مارچ کا مہینہ خصوصاً اس کے آخری دن تو عجب رنگ میں گزرے (یا یہ کہیے کہ گزر رہے ہیں) تئیس تاریخ کو اہلِ پاکستان نے اس قرارداد لاہور کی یاد منائی جسے قراردادِ پاکستان کا نام دے دیا گیا ہے، اور جسے 81 برس پہلے اسی شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قومی کنونشن کے شرکا نے منظور کیا تھا۔ یہ اجتماع منٹو پارک میں ہوا تھا جسے اب گریٹر اقبال پارک کا نام دے کر بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے سے ملایا جا چکا ہے۔ یہیں پر اس قرارداد کی یاد میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں مینارِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا، اور اسی مینار پر بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے آ کر اعلان کیا تھا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے، اور اپنی مہر سے چل رہا ہے... قراردادِ پاکستان شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی، اور مولانا ظفر علی خان نے اس کا فی البدیہہ اردو ترجمہ کر کے داد پائی تھی۔ اس قرارداد کو پنجاب کے وزیر اعظم سر سکندر حیات کی تائید بھی حاصل تھی۔ اسی قرارداد کے بعد الگ وطن کی تحریک کا آغاز ہوا، اور سات سال کے قلیل عرصے میں پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گیا۔ مغربی اور مشرقی منطقوں میں مسلمان اکثریت کے علاقے اس میں شامل تھے، ان کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا، خشکی اور ہوائی راستے سے ایک دوسرے تک پہنچنے کے لیے ہندوستانی سرزمین سے گزرنا پڑتا تھا۔ الگ الگ دو جغرافیائی منطقوں پر مشتمل ریاست نہ صرف قائم ہوئی، بلکہ اس نے اپنا نقش بھی جما لیا۔ ہم نے پاکستان کے طول و عرض میں قراردادِ پاکستان کی یاد میں تقریبات منعقد کی ہیں، نعرے لگائے ہیں، دُنیا بھر سے مبارک باد کے پیغام موصول کئے ہیں، (دو دن کی تاخیر ہی سے سہی) فوجی پریڈ کا انعقاد کر کے بھی اپنے آپ کو شاباش دی ہے کہ قوتِ بازو سلامت ہے... لیکن جس پاکستان کی بنیاد 14 اگست1947ء کو رکھی گئی تھی، اُس کا مشرقی حصہ اب ایک اور آزاد مملکت میں ڈھل چکا ہے، جس کا نام بنگلہ دیش ہے۔ وہاں مارچ کی 26 تاریخ سے آزادی کی گولڈن جوبلی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے، پچاس سال پہلے پاکستان سے علیحدہ ہونے پر اظہارِ مسرت ہو رہا ہے۔ یہ تقریبات دسمبر تک چلیں گی کہ بنگلہ دیش کے قیام کا نقطۂ آغاز اگر 26 مارچ ہے تو نقطۂ اختتام 16 دسمبر، جب وہاں بھارتی فوجیں داخل ہوئی تھیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مہمان خاص کے طور پر مدعو کیا، اور یوں ایک بار پھر اس بات کا برملا اعلان و اعتراف ہوا کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ مودی جی مہاراج کی آمد پر ہزاروں بنگلہ دیشی احتجاج پر اتر آئے اور سڑکوں پر خون بہا۔ گویا سرکاری بیانیہ مسترد کرنے والوں نے اپنے وجود کا احساس دلا دیا۔
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیوں بنا، کس نے کیا کردار ادا کیا، کیا کچھ نہ ہوتا تو وہ کچھ نہ ہوتا جو ہوا اور ہماری تاریخ ہی نہیں دل کا داغ بھی بن گیا، اس بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی اور پاکستان میں بھی واقعات کی تعبیر و تفسیر پر اختلاف موجود ہے۔ اس بحث سے قطع نظر ضرورت آگے بڑھنے کی ہے، دونوں ممالک کے سیاسی رہنمائوں، دانش وروں، میڈیا افراد اور تعلیمی اداروں کے وابستگان کو ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے آپ کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہر شخص اور ادارہ اپنی غلطیوں کا ادراک کرے، اپنے حصے کی معافی مانگے، تو ہم سب دریائے ندامت کو پار کر سکتے ہیں۔
