ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے بیالیس برس بیت گئے۔ اُنہیں پھانسی کے تختے پر لٹکانے والوں نے یہ سوچا ہو گا کہ وہ بے نام و نشاں ہو جائیں گے‘ ان کی سیاست ختم ہو جائے گی، اور ان کی جماعت بکھر جائے گی۔ ان کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کی بھی عام اجازت نہ دی گئی۔ ایک محدود سی جگہ پر محدود افراد نے یہ رسم ادا کی، اور ان پر منوں مٹی ڈال دی گئی۔ اس قدر خوفناک سناٹا تھا، اور لوگ ایسے دم بخود تھے کہ اہلِ طاقت کپکپانے لگے۔ یہ خاموشی کہیں طوفان کا پیش خیمہ نہ ہو جائے، کچھ احتجاج تو ہونا چاہیے، بھڑاس کچھ نکلنی چاہیے، بادل کچھ چھٹنے چاہئیں، مطلع کچھ تو صاف ہونا چاہیے، سو بند دروازے کچھ کھول دیے گئے۔ آنکھیں کچھ کچھ بند کر لی گئیں۔ نعرے لگنے لگے، خود سوزیاں ہونے لگیں، غصے میں مبتلا افراد غصہ تھوکنے لگے، اور پھر معمولاتِ زندگی بحال ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو جیسے اشخاص روز روز پیدا نہیں ہوتے، صدیوں ان کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کا رُخ بھی بدلا، معیشت کو بھی متاثر کیا، اور پاکستان کو بہت کچھ دے کر، اور اس سے بہت کچھ لے کر اِس دُنیا سے کوچ کر گئے، بلکہ یہ کہیے کہ اس پر مجبور کر دیے گئے۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ انہیں اس طرح قبر میں اتار دیا جائے گا۔ اگر مارشل لاء نہ ہوتا، جمہوری عمل بحال رہتا اور عدالتیں معمول کے مطابق کام کر رہی ہوتیں، تو ان پر مقدمہ چلانا ممکن نہ ہو پاتا۔ ان کو کٹہرے میں کھڑا نہ کیا جا سکتا، احتجاج کا سیلاب منصفوں اور فائلوںکو اسی طرح بہا کر لے جاتا، جیسے شیخ مجیب الرحمن کے ٹریبونل کو لے گیا تھا۔ ان پر چلائے گئے اگرتلہ سازش کیس کو منہ چھپا کر بھاگنا پڑا تھا۔ وہ راتوں رات غداری کے ایک ملزم سے ایک قابلِ احترام سیاسی رہنما تسلیم کر لیے گئے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان ان کو مذاکرات کی میز پر اپنے سامنے بٹھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے مخالف سیاست دانوں کے درمیان معاملہ طے نہ پایا۔ بے اعتمادی بلکہ بد اعتمادی انتہا کو پہنچی، ایک ایک نکتے پر وہ پہرہ دیتے، اور جھگڑا کرتے رہ گئے۔ عسکری قیادت اپنی صفوں میں بغاوت کے خوف سے خود ہی باغی بن گئی، اور لڑنے والوں کو اپنی ''حفاظتی تحویل‘‘ میں لے لیا۔ اگر 1977ء کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوتے، ذوالفقار علی بھٹو سادہ اکثریت حاصل کر سکتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ اپوزیشن لیڈر بن کر نو جماعتی اتحاد کی حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیتے۔ ہر دو صورت قومی سیاست پر ان کا غلبہ رہتا، ان کو ''بے طاقت‘‘ نہ کیا جا سکتا۔ اگر قومی اتحاد کی تحریک کے دوران وہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ مان کر اقتدار چھوڑ دیتے، اور قومی اتحاد ہی کو نگران حکومت قائم کرنے کی دعوت دے گزرتے یا اسے شریک اختیار کر لیتے، تو بھی ان کو محدود نہ کیا جا سکتا۔ وہ میدان میں آ کر، اپنے حامیوں کو گرما اور اپنے مخالفوں کو تڑپا سکتے تھے۔ جیالے ان کے ایک اشارے پر سر ہتھیلیوں پر رکھ لیتے، لیکن اس قدر ذہین، صاحب مطالعہ اور تاریخ پر نظر رکھنے والے شخص کی آنکھیں کیسے بند ہو گئیں۔ وہ اپنی ہی طاقت اور صلاحیت پر اعتماد کرنے سے محروم کیسے ہو گیا، اُسے اپنے پائوں کے نیچے موجود زمین پر کھڑا رہنے کا خیال کیوں نہ رہا، یہ وہ سوالات ہیں پاکستانی سیاست کے طالب علموں کو جن کا جواب تلاش کرنا چاہیے، اور بھٹو صاحب کے پُرجوش حامیوں کو بھی جن پر نظر رکھنی چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا شخص‘ جس نے شکست خوردہ اور نیم جاں پاکستان کو نئی توانائی دی‘ سیاست میں مفاہمت کے جذبے کو فروغ دے کر 1973ء کا دستور وسیع تر اتفاق رائے سے مرتب کیا، پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا، اپنے کمزور حریفوں سے خوفزدہ ہو کر ان کو دبوچنے کے در پے ہوا، تو انہوں نے اسے دبوچ لیا۔ نفرت اور کدورت اس قدر بڑھی کہ ان کی پھانسی پر حروف تعزیت کی بھرمار ہوئی، نہ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے۔ بھٹو صاحب نے پاکستانی معیشت کو جس طرح تاراج کیا، اور ان کی نیشنلائزیشن نے پاکستان کو پسماندہ رکھنے میں جو کردار ادا کیا، اس سے قطع نظر ان کی سیاست نے کانٹا کیوں بدلا، اور مفاہمت کے بجائے مخاصمت کا الائو دہکانے میں کیوں لگ گئے، اس سوال کا جو بھی جواب تلاش کیا جائے، سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ اہلِ سیاست کو 'جیو اور جینے دو‘ کی روایت پر سختی سے کار بند رہنا چاہیے۔ اسے عقیدے کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ بھٹو مرحوم جیسا شخص اگر بے چارگی کا شکار ہو کر دُنیا سے رخصت ہو گیا تو ان سے کہیں زیادہ کم صلاحیت لوگ کس طرح بقائے دوام حاصل کر سکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو دُنیا سے رخصت ہوئے، ان کی ذات آج بھی پاکستان میں اتحاد اور یکجہتی کی علامت ہے۔ صوبوں کو آپس میں جوڑتی، اور وفاق کو طاقت بخشتی ہے۔ ان کی جماعت آج بھی اپنا سیاسی تشخص رکھتی اور زیرک سیاسی کارکنوں سے مالا مال ہے۔ ان کی طاقت کا مرکز پنجاب تھا، اِس وقت ان کی جماعت سندھ میں سمٹی ہوئی ہے، لیکن اس میں پھیلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان کے پُرعزم نواسے بلاول بھٹو زرداری اپنی جماعت میں نئی روح پھونکنے کے لیے سرگرم ہیں۔ گزشتہ بیالیس سال کے دوران بہت سا سرد و گرم چکھنے کے باوجود پیپلز پارٹی کو پھانسی نہیں دی جا سکی۔ اُس نے جیسے تیسے اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔ بھٹو مرحوم کے بعد ان کی دختر بلند اختر بے نظیر بھٹو نے اپنا نقش جمایا، وزارتِ عظمیٰ کا منصب تک حاصل کیا۔ ان پر اور ان کے شوہر نامدار پر بہت الزامات بھی لگے، انہوں نے خود اپنی جان کی قربانی بھی دی، لیکن ان کی جماعت کا چراغ کسی نہ کسی رنگ میں اب تک جل رہا ہے۔ عمران خان آج وزیراعظم ہیں، انہیں بھی اور ان کے مخالفوں کو بھی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے، اپنی حدود کے تعین میں کوتاہی ان کیلئے بھی سود مند نہیں ہو گی۔ 'موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں‘۔ دریائے سیاست کو موجزن رہنا چاہیے، دستور کی کشتی سلامت رہے گی تو سفر جاری رہے گا، اور ساحل پر پہنچنا بھی نصیب ہو سکے گا۔
چند ہی روز قبل ہونے والے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں بیس پریذائیڈنگ افسروں کے اغوا کی جو تفصیل منظر عام پر آئی، اس نے ہر سوچنے سمجھنے والے شخص کو افسردہ کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جیو فینسنگ کی تفصیل اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے رکھی تو سننے اور دیکھنے والے سر پیٹ کر رہ گئے۔ سپریم کورٹ نے اس تفصیل کے بارے میں اظہارِ خیال کئے بغیر دوبارہ انتخاب کرانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی اپیل مسترد ہو چکی ہے... لیکن بات یہاں رکنی نہیں، یہاں سے شروع ہونی چاہیے۔ ان پریذائیڈنگ افسروں کے اغوا کاروں کے چہرے بے نقاب ہونے چاہئیں، اور انہیں کڑی سزا ملنی چاہیے۔ یہ واقعہ خبر دے رہا ہے کہ دھاندلی کے ذریعے نتائج بدلنے کی کوشش کرنے والے آج بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ تسلّط جمائے ہوئے ہیں، تاریخ کے پہیے کو اُلٹا گھمانے کے گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔ اگر دھونس جمانے والے نوسر بازوں کا سر سختی سے کچلا نہ گیا تو پھر سب کے ہاتھ خالی ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کو ایک اور امتحان میں مبتلا کرنے والوں کو یہ بات نوٹ کر لینی چاہئے۔ انتخابی دھاندلی میں انتظامیہ ملوث ہو جائے تو اسے مقدار اور تعداد سے نہیں ماپا جاتا۔ دو انچ کی گولی دِل میں دو انچ کا سوراخ کر کے چلتے پھرتے انسان کو خاک کا ڈھیر بنا سکتی ہے، منصف یہ سوال اٹھا کر پسماندگان کو مطمئن نہیں کر سکتا کہ دو انچ کا سوراخ تو ہوا ہے، باقی جسم تو جوں کا توں ہے۔ ویسے کا ویسا ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)