مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کو 41 دن گزر چکے۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، بیالیسواں دن شروع ہو چکا ہو گا۔ اَسی لاکھ سے زائد کشمیری گھروں میں قید کیے جا چکے ہیں۔ سکول کھلے ہیں نہ ہسپتال، بازاروں کی رونق واپس آئی ہے نہ دفتروں کی۔ مسجدوں میں جانے کی اجازت ہے نہ کسی کو ٹیلی فون کرنے کی۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات، انٹرنیٹ پر پابندی جاری ہے۔ دُنیا بھر کا میڈیا اس پر احتجاج کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھی پُر زور بیان جاری کیا ہے۔ 58 ممالک نے پاکستان کے ساتھ مل کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے، مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حقائق جاننے کے لیے اقوام متحدہ خصوصی مشن مقبوضہ علاقے میں بھیجے، لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوا۔ بھارت کے اندر بھی کئی تنظیموں اور اداروں کے ضمیر جاگ اُٹھے ہیں۔ انصاف کی دہائی دینے والے قانون دان بھی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، دانشور اور شاعر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر بھی اس سفاکیت پر برہم ہیں۔ جہاں جہاں کرفیو کی خلاف ورزی کی کوشش ہوتی ہے، گولیاں اور چھرے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ زخموں پر مرہم رکھنے کی اجازت نہیں مل پا رہی، انہیں بھی امداد پہنچانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ اکیسویں صدی میں کسی ریاست کا حکمران اس طرح کا پاگل بھی ہو سکتا ہے اور اس درندگی پر دُنیا یوں بے بس بھی ہو سکتی ہے، اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چند ہی روز پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے ایک امریکی سپاہی کی ہلاکت پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے طالبان سے نہ صرف کیمپ ڈیوڈ میں طے شدہ ملاقات منسوخ کی، بلکہ یہ اعلان بھی کر دیا کہ مذاکرات اب مردہ ہو چکے ہیں۔ گویا، اس مردے کو دفنایا جانے لگا، یہ آنکھیں نہیں کھول پائے گا۔ صدر ٹرمپ کی اُفتاد طبع کو دیکھتے ہوئے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے، لیکن اس سے قطع نظر اپنے ایک سپاہی کے خون پر ان کا شدید رد عمل دُنیا نے دیکھ لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتیں گزشتہ چند برس کے دوران ہو چکی ہیں، نہتے شہریوں کو قابض بھارتی فوج گولیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ کنٹرول لائن پر ہر روز کسی نہ کسی پاکستانی جوان کا خون بہایا جاتا ہے، لیکن دُنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت کے ''بادشاہ‘‘ ابھی تک مذمت کا کوئی لفظ بھی زبان سے نہیں نکال پائے۔ وہ سب ممالک جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن سمجھے جاتے ہیں، اور جو سوویت یونین کے اشتراکی نظام کو انسانیت سوز قرار دے کر اس کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں، جو اعلیٰ انسانی قدروں کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہیں، اور جو بنی نوع انسان کو ایک آنکھ سے دیکھنے کے دعوے کرتے چلے جاتے ہیں، وہ بھارت کی دو ٹوک مذمت کے لیے الفاظ تک تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر بھارتی موقف کی تائید نہیں کر رہے، اسے بھارت کا حصہ تسلیم نہیں کر رہے، ایک حل طلب مسئلہ قرار دے کر اس کے لیے دو طرفہ مذاکرات پر زور دے رہے ہیں، لیکن انسانیت ان کی اس کیفیت (Posture) کی تعریف کرنے کے باوجود اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کر سکتی۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ ہٹلر اور نازی ازم کے الفاظ مغربی ممالک میں ایک گالی ہیں۔ آزادیٔ اظہار یہاں پہنچ کر گنگ ہو جاتی ہے۔ کسی کو اجازت نہیں ہے کہ اس نسل پرست جرمن حکمران اور اس کے نازی فلسفے کی تائید یا تعریف کر سکے۔ اسے انسانیت کے ماتھے پر سیاہ داغ قرار دیا جاتا ہے، اور ہر ایک کو اس پر ''ایمان‘‘ لانے پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن ابھی تک بھارت کے نسل پرست حکمران ان کی نظر میں احترام کے مستحق ہیں۔ آر ایس ایس کا ہندتوا کا فلسفہ اقلیتوں کو بھارت میں سانس لینے کا حق دینے پر تیار نہیں، لیکن وہاں کے نسل پرست ابھی تک عالمی منظر پر انسان ہونے کا دعویٰ کرتے پائے جاتے ہیں۔
