"MSC" (space) message & send to 7575

سیاسی کھیل کے آداب

پاکستانی سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، شاید ہی کسی دوسرے ادارے کو اِس کی توفیق ہوئی ہو۔ ہمارے ہاں ایسے اہلِ سیاست اور صحافت کی کمی نہیں جو دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، دستوری اور سیاسی عمل توانا نہ ہونے کا سبب مختلف اداروں کو قرار دیتے رہتے ہیں، لیکن آپ دل پہ ہاتھ رکھ کر تاریخ پر نظر ڈالیں تو اِس بات کا انکار مشکل ہو جائے گا کہ بنیادی طور پر ہمارے اہلِ سیاست ہی ہمیں اس حال تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں کہ ہم سے آپ اپنی صورت پہچانی نہیں جا رہی۔ بر صغیر کے اہلِ سیاست برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت کی گود میں پروان چڑھے تھے۔ انہوں نے اسی کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کی، اور ووٹ کا جو حق اُنہیں اس نے دیا تھا، اسے انہوں نے آزادی کے حق میں استعمال کر کے زندہ باد کے نعرے لگا اور لگوا لیے۔ بھارتی نیتائوں نے تو آزادی کے بعد اس نظام کو پوری شدت سے اپنا لیا، ووٹ کی طاقت کو بروئے کار آنے کا موقع دیا۔ عدلیہ، بیوروکریسی اور فوج نے اسی پٹڑی پر سفر جاری رکھا، جو آزادی سے پہلے بچھائی جا چکی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ تمام تر خرابیوں اور حماقتوں کے باوجود ان کا دستوری ڈھانچہ برقرار ہے۔ حکومت نے کس طرح قائم ہونا ہے، اور کس طرح رخصت ہو جانا ہے، ان کے ہاں یہ سوال زیر بحث ہی نہیں آتا۔ ہر چھوٹے بڑے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پانچ سال بعد الیکشن ہوں گے، اور آئندہ وزیر اعظم کا فیصلہ ہو جائے گا۔ انتخابی نتائج کو وہاں کبھی چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔ کئی کئی روز پولنگ جاری رہتی ہے، کئی کئی روز گنتی ہوتی ہے، لیکن کسی منظم دھاندلی کا کوئی تصور وہاں موجود نہیں ہے۔ کوئی ایسا عنصر بھی دریافت نہیں ہوا، جو اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے خبط میں مبتلا ہو۔ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا کر آپے سے باہر ہونے کی کوشش کی تھی، لیکن انہیں اپنے جامے میں واپس آنا پڑا۔ اب نریندر مودی معاشرے کو تقسیم کرنے میں لگے ہیں، تفرقوں کے الائو دہکا رہے ہیں، لیکن کسی کو انہیں دھکا دینے کی جرأت نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ علاج پرچی ہی کے ذریعے ہو گا۔ بھارت جانے کا کئی بار موقع ملا، لیکن کسی محفل میں یہ سوال زیر بحث نہیں آیا کہ حکومت کا کیا بنے گا؟ یہ چل پائے گی یا نہیں۔ بھارتی سیاست دانوں نے بیلٹ پیپر کی تقدیس کی حفاظت کی ہے، اور کسی دوسرے شخص یا ادارے کے اندر یہ سوچ تک نہیں ابھر پائی کہ اہلِ سیاست کے ''شر‘‘ سے نجات دلائی جائے۔
پاکستانی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں پر انتخاب کے بعد جھگڑے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہر الیکشن کو متنازع بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہر ہارنے والا الزامات کا انبار لگا دیتا ہے، اور ہر جیتنے والا کوئی بھی حربہ آزمانے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہوتے ہیں، پولنگ ختم ہونے کے چند گھنٹے کے اندر اندر نتیجہ مرتب ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود شکوک و شبہات پھیلتے اور پھیلائے جاتے ہیں۔ اداروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، وہ تمام اہل کار جن پر پرچی کی حفاظت لازم ہے انہیں امانت میں خیانت کا مرتکب قرار دینے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ الیکشن کے نتائج پر جھگڑا جاری رہتا ہے، اسے طول نہ دیا جا سکے تو پھر احزابِ اقتدار اور اختلاف ایک دوسرے کے درپے ہو جاتی ہیں۔ اقتدار پر بیٹھنے والا اختلاف کرنے والوں کا قلع قمع کرنے پر تل جاتا ہے، اور حزبِ اختلاف کی بنچوں پر براجمان ہونے والے اقتدار کے پائوں تلے سے قالین کھینچنے کے لیے سربکف نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کوئی احترام ہے نہ قائد حزبِ اختلاف کی کوئی عزت۔ گھنائونے سے گھنائونا الزام ایک دوسرے پر لگا کر اپنے اپنے حلقے سے داد طلب کی جاتی ہے اور اہلِ وطن کیا دنیا بھر کو باور کرایا جاتا ہے کہ چوروں، لٹیروں اور نقب زنوں کی کوئی آماج گاہ ہے تو وہ پاکستان ہے۔ بڑے بوڑھوں کی تو بات ہی چھوڑیے، چھوٹے چھوٹے بچے تک دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ انہیں، چوری، ڈاکے اور لوٹ مار کے نقصانات کیوں پڑھائے جاتے ہیں، درسی کتب میں یہ ابواب کیوں درج ہیں، جبکہ ملکی سطح پر ان ''جملہ اوصاف‘‘ کی شدت سے پذیرائی ہو رہی ہے۔
ہوسِ اقتدار ہی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ اہلِ سیاست کا ایک گروہ دوسرے کو اکھاڑے سے باہر رکھنے کیلئے کسی سے کسی بھی طرح کی ساز باز کیلئے تیار ہو جاتا ہے، بلکہ اسکے خواب دیکھنے اور منصوبے بنانے کو قومی فریضہ سمجھتا ہے۔ تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ آج بھی پاکستانی ریاست اعتماد کے بحران سے دوچار ہے، ہر شخص اور ہر ادارہ دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے نیب کے نام سے جو محکمہ قائم کیا تھا، اور اس کا جو قانون وضع کیا تھا، اس کا اور تو جو فائدہ ہوا ہو یا نہ ہو، پاکستانی سیاست کو اس کے ذریعے جو نقصان پہنچایا گیا، وہ ہر شخص کے سامنے ہے۔ انہوں نے اسی کے ذریعے مسلم لیگ میں سے (ق) نکلوائی تھی، اور گزشتہ کئی سال سے (ن) میں سے (ش) نکالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ اور بات کہ رائے عامہ اس کی اجازت نہیں دے رہی۔ ووٹروں کا اپنی جگہ کھڑے رہنا شیرازہ منتشر نہیں ہونے دے رہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں نیب کے قانون کا سنجیدہ مطالعہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا، لیکن نیب کے قانون کو الہامی سمجھ کر اس کی حفاظت کی جاتی رہی کہ یہ دوسروں کے خلاف استعمال ہو گا تو مزہ آئے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو بوجوہ اس پر نظرثانی کی توفیق نصیب ہوئی ہے تو اب اسکی مخالف جماعتیں دھماچوکڑی مچائے ہوئے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ آئندہ چند برسوں میں انصافی حکومت کے کارپردازان اس کی زد میں ہوں گے، اس لیے اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ خیال خام کہیے یا پختہ، اس کی تحسین کرنا مشکل ہے۔ نیب کے قانون کی جو بھی اصلاح کی جا سکتی ہو، وہ کر گزرنی چاہئے۔ اہلِ سیاست ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے بجائے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کریں۔ سپورٹس مین وزیراعظم کے دور میں اسے جو نقصان پہنچا اور پہنچایا جا رہا ہے، وہ ہماری تاریخ کا شرمناک باب ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو زچ کرتے کرتے بالآخر میثاق جمہوریت پر مجبور ہوئے تھے تو وزیراعظم کس طرح من مانی جاری رکھ سکیں گے؟ انکا وسیع تر مفاد بھی اسی میں ہے، اور اپوزیشن جماعتوں کا بھی کہ وہ سیاسی کھیل کے آداب جانیں سیاست کو کرکٹ کی طرح کھیلیں۔ آج وہ کل ہماری باری ہے۔
میاں یٰسین مرحوم
برطانیہ میں مقیم ممتاز پاکستانی بزنس مین میاں محمد یٰسین چند روز پہلے لندن میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر86 برس تھی۔ وہ سینیٹر طارق چودھری، امریکہ میں مقیم برادرم مشتاق جاوید، اور پنجاب سکولز کے چارٹرڈ اکائونٹنٹ ٹرسٹی میاں محمد خالد کے بڑے بھائی تھے۔ میرا ان سے عشروں کا تعلق تھا۔ ان کا تفصیلی تذکرہ تو پھر ہوگا کہ چند سطروں کے کوزے میں محبت اور اخوت کا یہ دریا سمٹ نہیں سکتا، فی الحال دُعا کیلئے ہاتھ اٹھائیے اور پاکستان کے اس قابلِ فخر سپوت کیلئے اللہ کے حضور مغفرت کی استدعا کر دیجیے۔ وہ اپنے جاننے والوں کے دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں