نیوزی لینڈ کی 39 سالہ خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے سانحۂ کرائسٹ چرچ کے بعد جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، اس نے اُنہیں ممتاز عالمی مدبرین کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اِس وقت کوئی بھی صدر یا وزیر اعظم اُن کے برابر نظر نہیں آ رہا۔ اُن کا قد اتنا بڑھ گیا ہے کہ بڑے بڑوں کو اُنہیں دیکھنے کے لئے آنکھیں دور تک اوپر اٹھانا پڑتی ہیں۔ دو مسجدوں میں نمازِ جمعہ کے دوران کیے گئے حملوں نے متعدد کلمہ گوئوں کو تو شہید کیا، بہت سوں کو زخمی کر دیا، لیکن نسلی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جو بند محترمہ نے باندھا، اس نے بھی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ جس طرح انہوں نے اپنے مسلمان شہریوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا، اور اپنے ہم وطنوں کو اپنے ساتھ شریک کیا، اس نے دُنیا بھر کے مسلمانوں کے دِل تو جیتے ہی، خود نیوزی لینڈ ہی کو نہیں پورے یورپ، بلکہ پوری مغربی دُنیا کو خود حفاظتی کے ایک نئے لائحہ عمل سے روشناس کرا دیا۔
اِس بہادر خاتون نے دُنیا بھر کو یہ درس دیا کہ خون کو خون سے نہیں دھویا جا سکتا۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے انسانوں کو انسان سمجھنا ہو گا۔ زخموں پر مرہم لگانا ہو گا۔ نسل ، رنگ اور مذہب کی تمیز ختم کرنا ہو گی۔ آج نیوزی لینڈ ہی نہیں پورا یورپ اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ و مامون سمجھ رہا ہے۔ انسانوں کو نسل، رنگ اور مذہب کے حوالے سے تقسیم کرنے والے انتہا پسند سمٹ رہے ہیں۔ ایک ایسی لہر اٹھی ہے جو دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی سیاست کو محدود کر گزری ہے۔ تازہ ترین سروے بتا رہے ہیں کہ نسل پرستوں اور اسلام دشمن جنونیوں کی طاقت میں کمی ہو رہی ہے۔ ان کی مقبولیت کا گراف نیچے گرا ہے اور ان کے پُر جوش نعروں کی زد میں آ کر ہوش کھونے والے سنبھل رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں کھلنا شروع ہو چکی ہیں، کیا عجب کہ آنے والے برسوں میں یورپی معاشروں میں ان کی گرفت ڈھیلی پڑتی نظر آئے اور اقتدار پر قبضے کی ان کی خواہشات دم توڑنے لگیں... عالمِ اسلام میں تو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اِس وقت محبوب ترین شخصیت ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے مہمان سعودی ولی عہد کی ایک ادا پر جان نثار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان کے مقابلے میں اگر (پاکستانی) انتخابات میں حصہ لیں تو کہیں زیادہ ووٹ حاصل کر لیں گے، اس بارے میں تو دو آرا ظاہر کی جا سکتی ہیں، یا عمران خان صاحب کے اظہار کو ایک لمحاتی رد عمل قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے بارے میں اگر ایسا دعویٰ کیا جائے تو اس میں شاید مبالغہ تلاش نہ کیا جا سکے۔ ہر مسلمان معاشرے میں ان کی مقبولیت اور محبوبیت میں اضافہ ہوا ہے، اور لوگ ان کی شخصیت کا ایک حوالے کے طور پر ذکر کرنے لگے ہیں۔ برداشت، تحمل، انسان دوستی اور عالمی بھائی چارے کی وہ ایک علامت بن گئی ہیں، پاکستانی معاشرے میں ان کے طرزِ عمل کے حوالے سے اپنے اجتماعی اور انفرادی اعمال کا جائزہ لینے والے بھی کم نہیں ہیں۔
چند ہی روز پیشتر بہاول پور میں انگریزی کے استاد پروفیسر خالد حمید کو ان ہی کے طالب علم نے چاقو گھونپ کر ہلاک کر ڈالا تھا۔ جنونی قاتل نے بعد ازاں اپنی اس حرکت کی ذمہ داری مرحوم پروفیسر کے فکر و عمل کے سر تھونپنے کی کوشش کی کہ وہ مبینہ طور پر کالج میں ایک مخلوط تقریب کا اہتمام کر رہے تھے۔ خطیب حسین نامی طالب علم قاتل کو گرفتار کیا جا چکا ہے، پولیس کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم سے اس کے رابطے تھے، اور اس کے ایک سرکردہ رہنما کی پشت پناہی بھی اسے حاصل تھی۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق شہید پروفیسر ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، اور اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنے والوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کے قریبی حلقوں نے ان کی علمی شخصیت کی گواہی دی ہے، ان کے قتل کے حقیقی محرکات کیا تھے، اور ایک شاگرد کو انہیں چاقو گھونپنے کی جسارت کیونکر ہوئی، اس کے پسِ پردہ عوامل کیا تھے، اور کس کا کیا مفاد اِس واردات سے وابستہ تھا، یہ سب تفصیل سامنے آ ہی جائے گی۔ لیکن اس وقت پاکستانی معاشرے کے ذی ہوش افراد کے سامنے جو سوال آن کھڑا ہوا ہے، وہ اپنے اربابِ اقتدار اور اہلِ سیاست کا رد عمل ہے۔ بہت سے لوگ اپنے اہلِ اقتدار کا موازنہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے کر رہے ہیں کہ ان میں سے کسی کو پروفیسر مرحوم کے گھر جا کر ان کے اہلِ خانہ کے سر پر ہاتھ رکھنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ کیوں لمبی لمبی زبانیں نکال کر گھنٹوں تقریریں کرنے والے سیاسی اور مذہبی رہنما تشویش میں مبتلا نہیں ہوئے؟ کیوں انہوں نے اپنے ہاں کی جنونیت کی مذمت میں اس لہجے کو نہیں اپنایا، جو ہزاروں میل دور اپنایا گیا اور جس کے اثرات دور دور تک پھیل گئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ نیوزی لینڈ کا سانحہ بہاولپور کے سانحے سے بہت مختلف ہے، وہاں بہنے والے خون کی مقدار بہت زیادہ تھی، لیکن یہ بھی تو درست ہے کہ وہاں بھی یہ جنونی کارستانی تھی اور یہاں بھی ایک جنونی کا کیا دھرا ہے؟ اس نے نسل کے نام پر قیامت برپا کی تھی، یہاں مذہب کے نام پر علم کا چراغ بجھایا گیا ہے، لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ پاکستانی معاشرہ اس گھنائونے کھیل میں اپنے ہزاروں سپوت گنوا چکا ہے۔ خون کی جو ہولی یہاں کھیلی گئی، وہ بے رحمی اور شقاوتِ قلبی کی بد ترین مثال تھی۔ آج بھی ان قاتلوں کی باقیات ہمارے درمیان موجود ہیں، اور طالب علم خطیب حسین کو اس میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔
پاکستانی معاشرے کی رہنمائی کے دعوے داروں کو اگر اپنا اور اپنے لوگوں کا مستقبل عزیز ہے تو انہیں بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی مثال کو اپنانا ہو گا۔ فرقے، مسلک، مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر زندگی چھیننے والوں کے خلاف یک زبان ہونا ہو گا۔ خون نا حق کسی کا بھی ہو، اسے اپنا خون سمجھنا ہو گا۔ ہم اپنی تعلیمات اور روایات کو اگر بھول بیٹھے ہیں تو پھر نیوزی لینڈ ہی سے سبق حاصل کرنا ہو گا۔ ہر سانحے کو سانحۂ کرائسٹ چرچ سمجھ کر مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ کھوکھلے الفاظ، اور کھوکھلے نعرے، ہمارے کھوکھلے پن کا ثبوت تو فراہم کر دیں گے، لیکن سامانِ زندگی نہیں کر سکیں گے۔ اُٹھیے، روشنی کا ساتھ دے کر روشنی بن جائیے۔
شیر واپس پلٹ کر آیا ہے
ہندوستان کے ایک انتہائی مقبول نوجوان شاعر عمران پرتاپ گڑھی کے چند اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں۔ منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے
کبھی ایسا نہیں ہو گا، نہیں ایسا نہیں ہو گا
ایمان کا قرآن کا سودا نہیں ہو گا
ہمیں تم قتل کر دو شوق سے منظور ہے لیکن
شریعت کے کسی نکتے پہ سمجھوتہ نہیں ہو گا
......
دائرے میں سمٹ کے آیا ہے
ہر روایت سے ہٹ کے آیا ہے
آندھیوں کو ذرا خبر کر دو
شیر واپس پلٹ کے آیا ہے
......
سرحد پر دہشت گردوں کا قبضہ ہے
ملک پہ جھوٹے ہمدردوں کا قبضہ ہے
ایک کے بدلے دس سر کی امید نہ رکھ
دلّی تجھ پر نامردوں کا قبضہ ہے
......
سورج لہولہان پڑا ہے چاہت کا
صاحب روشندان کی باتیں کرتے ہیں
اک کشمیر سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے
اور بلوچستان کی باتیں کرتے ہیں
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)