''بانیٔ پاکستان (قائد اعظم محمد علی جناح ؒ) کی نجی زندگی‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر سعد خان کی تصنیف میں ان کے مسلک، شادی اور اولاد کے حوالے سے وہ تفصیلات یک جا ہو گئی ہیں جن تک رسائی کے لیے کئی کتابوں کی ورق گردانی کرنا پڑتی تھی۔ اِس کاوش پر وہ یقینا لائق ستائش ہیں۔ 136 صفحات کے کوزے میں بہت کچھ سمو دیا گیا ہے۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک انمول تحفہ ہے۔ قائد اعظمؒ کی زندگی اور سیاست سے معمولی واقفیت رکھنے والے پر بھی یہ واضح ہے کہ وہ ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے۔ انہوں نے اپنا دامن فرقہ وارانہ آلودگی سے یکسر محفوظ رکھا۔ ہر مسلک کے لوگ اُنہیں اپنا سمجھتے، اور وہ ان کو عزیز رکھتے۔ ان کی جدوجہد کسی فرقے یا مسلک کے لیے نہیں، بلکہ برِ صغیر کے سارے مسلمانوں کے لیے تھی۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ... پاکستان سب نے مل کر سب کے لیے حاصل کیا تھا۔ رنگ، نسل یا فرقے کی بنیاد پر نئی مملکت میں کسی کو فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہونا تھی۔
قائد اعظمؒ کی جوانی کا ایک بڑا حصہ لندن میں گزرا، وہیں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اقدار پر اس وقت بھی سختی سے عمل پیرا رہے۔ ان کا شباب کھلنڈرے پن سے نا آشنا تھا۔ ان کی عزیز ترین بہن محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے قیام لندن کا ذکر کرتے ہوئے ان کے اخلاقی معیار کی جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ محترمہ تحریر فرماتی ہیں:
ان کی بینک پاس بُک اس امر کی غماز ہے کہ وہ اپنے میزبان گھرانے کی سربراہ مسز ایف ای پیج ڈریک کو پے انگ گیسٹ کی حیثیت سے ماہانہ دس پونڈ ادا کرتے تھے۔ اس کے کئی برس بعد ایک موقع پر پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ مسز ڈریک ایک نہایت شفیق اور مہربان معمر خاتون تھیں۔ ان کا خاندان خاصا بڑا تھا اور وہ ان سے بے حد محبت کرتی تھیں اور انہیں اپنے بیٹے کی طرح چاہتی تھیں۔ ان کی ایک نہایت حسین اور دلکش لڑکی تھی، وہ قائد کی ہم عمر تھی۔ یہ حسین وجمیل لڑکی، یعنی مس ڈریک میرے بھائی پر بے حد ملتفت تھی، لیکن میرے بھائی ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو راہ میں آنے والی ہر حسین و جمیل چیز پر اپنی محبت نچھاور کرتے پھرتے ہیں۔ غرض ایک عجیب صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ ایک طرف مس ڈریک میرے بھائی کے لئے سراپا التفات و کرم تھی۔ وہ ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتی، لیکن میرے بھائی ہمیشہ اس سے ایک مخصوص فاصلہ قائم رکھتے اور یوں اضطراب و اجتناب کی کشاکش جاری رہتی۔ مسز ڈریک اکثر اپنے گھر میں ملی جلی پارٹیوں کا اہتمام کرتیں، جن میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہوتے۔ ان موقعوں پر مختلف کھیل ہوتے جن میں ایک مخصوص مغربی کھیل چور سپاہی بھی کھیلا جاتا۔ اس کھیل میں اگر کوئی کسی چھپے ہوئے شخص کو ڈھونڈ لیتا تو سزا کے طور پر بوسہ لیا جاتا۔ مس ڈریک کی مستقل کوششوں‘ مسلسل ترغیب اور التجائوں کے باوجود قائد بوسہ بازی کے اس کھیل سے دور ہی رہتے۔ ایک دن قائد نے اُنہی دِنوں کی باتیں کرتے ہوئے مجھے بتایا ''کرسمس کا موقع تھا، ڈریک فیملی کرسمس منا رہی تھی اور جیسا کہ کرسچن خاندانوں میں روایت ہے، اِس موقع پر دروازوں کی چوکھٹوں پر آکاس بیل لٹکا دی گئی تھی۔ عیسائیوں میں یہ روایت ہے کہ اگر کوئی نوجوان ایسی چوکھٹ کے نیچے کسی لڑکی کو کھڑا پا لے تو اس کا بوسہ لے سکتا ہے۔ مَیں اس دن بے خبری میں ایک ایسے ہی دروازے میں کھڑا تھا جس پر آکاس بیل لٹکا دی گئی تھی۔ اتفاق یہ کہ مس ڈریک نے مجھے وہیں پکڑ لیا اور بازوئوں میں بھینچ کر مجھ سے کہا کہ مَیں اس کا بوسہ لوں، لیکن مَیں نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا کہ مَیں ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ ہمارے معاشرے میں نہ تو ایسا ہوتا ہے اور نہ اس کی اجازت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس روز مَیں نے مس ڈریک سے اس طرح کا سلوک کیا تھا، کیونکہ اس کے بعد سے مَیں اس کی طرف سے اس کی ان عشوہ طرازیوں سے پیدا ہونے والی پریشانیوں سے محفوظ ہو گیا تھا‘‘۔
