نعمت اللہ خان، اہلِ کراچی کے لئے اللہ کی ایک خاص نعمت تھے۔ گزشتہ دِنوں اِس دارِ فانی میں نو عشرے گزار کر وہ یہاں سے رخصت ہوئے تو اُنہیں الوداع کہنے کے لیے ہزاروں لوگ امڈے چلے آئے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بطور خاص کراچی پہنچے اور اُن کی نمازِ جنازہ کی امامت کی۔ کوئی سیاسی جماعت، کوئی مکتبِ فکر اور کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہ تھا جس کا نمائندہ یہاں موجود نہ ہو۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ متعدد وزرا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ جو بھی شخص کراچی سے تھا اور کراچی کا تھا، وہ انہیں اپنا سمجھتا تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں مسلم لیگ کا سبز پرچم اُٹھا کر چلنے میں فخر محسوس کرتے تھے، لیکن قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودیؒ کو پڑھا تو انہی کے ہو کر رہ گئے۔ اس شان سے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے کہ رکنیت منظوری کی اطلاع اُنہیں حرم پاک میں ملی، اور سعودی عرب میں مقیم جماعت اسلامی کے رفقا نے ان سے وہیں رکنیت کا حلف لے لیا۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ پہنچے تو مسجد نبویؐ میں جماعت اسلامی کے شعبہ نشر و اشاعت کے سربراہ صفدر چودھری مرحوم سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنی مخصوص دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ مبارک باد دیتے ہوئے عرض کیا کہ امیر جماعت نے تو ہماری ذمہ داری لگائی تھی کہ آپ سے رکنیت کا حلف لیں۔ سو، ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر ایک بار پھر اُن سے حلف لیا گیا۔ یوں اُنہیں بیت اللہ اور مسجد نبویؐ میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے عمر بھر اس حلف کی پاسداری کی، اپنے لیے آخرت کمائی اور جماعت اسلامی کے لئے عزت۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا گیا تو شہروں اور ضلعوں کے ناظمین کو وسیع اختیارات دے دیے گئے۔ جنرل موصوف کے بد ترین نقاد بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کا جو نظام ان کے دور میں قائم کیا گیا تھا، وہ اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے بہت مؤثر اور مفید ثابت ہوا۔ ایک بار لاہور کے گورنر ہائوس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ اپنا کوئی ایسا کارنامہ بتائیں جس پر ان کو ذاتی طور پر فخر محسوس ہوتا ہو اور وہ سمجھتے ہوں کہ انہیں اس حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ ترت جواب تھا کہ مقامی حکومتوں کا قیام۔ ان کا کہنا تھا کہ نچلی سطح پر جس طرح اختیارات منتقل کئے گئے ہیں، وہ اسے اپنا بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں تو ناظمین کے اختیارات میں کمی کی تحریک شروع ہو گئی۔ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ناظموں کو اپنا رقیب سمجھ رہے تھے اور ان کے دانت نکالنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے تھے، بہت کچھ کامیابی انہوں نے حاصل کی، لیکن یہ نظام بہرحال اپنی جگہ رہا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف کے مخالفین اقتدار میں آئے تو انہوں نے مقامی حکومتوں کو تاراج کر ڈالا۔
