سعودی عرب کے ولی عہد اور مردِ آہن شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد آمد ہے۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے،تو ان کی آمد میں محض چند گھنٹے باقی بچے ہوں گے۔ اُن کے شاہانہ استقبال کی تیاریاں جاری ہیں۔ پروٹوکول کے روایتی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان اپنی کابینہ کے ہمراہ ہوائی اڈے پر اُن کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے۔ اُنہیں اکیس توپوں کی سلامی دی جائے گی، پاک فضائیہ کے طیارے فضا ہی میں ان کے حضور کورنش بجا لائیں گے۔ گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا، گویا داغ کے اس شعر کا منظر ہو گا؎
عجب اپنا حال ہوتا جو وصالِ یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دِل نثار ہوتا
وزیر اعظم ہائوس (عرف یونیورسٹی) کی تزئین و آرائش کر کے شاہانہ رہائش کے قابل بنا دیا گیا ہے۔ لگژری گاڑیوں کی نیلامی کر کے انہیں وزیر اعظم ہائوس سے نکال باہر کرنے والے، اب انہیں کرائے پر حاصل کر رہے ہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان صاحب اور ان کے رفقا کے وہ فرمودات سنائے اور دکھائے جا رہے ہیں جن میں وہ ان لوازمات کو ہدفِ تنقید بناتے رہے، لیکن اِس سے قطع نظر کہ ماضی کی اپوزیشن نے ماضی کی حکومت کے کس کس طرح لتے لیے تھے، اور کس کس رائی کا کیسا کیسا پہاڑ بنایا تھا، اور آدابِ میزبانی پر کس کس طرح کے طعن توڑے تھے۔ آج جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس پر تنقید کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان معزز مہمان کے سامنے جس طرح بچھے جا رہے ہیں، وہ پاکستانی قوم کے جذبات ہی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر عمران خان کی کسی بات کو وزیر اعظم عمران خان کے سامنے سنا (یا دکھا) کر لطف تو اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن اسے دہرانے کی تمنا نہیں کی جا سکتی۔ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والوں کے لیے البتہ اس میں سبق یہ ہے کہ خارجی تعلقات اور قوموں کی ضروریات کے بارے میں غیر محتاط اظہارِ خیال سے ان کا اپنا قد چھوٹا ہو جاتا ہے۔ اس لیے بولنے سے پہلے اچھی طرح تول لینا چاہیے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کوئی ایک دن کی بات نہیں۔ دونوں ملک مسلسل ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہیں۔ دونوں نے حسبِ توفیق ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں کے تعلقات کسی ایک وزیر اعظم یا بادشاہ یا ولی عہد کے مرہون منت نہیں ہیں۔ نسل در نسل محبت اور اعتماد کا رشتہ قائم رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا جنرل ضیاء الحق، نواز شریف ہوں یا پرویز مشرف، سعودی عرب میں ان کی پذیرائی ہوتی رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے عہد میں جو جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ لائق تحسین ہے لیکن یکسر نیا نہیں۔ پاکستان اِس وقت زر مبادلہ کے قحط کا شکار ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے آگے بڑھ کر اس کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، ایک بڑے وفد کے ساتھ پاکستان آ رہے ہیں، اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سنا رہے ہیں تو پاکستان تشکر کے جذبات سے بھر رہا ہے۔ قائد حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف نے ضمانت پر رہائی کے فوراً بعد خیر مقدمی بیان جاری کیا ہے۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے بھی معزز مہمان پر پھول نچھاور کیے ہیں۔ لیکن یہ بات حیرت کا سبب بنی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جو عشائیہ دے رہے ہیں، اس میں اپوزیشن رہنمائوں کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ایوانِ صدر میں معزز مہمان کو ''نشانِ پاکستان‘‘ عطا کرنے کی تقریب کے حوالے سے بھی یہی سنا جا رہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ خبریں غلط ہوں، لیکن اگر ان میں صداقت ہے تو پھر ان پر نظرثانی ضروری ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نہ تو عمران خان صاحب کے ذاتی مہمان ہیں، اور نہ ہی عمران خان صرف تحریک انصاف کے وزیر اعظم ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ معزز مہمان کی استقبالی تقریبات کو مقامی سیاست سے آلودہ نہیں ہونے دیں گے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ پارلیمنٹ ان دونوں سے عبارت ہے۔ اگر استقبالیہ تقریبات میں حزبِ اختلاف کو مدعو نہیں کیا جاتا تو اِس کا تاثر یہ ہو گا کہ آدھی قوم مہمانِ عزیز کے استقبال میں شریک نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ جب یمن کا تنازعہ شروع ہوا تو پاکستانی حکومت سے بے احتیاطی سرزد ہوئی۔ اولاً تو یہ معاملہ پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی، ثانیاً منظور کی جانے والی قرارداد میں ''غیر جانبداری‘‘ کے الفاظ غیر ضروری تھے۔ اس وقت تحریک انصاف کے رہنمائوں نے بحث کو اس طرف دھکیلا اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی آڑ میں مسلم لیگ (ن) کو نکو ّ بنانے کے لیے ایک ایسی قرارداد منظور کرانے میں کامیاب ہو گئے، جس نے وزیر اعظم نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ وہ اس کے الفاظ پر سٹپٹائے تو بہت، لیکن لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں تھا۔ ایک نشست میں جب انہوں نے اِس حوالے سے بے اطمینانی ظاہر کی تو مَیں نے اُن سے برملا عرض کیا تھا کہ اولاً تو پارلیمنٹ کا اجلاس اس معاملے میں طلب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ثانیاً یہ کہ اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا تو پھر کھلے اجلاس کی ضرورت نہیں تھی کہ سعودی عرب اور پاکستان کا سیاسی کلچر الگ الگ ہے۔ اس حوالے سے نزاکتوں کو ملحوظ خاطر ر کھنا ضروری تھا۔ ثالثاً یہ کہ اگر یہ سب کچھ ہو گیا تھا تو آپ (وزیر اعظم نواز شریف) کو خود ایوان میں جا کر بیٹھنا چاہیے تھا، تاکہ بحث اور اس کا نتیجہ احتیاط کے دائرے سے باہر نہ نکل سکیں۔ نواز شریف صاحب پر ایک افسردہ خاموشی طاری ہو گئی۔
سعودی عرب سے ہمارے تعلقات کی گاڑی آج جس موڑ پر ہے، اسے یہاں تک لانے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیںکیا جا سکتا۔ معاملات کو سنبھالنے اور خارجی تعلقات کی جزئیات پر نظر رکھنے کی جو صلاحیت اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہے، اس نے اعتماد اور اشتراک کو نئی بلندیوں سے آشنا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی خوش قسمتی کہیے یا پاکستانی قوم کی، قومی اور فوجی قیادت کی یکسوئی پیش قدمی میں بہت معاونت کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری مسلح افواج کی کامیابی نے اس خطے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ امریکہ سے طالبان کے براہِ راست مذاکرات نے ایک نیا منظر پیدا کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات پیچیدہ ہیں اور پلوامہ سانحے نے تو بہت تلخی پیدا کر دی ہے، بھارت کو اپنے فوجیوں پر خود کش حملے کا الزام پاکستان کے سر ڈالنے کا ایک نیا موقع میسر آ گیا ہے، لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ تازہ بھارتی آتش فشانی کو بھی ہوش کے ناخن لینا پڑیں گے، اور خطے میں امن کی فضا پیدا کرنے میں دستِ تعاون بڑھانا پڑے گا، ممکن ہے ہمارے مہمانِ عزیز جب اپنے دورے کے اختتامی مرحلے میں بھارت جائیں، تو اس حوالے سے بھی کوئی کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان کو پلوامہ حملے پر اقوام متحدہ کی معاونت سے مشترکہ تحقیقات کی پیشکش پر غور کرنا چاہئے تاکہ بھارتی پروپیگنڈے کا ڈنک نکالا جا سکے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ بھارت کے اچھے تعلقات جنوبی ایشیا کا ماحول بدلنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاک سعودی تعاون سے پاک ایران تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ بھی کئی مبصرین ظاہر کر رہے ہیں، لیکن اس میں زیادہ وزن یوں نہیں کہ اب دنیا میں چلن دو طرفہ تعلقات کا ہے، سرد جنگ کے زمانے کی طرح کسی ایک ملک کے ساتھ تعلق کو کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں سمجھا جاتا۔ ایران ابھی تک اپنی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، وہ پاکستان کی مشکلات کم نہیں کر سکتا۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی دفاعی صلاحیت، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے اشتراک سے خطے کو محفوظ تر بنا سکتی ہے۔ باہم تعاون سے ہر دو کی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں، ہماری معاشی اور ان کی دفاعی۔ پاک سعودیہ ''پارٹنرشپ‘‘ دونوں کو مبارک۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)