حکومت اور اپوزیشن کے مابین جو رسہ کشی، دھکم پیل یا دھینگا مشتی شروع ہے، وہ پاکستانی سیاست کے طالب علموں کے لیے نئی نہیں ہے۔ اِس مملکتِ خدا داد میں یہ مناظر کئی بار دیکھے جا چکے ہیں۔ آمرانہ ادوار کو تو رکھیے ایک طرف، جمہوری کہلانے والوں کی حکومتیں بھی جمہوری بن کر نہیں دکھا سکیں۔ اپوزیشن کا وجود ان کی نگاہ میں کھٹکتا رہا ہے، اور اربابِ حکومت پر تنقید کو ریاست پر تنقید کے مترادف سمجھ کر غداری کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن بھی بار بار آپے سے باہر ہوتی رہی ہے۔ حکومت کے خلاف جذبات کو مشتعل تو کر دیا، لیکن اکثر انہیں منظم کرنے میں ناکام رہی۔ سربراہِ حکومت کے خلاف ایسی نفرت انگیز مہم چلائی گئی کہ اپوزیشن کے ہم نوا اُسی کے راستے کی دیوار بن گئے، مذاکرات کو سودے بازی کا نام دیا جانے لگا۔ افہام و تفہیم اور ''کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے جذبے کو خرید و فروخت قرار دینے والے سرگرم ہو جاتے رہے، اور تو اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، تو مولانا مرحوم نے کشادہ دلی سے ان کا خیر مقدم کیا۔ وہ ان سے ملنے اچھرہ کے ذیلدار پارک میں پہنچے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان بے قابو ہو رہے تھے۔ بصد مشکل انہیں سنبھالا گیا، اور مولانا مودودیؒ جیسے شخص کو اس کے لیے جتنا زور صرف کرنا پڑا، وہ واقفانِ حال جانتے ہیں۔
ایوب خان سے اپوزیشن کے مذاکرات کامیاب ہو پائے، نہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے بات چیت کی بیل منڈے چڑھ پائی۔ دونوں حادثات کا اپنا اپنا پس منظر ہے، لیکن یہ بات مشترک ہے کہ ''مذاکرات دشمن‘‘ عناصر طاقت پکڑ گئے تھے۔ انہوں نے رکاوٹیں ڈالیں اور نتیجہ کچھ کا کچھ نکل گیا۔ ایوب خان سے معاملہ سازی نہ ہونے کا نتیجہ قوم کو مارشل لا کی صورت بھگتنا پڑا، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایسا زخم ہے کہ جسے بھرنا ممکن نہیں ہو سکا، یہ رستا چلا جا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے مخالف نو جماعتی اتحاد کے درمیان شدید تلخی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو تاریخ کا سب سے طویل مارشل لا بھگتنا پڑا۔ بھٹو مرحوم پھانسی چڑھ گئے، اور ان کے حریف اول ایئر مارشل اصغر خان بھی ہاتھ ملتے رہ گئے۔ وزارتِ عظمیٰ کا خواب تو ادھورا رہنا ہی تھا، کئی برس گھر گوشۂ قفس بنا رہا۔ وہ شخص جس کے نعروں سے زمین لرزتی، اور آسمان تھرتھراتا تھا، وہ اپنے آپ ہی میں سمٹ کر رہ گیا‘ گویا زندہ درگور ہو گیا ع
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے
اب گیارہ رکنی اتحاد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف صف آرا ہے، اور ان سے استعفے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے لانگ مارچ کے اعلانات بھی کیے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے ملک بھر سے اپوزیشن کے جیالے اور متوالے اسلام آباد پہنچ کر چھائونی ڈال لیں گے، اور وزیر اعظم کا استعفا لے کر ٹلیں گے۔ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ان کے ''سہولت کار‘‘ بھی ہٹ لسٹ پر ہیں، اور ان کے بارے میں بھی جذبات کا اظہار ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم بار بار اپنے موقف کا اعادہ کر رہے ہیں کہ وہ ''این آر او‘‘ نہیں دیں گے۔ ان کے نزدیک اپوزیشن کے بڑے بڑے رہنما ''چور، ڈاکو‘‘ ہیں، اور ان کو بچانے کے لیے تحریک چلائی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم کا پختہ ارادہ ہے کہ وہ انہیں کوئی رعایت نہیں دیں گے، اور سختی سے نمٹ کر رہیں گے۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ اپوزیشن فوج کو ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے اُکسا رہی ہے، اور یوں دستور کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی کی حق دار بن گئی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کا موقف جو بھی ہو اور ان کے دلائل جو بھی ہوں، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں کا اپنا اپنا وجود ہے۔ اگر 2018ء کے انتخابی نتائج کو مدِ نظر رکھا جائے تو تحریک انصاف نے ان میں ایک کروڑ انہتر لاکھ تین ہزار سات سو دو (16903702) ووٹ حاصل کیے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کو ایک کروڑ انتیس لاکھ چونتیس ہزار پانچ سو ننانوے (12934599) رائے دہندگان نے اعتماد کے قابل سمجھا تھا۔ پیپلز پارٹی کی صندوقچیوں سے انہتر لاکھ چوبیس ہزار تین سو چھپن (6924356) پرچیاں برآمد ہوئی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام نے پچیس لاکھ تہتر ہزار نو سو انتالیس (2573939) رائے دہندگان کی حمایت حاصل کی تھی۔ دوسری جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے ووٹوں کی گنتی نہ کی جائے تو بھی ان تین جماعتوں کے ووٹ تحریک انصاف کے ووٹوں سے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر دوسری جماعتوں کے ووٹ شامل کر لئے جائیں تو بھی نتیجہ یہی برآمد ہو گا کہ دونوں جانب ڈھیریاں نظر آئیں گی۔ دونوں میں انیس بیس کا فرق ہو گا۔ پاکستان کا نظام جس دستور کے تحت چلایا جا رہا ہے، اس کے مطابق قومی اسمبلی میں ایک ووٹ کی اکثریت حاصل کرنے والا بھی حکومت سازی کا حق حاصل کر لیتا ہے۔ پاپولر ووٹ کم ہوں یا زیادہ، فیصلہ قومی اسمبلی کی گنتی ہی کرتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت سازی ایک تکنیکی ذمہ داری ہے۔ حکومت بنانے والے کو ویٹو حاصل نہیں ہو جاتا، نہ ہی وہ سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم صرف اپنی جماعت کا یا اپنے ووٹرز کا نہیں، پورے ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے، اسے سب کے لیے سوچنا، سب کی دیکھ بھال کرنا، اور سب کا خیال رکھنا ہوتا ہے، صلاح مشورے میں اپوزیشن کو شریک کرنا اور اسے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اپوزیشن حکومت کو اس کے فرائض ادا کرنے کا موقع دیتی ہے اور اس کے راستے میں غیر قانونی رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتی۔ اگر آج کی اپوزیشن نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے، لیکن اس بارے میں فیصلہ کرنا وزیر اعظم ہی کی ذمہ داری ہے۔ انہیں یرغمال بنایا جا سکتا ہے، نہ ہی اپنی مرضی کے خلاف فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی مشکلات کا اندازہ لگانے اور انہیں رفع کرنے میں ہاتھ بٹانے پر تیار نہ ہوں، معاملات پارلیمنٹ سے باہر سڑکوں پر طے کرنے کی کوشش ہو، تو پھر کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اس لیے فریقین کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جس طرح چاہیں ایک دوسرے سے معاملہ کریں، کسی بھی فریق کی من مانی، سب کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ دستور کی بالا دستی اور دستوری عمل کا استحکام محض حکومت اور اپوزیشن کی ذمہ داری نہیں ہے، ہر اس شخص کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ جس کے دستوری حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ میڈیا، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کے دوسرے ادارے آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں گے تو خود کشی کے مرتکب ٹھہریں گے۔ اس لیے سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں پر رویے تبدیل کرنے کے لیے زور دیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سینئر ترین اور ممتاز ترین افراد اجتماعی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وفد بنا کر بند کانوں پر دستک دے سکتے ہیں، اپنے نقطہ نظر کا برملا اظہار کر سکتے ہیں۔ ضرورت محسوس ہو تو اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈال سکتے ہیں۔ اگر بھارت کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جا سکتے ہیں تو اندرون ملک ان دروازوں میں اینٹیں کیوں چنی جائیں۔ دوسروں کے راستے میں گڑھا کھودنے والے خود بھی تو اس میں گر جاتے ہیں، گر سکتے ہیں اور گرتے رہے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)