کراچی کو اس نظام کی بدولت ایک طاقت ور ناظم نصیب ہوا۔ نعمت اللہ خان اُبھر کر سامنے آئے، اور تعمیر و ترقی کا ایک ایسا دور شروع ہوا کہ اہلِ کراچی آج بھی اس دور کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں۔ دہلی کو تو غیر ملکی فاتحین نے کئی بار لوٹا، اور وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ چند ہی ہفتے پہلے البتہ بھارتی حکومت کے زیر سایہ، اس کے گماشتوں نے اسے برباد کر ڈالا۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور املاک کو نشانہ بنایا۔ درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار ڈالا، اور سینکڑوں زخموں سے نڈھال پڑے ہیں۔ دہلی کو لوٹنے والوں کے گماشتوں ہی نے کراچی کو بھی گزشتہ اڑھائی تین عشروںکے دوران چین سے نہیں رہنے دیا۔ جو جو ہنگامے اٹھائے، اور جس جس طرح کے چرکے لگائے ہیں، وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ چہرے جو خوش نما نعروں اور دعووں کی اوٹ میں خونیں کھیل، کھیل رہے تھے، آج بے نقاب ہو چکے ہیں۔ ان کے ڈانڈے جہاں ملتے تھے، وہ بھی ہر شخص کو معلوم ہو چکا ہے۔ آج کا کراچی نڈھال اور بے قرار ہے، اس کو لگنے والی چوٹوں سے درد کی لہریں ابھی تک تھمنے میں نہیں آ رہیں۔ مقامی حکومتوں کی تدفین کے بعد مسائل پیدا کرنے والے تو بہت ہیں‘ لیکن انہیں حل کرنے والے مؤثر نہیں ہو پا رہے۔ کراچی نعمت اللہ خان کو سپردِ خاک کر چکا، وہ تو وہاں جا چکے جہاں سے کسی کو واپس نہیں آنا، لیکن ان کو دوبارہ ناظم منتخب نہ کر کے کفرانِ نعمت کا ارتکاب کئی برس پہلے ہی کر ڈالا گیا تھا۔ نعمت اللہ خان خدمت خلق کا خاص ذوق رکھتے تھے، انہوں نے الخدمت فائونڈیشن سے دِل لگا لیا اور دور و نزدیک دُکھی انسانوں کی خدمت میں لگ گئے۔ وہ اجمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ چند ہی برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ مسلم لیگ ان کے دِل میں تھی اور پاکستان زندہ باد زبان پر، سو تن تنہا پاکستان پہنچ گئے۔ ایک جھگی نصیب ہوئی۔ اسی کو ٹھکانہ بنایا اور مستقبل کی تعمیر میں لگ گئے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسن‘ جو ہماری قومی سیاست کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں اور اس کے کئی گوشوں کے حوالے سے تاریخ ساز بھی، انہوں نے خان صاحب کی شخصیت اور کردار کو اپنے الفاظ کے کوزے میں جس طرح بندکیا ہے، وہ انہی کا حصہ ہے۔ اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو براہِ راست انہی سے سننا مناسب ہے کہ ان کی کسی بات کی تصدیق کے لئے کسی دوسرے حوالے کی ضرورت نہیں، ان کی اپنی زبان ہی اس کی سند ہے: وہ ایک مہم جو انسان تھے، تحریکوں میں چلنا، آگے بڑھنا، تنظیمی مقاصد کو دور تک لے کر جانا، اس پورے کلچر کو انہوں نے پوری طرح سے دیکھا، اپنایا اور اس کے مطابق خود کو ڈھالا بھی۔ انہوں نے اپنی صحت سے ہمیشہ اپنی بیماری کا مقابلہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُنہیں یہ قوت بخشی تھی کہ عمر کی زیادتی کے باوجود وہ کام کر دکھاتے تھے، جو بہت سے لوگ کم عمری میں بھی نہیں کر پاتے۔ 1977ء کی قومی اتحاد کی تحریک کے دوران تو یہ نعرہ پورے شہر کا نعرہ بن گیا تھا کہ شیر جوان، شیر جوان... نعمت خان، نعمت خان۔ وہ ایک ورسٹائل جینئس تھے، کثیر الاولاد تھے اور کثیر الوسائل بھی۔ خدمت کے ہر کام پر ذاتی توجہ دینا ان کا کلچر تھا۔ کراچی کے ناظم کے طور پر شب و روز محنت کر کے لوگوں کے دل جیتے۔ دوسری مدت کے لئے بھی لوگوں کا خیال تھا کہ ناظم انہی کو ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف اس وقت صدر تھے۔ وہ کراچی کے دورے پر آئے تو خان صاحب کو بلایا اور کہا کہ آپ کے بارے میں میرے پاس جتنی بھی انٹیلی جنس رپورٹس ہیں، سب پوزیٹو ہیں‘ آپ نے کوئی مال نہیں بنایا، کرپشن نہیں کی، آپ نے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، لیکن آپ کا جماعت اسلامی سے تعلق ہے اور یہ ہمیں کھٹکتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں جماعت اسلامی کو نہیں چھوڑ سکتا۔ جماعت کے ساتھ چلنا میرے لیے عافیت کا پیغام اور بہتری کی نوید ہے۔ یوں وہ دوسری بار کراچی کی نظامت کے لئے منتخب نہ ہو سکے۔ ...اور تلوار ٹوٹ گئی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)