"MSC" (space) message & send to 7575

جلسہ گوجرانوالے کا

اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد کا جلسہ گوجرانوالہ میں ویسا ہی ہوا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ یہ شہر بلکہ ضلع، بلکہ ڈویژن مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے، اور گزشتہ انتخابات میں یہاں اس نے جو ووٹ لیے، اور جو نشستیں لیں، وہ اس کی گواہی کے لیے کافی ہیں۔ ایک زمانے میں پیپلزپارٹی یہاں کی بڑی طاقت تھی، لیکن اب اس کا اثرورسوخ چند حلقوں میں سمٹ چکا ہے، اس کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا، تو احتجاج کرتے ہوئے یہاں کے کئی جیالوں نے خود سوزی کر ڈالی تھی۔ اُس وقت خود کش حملوں کا رواج نہیں تھا، اور پاکستان اس طرح کی وارداتوں سے ناآشنا تھا، اگر یہ کلچر پروان چڑھ چکا ہوتا تو اپنے آپ کو آگ لگانے والے دس، بیس کیا سینکڑوں، ہزاروں کولے مرتے۔ بلاول بھٹو نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ان گوجرانوالوی ''شہدا‘‘ کے تذکرے سے کیا، تو گویا اپنے آپ کو پیپلزپارٹی کی تاریخ سے منسلک کرلیا، جس کے بارے میں اور جو کچھ بھی کہا جائے، یہ نہیں کہا جا سکتاکہ وہ عوام سے کٹی ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے آپ کو عوام سے جس طرح جوڑا، اور انکے دُکھوں کے جس طرح ترجمان بن کر اُبھرے، اسی کی وجہ سے ان کا نام اب تک دِلوں سے محو نہیں ہو رہا۔ ان کی معاشی، سیاسی اور انتظامی پالیسیوں نے ملک کو جو کچھ دیا، اس کے منفی اور مثبت اثرات پر بحث جاری ہے، اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ پاکستانی صنعتوں کو قومیانے کے نام پر سرکاری تحویل میں لینے کے نتیجے میں جو ابتری پیدا ہوئی، پاکستان اس کے اثرات سے (پوری طرح) اب تک نہیں نکل سکا۔ اگر صنعتی ترقی کا پہیہ نہ روکا جاتا تو آج پاکستان جاپان اور جرمنی نہیں تو جنوبی کوریا، ملائیشیا اور تائیوان کے برابر تو ضرور کھڑا ہوتا، لیکن جذباتی نعروں نے ایسی آگ لگائی کہ جو تھا جل گیا۔ پاکستان آج بھی ایک پسماندہ ملک کے طورپر آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا، اپنے خرچے پورے کرنے کی صلاحیت سے محروم۔ سرمایہ کاروں کے خلاف جو طوفانِ بدتمیزی اٹھایا گیا، اس کے نتیجے میں آج بھی انہیں مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والوں کو طرح طرح کے لالچ دیکر پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جاتی ہے، لیکن اپنے ملک سے تعلق رکھنے والوں کو ''مافیا‘‘ ''مافیا‘‘ کہہ کر کلیجے ٹھنڈے کیے جاتے ہیں۔ میڈیا، انتظامیہ، سیاسی جماعتیں سب اس مشغلے میں مصروف ہیں۔ انتظامیہ نے بدعنوانی کا ایسا بازار گرم کررکھا ہے، جو سرد ہونے میں نہیں آتا۔ تبدیلی سرکار بھی اس معاملے میں منفیّت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، اسکے سائے میں سانس لینے والی نیب نے انتظامیہ کو مفلوج کر رکھا ہے، سو وہ کچھوے کی چال چلتی ہے، جبکہ وزیراعظم اس سے خرگوش کی طرح دوڑنے کی توقعات پالتے اور انکا اظہار کرتے چلے جاتے ہیں۔ گندم اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ بروقت درآمد کرکے مارکیٹ میں استحکام پیدا نہیں کیا جاسکا۔ سرکاری افسر نیب کے ڈر سے پھونک پھونک کر قدم رکھتے اور تاخیر کرتے چلے گئے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ ڈالی، اور اب وہ حکومت کی کمر توڑنے کے ارادے باندھ رہے ہیں۔
بات گوجرانوالہ کے جلسے سے شروع ہوئی تھی، سو وہیں واپس چلتے ہیں۔ یہ جلسہ کامیاب اور زوردار ہونا تھا، سو ہوا۔ حکومت نے اسکی راہ میں جوبھی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی، وہ ناکام ہونا تھیں، سو ہوئیں۔ وزیراعظم کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے پرورش پانے والے حضرات اتنے کودن اور کند ذہن بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ جلسے کی ناکامی پر شرطیں لگائیں، اس کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا تھا۔ کوئی سٹیڈیم بھرنے کا چیلنج دے رہا تھا، کوئی اپنے راولپنڈی اور اسلام آباد کے اجتماعات کی خلاف ورزیوں کو بھول کرکورونا کی دہائی دے رہا تھا، کوئی جلسہ گاہ میں خالی جگہوں کی نشاندہی کررہا تھا، کوئی سٹیج کے بڑا ہونے کا رونا رورہا تھا، کوئی اس پرخرچ ہونے والی رقم کا حساب کررہا تھا، کوئی مولانا فضل الرحمن کی توہین کرنے پرتلا ہوا تھا،کوئی مریم نواز کا انکار کرنے پر بضد تھا، کوئی نوازشریف اور شہبازشریف کے درمیان فاصلوں کی نشاندہی کررہا تھا۔ ایک بزرجمہر تو یہ خبر بھی لے آئے کہ نیب کی حراست میں شہباز شریف طاقتور حلقوں سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس واہی تباہی سے حکومت ہی کا نقصان ہواکہ دُنیا بھرکی نظریں جلسہ پر مرکوز ہو گئیں۔ بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے نمائندے بھاگ بھاگ کر گوجرانوالہ پہنچے، وہاں سروں کو گننے اور سر دھننے لگ گئے۔
اس جلسے نے اپوزیشن کے لہو کوگرما دیا ہے، نوازشریف کو مزید شیر بنادیا ہے، مریم نواز کا نقش جمادیا ہے اور بلاول بھٹو کا خوشگوار چہرہ دکھا دیا ہے۔ مولانا کو نیا حوصلہ دے دیا۔ محمود خان اچکزئی اور میاں افتخار حسین اور انکے ہمنوائوں کا نعرہ پنجاب میں لگا دیا ہے اور ایک بار پھر اس حقیقت کوجتلا دیا ہے کہ اپوزیشن کو نظرانداز نہیں کیاجا سکتا۔ حکومت سوفیصد لوگوں کی نمائندہ ہے نہ ہوسکتی ہے، نہ کبھی ہوتی ہے، اور نہ کبھی ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین چند ووٹوں کا فرق ہوتا ہے، سو میں سے اکاون ووٹ لینے والا حکومت کرنے کا حق حاصل کرلیتا ہے، لیکن انچاس کا انکار کرکے چین سے نہیں رہ سکتا۔ اگر وہ انچاس کا انکار کرے گا تو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے گا۔ حکومت کرپشن، کرپشن کی جو بھی رٹ لگائے، جو بھی طعن توڑے، این آر او نہ دینے کے جوبھی نعرے لگائے، اُسے اپوزیشن کی بات سننا ہوگی، اس کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، اس کی جائز شکایات کودور کرنا ہوگا۔ گزشتہ دوبرسوں میں حکومتی کارکردگی دعووں کے مطابق نہیں رہی۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ بدانتظامی اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ کسی بھی شعبے میں مثالی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا جاسکا۔ گزشتہ حکومت سے موازنہ میں خود کو بہتر ثابت نہیں کیا جاسکا۔ صرف اپوزیشن کے خلاف نعرہ بازی سے حکومت کاکام نہیں چل سکتا، اس کا قد اونچا نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کے مسائل پر توجہ دینا پڑے گی،کچھ کرکے دکھانا پڑے گا، وگرنہ وہی ہوگا جو ہوتا چلا آیا ہے۔ حکومت کو گرانا تو شاید آسان نہ ہو، لیکن اسے چلانا مشکل ہوتا جائے گا۔ عوام کو غلام بنایا جاسکتا ہے، نہ رکھا جاسکتا ہے۔ ان کی بات سننا ہوگی، انکے مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی، انکی شکایات دور کرنا ہوں گی۔ کیا آپ نے سنا نہیں ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔
وزیراعظم عمران خان اپنے نابالغ ساتھیوں کے اعصاب کو مضبوط کرنے کیلئے انہیں خمیرہ مروارید نہیں تو گائو زبان بہرحال ضرور کھلائیں۔ ان کی خوشامد کے نام پروہ انہی کے راستے میں کانٹے بکھیر رہے ہیں۔ ایک جلسہ بہرحال جلسہ ہے، اسے بارش کا پہلا قطرہ بھی کہا جاسکتا ہے، اسکے بعد موسلادھار مینہ برس سکتا ہے، اور بادل اڑ کر دور بھی جا سکتے ہیں۔ اسے کوئی آندھی کہے یا طوفان، بھونچال سمجھے یا نہ سمجھے، اس کی دھمک بہروں کو بھی سنائی دے گئی ہے۔ نوازشریف کے بیانیے کے اثرات کے بارے میں مختلف آرا ہیں، انہوں نے جس طرح اپنے ''حریفوں‘‘ کی نشاندہی کی، اس نے مسلم لیگ(ن) کی طاقت میں اضافہ کیا یا کمی، اس بارے میں تجزیہ کاریکسو نہیں ہیں۔ اس نکتے کا ادراک بہرحال ضروری ہے کہ ہنڈیا کو لذیذ بنانے کیلئے نمک کی ایک چٹکی کافی ہوتی ہے۔ اگر پوری شیشی انڈیل دی جائے تو کھانا حلق سے نیچے نہیں اُتر سکتا۔ شیخ رشید تو اپنے سابق لیڈر کو ''الطاف حسین‘‘ بنانے پر تل گئے ہیں‘ مسلم لیگ(ن) پر پابندی لگوانے کی دھمکی بھی دے گزرے ہیں۔ لاہور، کراچی اورڈھاکہ کے درمیان جو فاصلہ ہے، موسم اور آب و ہوا کا جو فرق ہے، اُس کا خیال ہر فریق کو رکھنا ہوگا۔ جو اسے نظرانداز کرے گا، خسارہ اُس کے مقدر میں لکھا جائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں