چیف جسٹس ثاقب نثار دو سال اور اٹھارہ دن تک اپنے منصب پر رونق افروز رہنے کے بعد ریٹائر ہو گئے، اور اُن کی جگہ سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سنبھال لی، جو اِسی سال ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان کے عہدے کی مدت اُن کے سسر مرحوم چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی طرح 11 ماہ سے چند روز زائد رہے گی۔ وہ بھی ایک سال اس منصب پر پورا نہیں کر سکے تھے۔ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ قضا کی تاریخ میں بلند ترین عدالتی منصب پر پہنچنے والے یہ واحد''سسر اور داماد‘‘ ہوں گے کہ اس سے پہلے کسی بھی مُلک میں یہ منصب اس رشتے کے حامل دو افراد کے حصے میں نہیں آیا۔ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی پڑھائی لکھائی بھی مضبوط تھی، اور کھوسہ صاحب بھی اس لحاظ سے ممتاز ہیں۔ روشن خیال، روشن دماغ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، مقدمات کو اُلجھانے اور لٹکانے نہیں، نمٹانے اور فیصلے سنانے والے۔ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں وزیر اعظم نواز شریف کی اسمبلی بحال کی گئی تھی، اور صدر غلام اسحاق خان کے صدارتی حکم نامے کو ہوا میں اڑا دیا گیا تھا۔ اِس سے پہلے وزیر اعظم کی برطرفی (یا قومی اسمبلی کی تحلیل) کا حکم براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔ اس طرح کی کارروائیاں دستور کی دفعہ 199 کے تحت ہائی کورٹ میں چیلنج ہوتی تھیں، اور سپریم کورٹ تک پہنچتے پہنچتے سندھ اور راوی کے پُلوں کے نیچے سے لاکھوں کروڑوں کیوسک پانی گزر چکا ہوتا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کا فیصلہ بڑی نیم دلی سے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ خواجہ طارق رحیم نے اپنی طلاقتِ لسانی کے جوہر وہاں دکھائے تھے۔ اپیل سپریم کورٹ میں پہنچی تو انتخابی عمل جاری ہو چکا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس مرحلے پر اس میں مداخلت کو غیر ضروری قرار دے کر جونیجو صاحب کی فریاد سننے سے انکار کر دیا۔ (اس فیصلے کے پس پردہ محرکات کا معاملہ الگ ہے، وہ یہاں زیر بحث نہیں ہیں) دستور کی دفعہ 184 کے تحت قومی اسمبلی کی تحلیل کو بنیادی حقوق کا معاملہ بنا کر جناب انور خالد کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ پہنچے، تو چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے زیر صدارت سپریم کورٹ نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سرکاری (یا صدارتی وکلا) نے بہت دہائی دی کہ 184 کے تحت قومی اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ نہیں اُٹھایا جا سکتا، لیکن عدالت نے اس نکتے پر توجہ دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اس اعتراض کا فیصلہ بھی مقدمے کے فیصلے کے ساتھ سنایا جائے گا۔ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کے ان ریمارکس کی شہ سرخیاں بنیں کہ ہم تاریخ نہیں دہرائیں گے، فنی نکتوں پر فیصلہ نہیں کریں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے جسٹس منیر کے اس فیصلے کو رد کر دیا تھا، جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے حق میں دیا گیا تھا، جس سے گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھ مضبوط کر کے پاکستان میں ''فردِ واحد‘‘ کی حیثیت اور شخصیت (قوم کی اجتماعی دانش کے مقابلے میں) معتبر بنا دی گئی تھی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اُس وقت جو عبوری آئین نافذ تھا، اس کی کسی دفعہ نے گورنر جنرل کو یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ (یا عبرت انگیز) حقیقت یہ تھی کہ آزادی سے پہلے عدالت کو گورنر جنرل کے کسی اقدام کے خلاف رٹ جاری کرنے (یعنی اسے کالعدم قرار دینے) کا حق نہیں تھا۔ گورنر جنرل تاجِ برطانیہ کا نمائندہ تھا، اور محکوم قوم کے ججوں کو اپنے ''حاکم مطلق‘‘ کے خلاف اس طرح کے اختیارات حاصل نہیں تھے۔ آزادی کے بعد ہماری دستور ساز اسمبلی نے (عبوری) آئین میں ترمیم کر کے عدالت کو رٹ جاری کرنے کا اختیار دے دیا، لیکن دستور ساز اسمبلی چونکہ ساورن (مقتدر) تھی، اس لیے گورنر جنرل کے اس بل پر دستخط نہیں کرائے گئے۔ کسی بھی دستوری بل کو گورنر جنرل کے سامنے توثیقی دستخطوں کے لیے پیش کرنا اسمبلی کی خود مختاری کی توہین قرار پائی۔ قائد اعظمؒ کے وقت ہی سے یہ معمول تھا، اور اسے ان کی تائید حاصل تھی۔ جسٹس منیر کی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ عدالت کو رٹ جاری کرنے کا جو اختیار دیا گیا تھا، گورنر جنرل کے توثیقی دستخطوں کے بغیر ان کی حیثیت قانونی نہیں، اس لیے عدالت رٹ جاری نہیں کر سکتی۔ جب عدالت کی توجہ قائد اعظمؒ کے معمول کی طرف دلائی گئی تو جسٹس منیر نے بڑی نخوت سے جواب دیا کہ ہم اس کے پابند نہیں ہیں، اور یوں دستور ساز اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے جاری کیے جانے والے گورنر جنرل کے حکم کو غیر آئینی قرار دینے کا سندھ ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کے زیر صدارت سپریم کورٹ نے اس روایت پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہوئے نواز شریف اسمبلی بحال کر دی، اور دفعہ 184 کو نئی وسعت بخش دی۔ یہ الگ بات ہے کہ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے بینچ نے اسی دفعہ کے تحت وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ صادر کیا۔
بات کچھ طویل ہو گئی، لیکن پاکستان کی اُلجھی ہوئی عدالتی اور سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے لیے بعض اوقات طوالت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کا دور بڑا ہنگامہ خیز تھا، دفعہ 184 کا استعمال انہوں نے اس کثرت اور اس انداز سے کیا کہ کئی دِلوں میں گھر بنا لیا، اور کئی دِلوں میں اپنے لیے جگہ ختم کر لی۔ جسٹس ثاقب نثار ایک دھڑلے دار چیف جسٹس کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ جسٹس افتخار چودھری کے مقابلے میں اُن کی ''فتوحات‘‘ زیادہ ہیں۔ پاکستان میں انتظامی ابتری اس درجہ کو پہنچ چکی ہے، سول انتظامیہ لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرنے میں اس طرح ناکام ہو رہی ہے کہ بہت سے لوگ ایسے مسیحا کی تلاش میں رہتے ہیں، جو بیک جنبشِ قلم ان کے مصائب اور مسائل کا ازالہ کر سکے۔ سپریم کورٹ نے بنیادی حقوق کے نفاذ کے نام پر براہِ راست مداخلت کا جو رویہ اپنایا ہے، اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے دائرے اور طریق کار کو باقاعدہ بنانے کی اہمیت اور افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اس دفعہ کے تحت بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کو کوئی بھی حکم جاری کرنے کا اختیار ہے، اور کسی بھی معاملے کا وہ براہِ راست نوٹس لے سکتی ہے۔ یہ اختیار کسی ہائی کورٹ کو حاصل نہیں ہے۔ اس طرح ہمارے دستور سازوں نے سپریم کورٹ کو انتہائی طاقت بخش دی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ معاملہ بنیادی حقوق کا ہونا چاہیے، ہر معاملے کو بنیادی حقوق سے متعلق قرار دے کر ہر طرح کی کارروائی کی چھوٹ حاصل کر لینا، ظاہر ہے دستور کی روح کے مطابق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا حکم پورے مُلک میں برق رفتاری سے نافذ ہوتا ہے، اس کے راستے میں کوئی دیوار نہیں کھڑی کی جا سکتی، جبکہ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور تمام سول حکام کے احکامات ''عدالتی نظر ثانی‘‘ کی زد میں آ جاتے ہیں۔ انتظامی ابتری میں طویل عدالتی احکام امتناعی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن سپریم کورٹ (یا چیف جسٹس) کے سامنے کسی کی ایک نہیں چلتی۔ یہ منفرد حقیقت کئی اجڑے ہوئے دِلوں میں چراغ جلا گزرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلوں اور اقدامات کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لیا جاتا رہے گا، نئے چیف جسٹس نے سوو موٹو اختیار کو کم سے کم استعمال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اگر انہوں نے اسے ''طاقِ نسیاں‘‘ پر رکھ دیا تو اس کے اثرات بھی مثبت نہیں ہوں گے۔ بے نوائوں، اور غم کے ماروںکو براہِ راست انصاف فراہم کرنے کا سلسلہ رکنا نہیں چاہیے، لیکن انصاف کے نام پر نا انصافی کی حوصلہ افزائی بھی معاشرے کو استحکام نہیں دے سکے گی۔ کسی ایک کو ایسا ریلیف عطا کرنا، جو کسی دوسرے کے خلاف ظلم بن جائے، بجائے خود ظلم ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)