چند ہی ہفتے پہلے پنجاب کے سابق گورنر شاہد حامد کی یاد داشتیں ''یادوں کا خزینہ‘‘ (Treasured Memories) کے زیر عنوان شائع ہوئی ہیں‘ اور مارچ کا مہینہ مَیں نے اس خزینے کی چکا چوند میں گزار دیا ہے۔ شاہد حامد کا خاندانی اور تعلیمی پس منظر، تجربہ اور مشاہدہ ایسا ہے کہ ان کا نقطۂ نظر گہری توجہ کا مستحق ہے۔ وہ پاکستانی فوج کے ایک سینئر اعلیٰ افسر بریگیڈیئر حامد نواز کے فرزند ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کی عمر چھ سال تھی۔ انہیں پاکستان کے مختلف شہروں کی مختلف درس گاہوں میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ فارن سروس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو بریگیڈیئر حامد نواز نے اپنی خدمات وزارت خارجہ کے سپرد کر دیں، یوں جناب شاہد کو بیرون ملک جانے کا موقع بھی مل گیا۔ وہ برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھے۔ کیمبرج میں معاشیات کی تعلیم حاصل کی تو انر ٹمپل سے بیرسٹر بن کر نکلے۔ پاکستان پہنچ کر وکالت کا آغاز کیا۔ اے کے بروہی کے چیمبر میں شمولیت اختیار کی لیکن پھر سول سروس کا اعلیٰ امتحان پاس کر کے انتظامیہ کا حصہ بن گئے۔ مشرقی پاکستان میں بھی مقیم رہے اور مغربی پاکستان میں بھی مختلف ذمہ دارانہ حیثیتوں میں کام کیا۔ پھر استعفا دے کر وکالت کا رخ کیا‘ اور اس میں نام پیدا کر گزرے۔ صدر فاروق لغاری کے (سول سروس میں) بیج میٹ تھے، انہوں نے بے نظیر بھٹو کی اسمبلی کو تحلیل کیا تو نگران حکومت میں وزیر بنے، دفاع اور اسٹیبلشمنٹ کے محکمے ان کے پاس تھے۔ ملک معراج خالد وزیر اعظم تھے، لیکن عملاً وزارتِ عظمیٰ کے اختیارات شاہد صاحب ہی استعمال کرتے تھے۔ بعد ازاں انہیں گورنر پنجاب مقرر کیا گیا۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے انتظامی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھر رکھی ہیں۔ نگران وزیر کے طور پر ان کے جاری کردہ آرڈی ننس بڑی تعداد میں مستقل قانون بن گئے۔ وہ جہاں بھی گئے، حسن انتظام سے دِلوں میں گھر کر لیا۔ لاہور کی تزئین میں بھی ان کا ہاتھ نمایاں رہا۔ مختلف اداروں اور افراد کی کوتاہیوں اور کوتاہ نظریوں کے باوجود وہ پاکستان کے روشن مستقبل پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ پاکستان آگے بڑھے گا اور اپنی مشکلات پر قابو پا لے گا۔ پاکستان کے بڑے مسائل میں نمایاں ترین ادارہ جاتی فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔ شاہد صاحب کے بیان کردہ ایک واقعہ میں ہماری پوری تاریخ سمٹ آئی ہے۔ ان کے والد بریگیڈیئر حامد نواز گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے ملٹری سیکرٹری تھے۔ ملک غلام محمد اس عہدے پر فائز ہوئے تو بھی وہ یہ فریضہ ادا کرتے رہے۔ ان سے شاہد صاحب نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا: گورنر جنرل نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا تھا، جب وزیر اعظم اور وزرا تشریف لے آئے تو گورنر جنرل نے خواجہ صاحب سے کہا کہ وہ استعفا دے دیں۔ انہوں نے انتہائی تعجب سے پوچھا کہ کیوں، میں کیوں استعفا دے دوں؟ تو اس پر ملک غلام محمد بولے، اچھا استعفا نہیں دینا تو پھر میں آپ کو برطرف کر دیتا ہوں‘ اور اس طرح خواجہ صاحب اپنے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں اس وقت سیکرٹری دفاع میجر جنرل سکندر مرزا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان تشریف فرما اس ''واردات‘‘ کا انتظار کر رہے تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی قومی اسمبلی کی تحلیل تک، جس کا صدارتی فرمان شاہد حامد صاحب نے خود تحریر کیا تھا، کوئی بھی اقدام ایسا نہیں تھا جسے مقتدرہ کی تائید حاصل نہ رہی ہو۔ تاریخ کو سمجھنے کے لیے اور مستقبل کو ماضی سے جدا کرنے کے لیے شاہد حامد کی یاد داشتوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ انہیں ان کی انتہائی پیاری بیگم ثروت کے بھرپور تعاون سے مرتب کیا گیا ہے، ان کے بچوں نے بھی انہیں سازگار ماحول فراہم کیا، اور یوں کورونا کی مسلط کردہ خلوت میں سے یہ خیر برآمد ہوئی، جو قومی امور پر غور کرنے والوں کے لیے ایک ٹیکسٹ بک کی سی اہمیت رکھتی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ اسے جلد اردو کے قالب میں بھی ڈھال دیا جائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)