قائد کے ایامِ شباب کا کوئی سکینڈل دکھائی یا سنائی نہیں دیا، برطانیہ میں جہاں خواتین اپنے محبوب مردوں کا ذکر بڑی بے تکلفی سے کرتے ہوئے ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی چسکے دار کہانیاں بیان کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتیں، قائد کی کسی ہم عصر خاتون کو ان کے بارے میں اس طرح کا دعویٰ کرنے کی جسارت نہیں ہوئی، نہ ہی ذاتی زندگی کی کرید پڑتال کرنے والے ''محققین‘‘ اس طرح کی کسی آلودگی کو تلاش کر پائے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی اٹھان ہی ایک ''پریکٹسنگ مسلمان‘‘ کے طور پر ہوئی تھی، وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر سختی سے کاربند رہے، اسلامی اقدار سے ان کی اس وابستگی ہی نے انہیں اسلامیانِ ہند کا قائد اعظم بنا دیا۔
ڈاکٹر سعد خان قائد اعظم کی لندن جانے سے پہلے ہونے والی شادی سے انکاری ہیں۔ ان کی رائے میں ان کی ایک ہی شادی ہوئی تھی، اور وہ مریم (رتی) جناح سے تھی، لیکن ان کی یہ رائے اس لیے تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ اپنی تصنیف ''میرا بھائی‘‘ (My Brother) میں اس شادی کی واضح طور پر تصدیق کرتی ہیں۔ ایمی بائی سے 16 برس کی عمر میں ان کا نکاح ہوا، اور رخصتی بھی عمل میں آئی۔ ایمی بائی کی شادی کی دلچسپ کہانی محترمہ فاطمہ جناح کی زبانی سنیے:
''اس وقت میرے بھائی محمد علی جناحؒ کی عمر صرف 16 برس تھی، اس سن میں وہ شادی کے بندھن میں جکڑے گئے اور یوں وہ گویا کسی بحرِ نا پید کنار کے انجانے سفر کے راہی بن گئے تھے۔ اپنی اس عمر میں اب تک انہوں نے اپنی بہنوں یا رشتے دار لڑکیوں کے سوا کسی غیر لڑکی سے بات تک نہیں کی تھی۔ اپنی دلہن، جس کے ساتھ اب انہیں پوری زندگی بسر کرنا تھی، کا چہرہ بھی پہلے کبھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا، نہ کبھی اس سے گفتگو کی تھی۔ اس معاملے میں تو گویا وہ تقدیر کے سامنے بے بس ہو گئے تھے، جس نے ان کی والدہ کا روپ اختیار کر کے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ انہیں ایمی بائی سے شادی کرنا ہے‘‘۔
محترمہ فاطمہ جناحؒ کی اس واضح اور قطعی شہادت کے بعد یہ بات سمجھ لی جانی چاہئے کہ قائد کی دو شادیاں تھیں، ڈاکٹر سعد صاحب نے سر رائو بہادر چھوٹو رام کی اہلیہ کے ایک سوال کے جواب میں قائد کی اس گفتگو کا بھی سہارا لیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی پہلی اور آخری محبت مریم جناح ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قائد اپنی پہلی شادی کا انکار کر رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے ''پہلی اور آخری محبت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے، شادی کے نہیں۔ ایمی بائی سے ان کی شادی کسی محبت کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ والدہ کی خواہش کے مطابق انجام پائی تھی، اس لیے فقرے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
بد قسمتی سے قائد کے قیام لندن کے دوران ایمی بائی کا انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹر سعد صاحب سے اس اختلاف کے باوجود ان کی کتاب کی اہمیت اور افادیت متاثر نہیں ہوتی۔ پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت کا جو زہر پھیلایا جا رہا ہے، قائد اعظمؒ کی نجی زندگی کا مطالعہ اس کے لئے تریاق کی سی اہمیت رکھتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)