دُنیا پر لازم ہے کہ انصاف کی آنکھ کھولے، اور پاکستان پر بھی لازم ہے کہ اسے جگانے، جھنجھوڑنے اور اٹھانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دے، عالمی رائے عامہ کا رد عمل حوصلہ افزا ہے، عالمی میڈیا بھی داد کا مستحق ہے، لیکن حکمران حلقوں کی مصلحتوں میں بھی شگاف ڈالنا ہو گا۔ پاکستان اپنے چین اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ مل کر بہت کچھ کر رہا ہے، لیکن بہت کچھ کرنے، اور کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے... وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد پہنچ کر بہت بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا، دُنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان اور کشمیر ایک ہیں، ان کے دِل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، ایک کی آزادی دوسرے کی آزادی اور ایک کی غلامی دوسرے کی غلامی ہے۔ دونوں کی تقدیر ایک اور مستقبل ایک ہے... وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو معاشی ترقی کے زیادہ مواقع دینے کے لیے اسے اپنی ''آغوش‘‘ میں لے رہے ہیں۔ ان کے دعوے میں ایک فیصد سچائی بھی ہے تو آئیں مقبوضہ کشمیر میں، اور عام جلسے سے خطاب کر کے دکھائیں۔ دُنیا کو پتا چل جائے گا کہ کشمیری انہیں کیا سمجھتے ہیں، اور ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟ نریندر مودی کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کشمیر کے ایک قابض حکمران ہیں، ان کی فوج وہاں قابض فوج ہے، کشمیری بھی ان کے حالیہ اقدامات کی تائید کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے آپ کو کشمیر کا سفیر مقرر کر لیا ہے۔ وہ اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کشمیر کا مقدمہ پیش کریں گے۔ انہوں نے بجا طور پر کشمیری نوجوانوں کو انتظار کا مشورہ دیا ہے۔ کئی پُر جوش عناصر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر اہلِ کشمیر کو ابھار رہے ہیں، لیکن اجتماعی فیصلے کے بغیر اس طرح کے اقدامات نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے، ان کی کال کا انتظار کیا جائے۔ اگر کنٹرول لائن کو توڑنے، اس دیوارِ برلن کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا تو پھر آزاد اور مقبوضہ علاقوں کی طرف سے بیک وقت یلغار کرنا ہو گی۔ وہ دن آ سکتا ہے، جب یہ فیصلہ کیا جائے اور دونوں کشمیر آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔ خون میں نہانا پڑے، تو نہا گزریں، لیکن تاریخ کا رخ بدل دیں... اس کا فیصلہ کسی ایک جماعت یا عنصر کو نہیں، اجتماعی قیادت کو کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان کی کال پر قدم بڑھانا ہوں گے، اور اس سے پہلے وزیر اعظم کو قدم بڑھا کر اپنے سیاسی حریفوں کے گلے میں ہار نہیں تو بانہیں تو بہرحال ڈالنا ہوں گی۔ کشمیر پر سیاست کی نہیں، اب کشمیر کے لیے سیاست درکار ہے۔
سیالکوٹ کے ''بابائے صحافت‘‘
سیالکوٹ کے ''بابائے صحافت‘‘ حامد علی خان 94 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی نمازِ جنازہ کینال ویو سوسائٹی لاہور کی جامع مسجد میں ادا کی گئی، جس میں ان کے سینکڑوں مداحوں نے شرکت کی۔ وہ عمر بھر ''نوائے وقت‘‘ سے وابستہ رہے، ان کی ڈائری شائع ہوتی تو اس پر حامد علی خان (ٹرنک بازار سیالکوٹ) لکھا ہوتا۔ ٹرنک بازار میں ان کی دکان اور رہائش تھی، اور یہ اُن کے نام کا لاحقہ بن گیا تھا۔ بھٹو دور میں مجھے سیالکوٹ جیل میں کچھ عرصہ گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ اِس دوران خان صاحب کی مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھایا۔ وہ ایک با اصول اور دیانت دار اخباری کارکن تھے۔ ضلعی نامہ نگاروں کی روایتی خوشبو اور وضع قطع سے یکسر محروم... گورے چٹے، لمبے تڑنگے۔ بلا شبہ انہوں نے اپنے قد اور اپنے سفید رنگ کی حفاظت کی، نہ اسے چھوٹا ہونے دیا، نہ اس پر داغ لگنے دیا۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے، کہ ان کی اُجلی شخصیت جب بھی یاد آئے گی، ان کے لیے دُعا زبان پر آئے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)