مولانا وحیدالدین خان ایک صدی کے لگ بھگ اِس دُنیا میں گزار کر بالآخر اپنے رَب کے پاس چلے گئے کہ جس کی رضا کا حصول ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ ان کا نام پہلی بار اُس وقت سنا جب کالج میں سیکنڈ یا تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی توجہ کا مرکز تھے۔ ان کی کئی کتابیں نظر سے گزر چکی تھیں۔ شبلی نعمانی، اور مولانا ابوالکلام آزاد سے لے کر نسیم حجازی تک سے (کتابی) ملاقاتیں جاری تھیں۔ جس موضوع پر جو ہاتھ آتا اُسے پڑھ لیا جاتا۔ بعض اوقات کئی کتابیں بیک وقت پڑھنا شروع کر دیتا تھا۔ ایک سے کچھ اُکتاہٹ ہوتی، تو دوسری پر نظر جا ٹھہرتی۔ اس سے طبیعت بھر جاتی تو تیسری کے اوراق کھول لیتا۔ جاسوسی ناول بھی پڑھے، اور تاریخی بھی، لیکن سچ پوچھیے تو دِل ان میں لگا نہیں۔ انجام تک پہنچنے کے لیے طویل انتظارکرنا گراں گزرتا تھا، اس لیے بسا اوقات آخری باب پہلے پڑھ لیتا کہ تجسس اضطراب اور بے چینی میں ڈھل کر فشارِ خون کو متاثر نہ کرنے پائے۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول پاک پتن سے پاس کیا تو ایف اے میں داخلے کے لیے بوریوالہ جانا پڑا کہ وہاں ٹیکسٹائل ملز میں بڑے بھائی صاحبزادہ ضیاء الرحمن شامی لیبر افسر تھے۔ ساہیوال یا لاہور کا خرچ اٹھانے کی تاب والد محترم صاحبزادہ فیض الرحمن شامی صاحب کی جیب کو نہیں تھی۔ بوریوالہ میں انہی دِنوں میونسپل کالج میں (غالباً) دائود سائنس بلاک کی بنیاد رکھی گئی، اور اس کے افتتاح کے لیے مغربی (آج کے) پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ تشریف لائے۔ ان کا اردلی بھی انہی کی طرح کے لباس میں ویسی ہی مونچھوں کا مالک تھا۔ مجھے وہ یوں یاد رہ گیا کہ کچھ دیر تک مَیں اُسی کو گورنر سمجھتا رہا۔ پاک پتن میں عظیم خان صاحب اور رب نواز خان صاحب کا شاہین میڈیکل سٹور علمی مباحث کا مرکز تھا۔ وہاں ہر شام احباب جمع ہوتے، اور مختلف موضوعات پر ''ٹاک شو‘‘ منعقد ہوتے۔ مقامی کوآپریٹو بینک کے گارڈ ولی محمد ربانی کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ وہ بحث میں جان ڈال دیتے۔ رکن الدین نام کے ایک دھان پان اہل کار بھی اپنے وسیع مطالعے سے نکات برآمد کرتے۔ دیو بند سے شائع ہونے والا ماہنامہ ''تجلی‘‘ باقاعدہ آتا، اور اس کے مضامین توجہ کا مرکز بن جاتے۔ وحیدالدین خان کا نام انہی دِنوں سامنے آیا کہ مولانا مودودیؒ کی فکر پر ان کی تنقیدی کتاب ''تعبیر کی غلطی‘‘ شائع ہوئی۔ ''تجلی‘‘ کے ایڈیٹر عامر عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی کے (غالباً) بھانجے تھے، لیکن جماعت اسلامی کے پُر زور حامی۔ ان کے قلم میں بلا کی طاقت تھی۔ مولانا مودودیؒ کو دیو بندی حلقے میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا‘ عامر عثمانی سینہ سپر رہتے، اور بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتے۔ مولانا وحیدالدین خان پر بھی انہوں نے تابڑ توڑ حملے کیے، اور ''تعبیر کی غلطی‘‘ میں موجود تعبیر کی غلطیوں کی نشاندہی سے داد حاصل کرنے لگے۔ انہی دِنوں یہ کتاب نظر سے گزری، اور مولانا وحیدالدین خان کی شخصیت نظروں میں سما کر رہ گئی۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی ان دِنوں حکومتی توجہ کا خاص مرکز تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت ان کو اپنا حریف اول سمجھتی تھی۔ محترم غلام احمد پرویز سے لے کر مولانا غلام غوث ہزاروی، اور مولانا محمد عمر اچھروی تک جارحانہ تنقید میں پیش پیش تھے۔ جو علمائے کرام آپس میں کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہوتے، مولانا مودودی کے لتّے لینے میں وہ سب ایک نظر آتے۔ مولانا کے خلاف آئے روز مضامین اور کتابیں شائع ہوتیں، اکثر تحریروں سے ذاتی مخاصمت کی بو آتی۔ اس ماحول میں وحیدالدین خان کے لہجے نے سب کو چونکا دیا۔ خان صاحب کم و بیش پندرہ سال جماعت اسلامی ہند میں شامل رہے تھے۔ اس کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ مولانا کی فکر سے اختلاف کرتے کرتے ان کا راستہ الگ ہو گیا، انہوں نے جو کچھ سوچا، اور جو کچھ لکھا، اُسے جماعت اسلامی ہند کے زعماء اور مولانا مودودیؒ کی خدمت میں بھیجا۔ تحریری تبادلہ خیال کی بہت کوشش کی، لیکن مولانا نے کسی ''مناظرے‘‘ میں الجھنے سے انکار کیا، اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اپنے افکار کو جامۂ اشاعت پہنا دیں۔ مولانا وحیدالدین خان نے بقول خود بڑے بوجھل دِل کے ساتھ اپنی تحریر کتابی شکل میں پیش کر دی۔ ان کے سنجیدہ اور مؤدبانہ لہجے نے ان کی شخصیت کا جو تاثر قائم کیا، آخر دم تک اس میں کمی نہیں آئی۔ مولانا وحیدالدین اقامتِ دین کے فریضے اور حکومت الٰہیہ کے قیام کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول کو ''سیاسی اسلام‘‘ قرار دیتے اور اس سے شدید اختلاف کرتے رہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا، مولانا وحیدالدین نے اپنی بات کو شائستگی اور عمدگی کے ساتھ پیش کیا اور پھر اپنے کام میں لگ گئے۔ وہ اسلام کو دعوت کا دین قرار دیتے اور دعوت ہی کے ذریعے تبدیلی لانے کے آرزو مند رہے، اسی نکتے کی تشریح و تعبیر میں زندگی گزار دی۔ ان کے ہاں مبارزت نہیں، اخوت ہے۔ وہ اپنے مخالفین سے کشتی نہیں لڑتے، انہیں حریف قرار نہیں دیتے، ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے اور اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلائل فراہم کرتے ہیں۔ ہندوستان میں انہیں غیر مسلم حلقوں میں بہت پذیرائی ملی، حکومت نے اُنہیں کئی اعزازات کا مستحق گردانا۔ بین الاقوامی ایوارڈ بھی پیش کئے گئے۔ ان کے ''الرسالہ‘‘ نے دھوم مچائے رکھی‘ وہ ہندی اور انگریزی میں بھی اسلام کی دعوت کو پھیلانے کا ذریعہ بنا رہا۔ مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات ان کے اسلوب کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہی۔ اسے مرعوبیت بھی قرار دیا گیا، لیکن مولانا نے اپنا راستہ نہیں بدلا، ثابت قدمی سے ان کا سفر جاری رہا، یہاں تک کہ کورونا وائرس نے ان کا راستہ کاٹ دیا۔
تین عشرے پہلے وہ پاکستان آئے تو لاہور میں ایک ہفتہ قیام کیا تھا۔ ان کے اعزاز میں کئی تقریبات منعقد ہوئیں، ان سے بات چیت کے کئی دور ہوئے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین وہ اچھے تعلقات پر بہت زور دیتے تھے۔ تحریک پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ان کی رائے اپنی تھی، پاکستان میں ان سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن مستقبل کے حوالے سے ان کی بات کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ ان کی فکر اور ان کے اسلوب کا جائزہ بھارت کے ماحول میں بیٹھ کر لیا جائے، تو معاملے کی نوعیت مختلف ہو جاتی ہے۔ مسلمان وہاں ایک ایسی اقلیت ہیںجو اکثریت کے دبائو کا شکار ر ہتی ہے، بر صغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں نے جب علیحدہ ملک میں ڈھل جانے کا فیصلہ کیا، تو جغرافیہ اس کا کنواں بن گیا۔ لیکن پاکستان جہاں کی آبادی نوے فیصد سے بھی زیادہ مسلمان ہے، اور جس نے اپنی اجتماعی زندگی کی تنظیم نو کے لیے الگ ملک حاصل کیا تھا، وہاں حکومت سازی سے بے تعلق ہونے کی بات بآسانی سمجھی اور سمجھائی نہیں جا سکتی۔ اگرچہ کہ دعوت کے ذریعے قلب و نظر کی تبدیلی سے انکار یہاں بھی ممکن نہیں کہ کلمہ گوئوں کی تعلیم و تربیت سے آنکھیں بند کر لینے سے اجتماعی صورت گری ممکن نہیں رہتی۔ اس بات کا وزن البتہ دونوں ممالک میں کم نہیں کیا جا سکتا کہ امن کا قیام دونوں کے مفاد میں ہے، بلکہ آکسیجن کی طرح ہے، لڑائیاں بہت لڑی جا چکیں، ان سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ مولانا مرحوم کا پختہ خیال تھاکہ مسلمان دعوت ہی کے ذریعے دنیا کا مقابلہ کر سکتے اور اسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ دشمن بن کر، دشمن سمجھ کر یا دشمن بنا کر اپنی جنت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)