سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جواں ہمت نومنتخب صدر محمد احسن بھون سے اپنے ٹی وی پروگرام ''نقطہ نظر‘‘ میں ٹیلی فون پر گفتگو ہو رہی تھی۔ موضوع تھا، دستور کی دفعہ 184 کے تحت سپریم کورٹ کا سووموٹو (ازخود) نوٹس لینے کا اختیار۔ سپریم کورٹ بنیادی طور پر اپیل کی عدالت ہے، اسے عدالت ہائے عالیہ کے فیصلوں کے خلاف شنوائی کا اختیار دستور نے عطا کر رکھا ہے۔ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، جب تک یہ اپنے کسی سابقہ فیصلے پر نظرثانی نہ کرے یا اس کے بارے میں کوئی نیا حکم صادر نہ کردے، پرانا فیصلہ حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کسی فیصلے کے اثرات کم یا ختم کرنے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے، آئین میں ترمیم کا اختیار بھی اسے حاصل ہے، لیکن جب تک وہ یہ اختیار استعمال نہ کرے، سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی قرار پائے گا، اور اس کی پابندی ہر ادارے اور ہر شہری پر لازم ہو گی۔ ہائی کورٹ کو اپنے دائرہ اختیار میں (ہر صوبے کی اعلیٰ عدالت الگ ہے) کسی بھی غیرقانونی کام یا کارروائی کو روکنے کا حق حاصل ہے۔ دستور کی دفعہ 199 میں اسے واضح طور پر بیان کیا جا چکا ہے۔ اس حق کو ''رٹ جورسڈکشن‘‘ کہتے ہیں، اور یہ حق دورِ غلامی میں عدالت کو حاصل نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی نے اُس وقت نافذ عبوری دستور میں یہ ترمیم کی، لیکن سپریم کورٹ کی پیشرو وفاقی عدالت نے چیف جسٹس منیر کی سربراہی میں اس کی کیا درگت بنائی، یہ ہماری ہی نہیں، دنیا کی عدالتی تاریخ کا ایک انتہائی شرمناک باب ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں، یہاں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ دستور سازوں نے سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کی پامالی کا کوئی ایسا معاملہ سامنے آنے پر جو عوامی اہمیت (Public Importance) کا ہو، براہِ راست دخل اندازی کا اختیار دے رکھا ہے، اس کیلئے درخواست دائر کی جا سکتی ہے، یا جناب چیف جسٹس کسی فریادی یا فریاد کے بغیر ازخود بھی نوٹس لے سکتے ہیں۔
آئین 1973ء میں نافذالعمل ہوا، لیکن جناب افتخار چودھری کی تشریف آوری تک کسی چیف جسٹس نے اس دفعہ کے تحت وہ کچھ نہیں کیا، جو انہوں نے کرکے دکھایا۔ اسی سے وہ محبوب بھی ہوئے، اور مغضوب بھی ٹھہرے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس میں نئی جہتیں تلاش کیں، اور بنفسِ نفیس ہسپتالوں کے دورے کرنے اور براہِ راست برطرفیوں کے احکامات بھی جاری کرنا شروع کر دیے۔ عوامی اہمیت (Public Importance) کی تعریف اس طرح کی کہ دنیا کا ہر معاملہ اس کے دائرے میں سمٹا نظر آنے لگا۔ دفعہ 199 بھی بعض اوقات بے معنی نظر آئی، اور اپیل دائر کرنے کا لطف بھی باقی نہ رہا۔ انفرادی معاملات میں بھی فیصلے صادر ہوئے، وزیر اعظم نواز شریف اسی کی نذر ہو گئے۔ انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا۔ یہی معاملہ جہانگیر ترین کے ساتھ ہوا، وہ بھی عمر بھر کے لیے کسی انتخابی ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کے نااہل قرار پائے۔ دفعہ 184 کی اس تشریح و تعبیر نے مشکل یہ پیدا کی کہ ''ہدف‘‘ بن جانے والے شخص کو اپیل کا حق حاصل نہیں رہا۔ سپریم کورٹ نے جب براہِ راست حکم جاری کر دیا، تو اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل ہو سکتی ہے، جس کا دائرہ محدود سے محدود تر ہے۔ اپیل کا حق‘ جو عالمی طور پر مسلمہ قانونی روایات کے مطابق فطری اور بنیادی سمجھا جاتا ہے، ساقط ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے شخصی معاملات کو ''عوامی اہمیت‘‘ کے دائرے میں لا کر جو احکامات صادر کیے، ان میں بنیادی سقم یہی تھا (اور ہے) کہ اپیل کا فورم موجود نہیں۔ اگر سپریم کورٹ اپنے قواعد میں ترمیم کرکے، اپنے ہی بڑے بینچ کے سامنے اپیل دائر کرنے کی اجازت دے دیتی جیسے کہ ہائی کورٹ میں سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی جا سکتی ہے، تو کچھ نہ کچھ مداوا ہو جاتا۔ پارلیمنٹ بھی اس حوالے سے قانون سازی کر سکتی تھی، لیکن دونوں میں سے کسی نے اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کیا۔ سپریم کورٹ اپنے طور پر اس کارروائی کا استحقاق یوں رکھتی ہے کہ اس نے اپنے دائرے کو خود ہی وسعت دی ہے، کسی قانون نے اسے یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی عوامی نمائندے کو تاحیات نااہل قرار دے دے، جب تشریح کے ذریعے یہ حق حاصل کیا گیا ہے تو تشریح ہی کے ذریعے اپیل کی قدغن بھی لگائی جا سکتی ہے۔ ایسا کیا جائے گا تو ہمارے دستوری اور قانونی ڈھانچے کی روح کے عین مطابق ہو گا کہ عوامی اہمیت کے نام پر کسی بھی شخص کے بنیادی انسانی حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے۔ جس تشریح کے نتیجے میں یہ حق سلب کیا گیا ہو اسے کسی طور بھی اعلیٰ اور ارفع تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابی قوانین کے مطابق کسی شخص کی نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے، حیرت ہے تاحیات کی ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ اسلامی اصولوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا کہ کسی بھی شخص کو جیتے جی سپردِ خاک نہیں کیا جا سکتا۔ جناب احسن بھون نے اس مسئلے کو یوں اٹھایا ہے کہ اپنے انتخاب کے فوراً بعد اپنے رفقا کے ساتھ جناب چیف جسٹس سے ملاقات میں اس پر گفتگو کی ہے۔ ان کے بقول خوش آئند امر یہ ہے کہ جناب چیف نے اس پر کھلے دِل کے ساتھ غور کرنے کا وعدہ کیا ہے، اس حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بھون صاحب سے یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ شکاگو سے جناب احتشام نظامی کے ایس ایم ایس پر نظر پڑی۔ وہ مشرقی پاکستان میں برسوں مقیم رہے، اور اب بھی وہاں کے محصور پاکستانیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ دِل دردمند ان کے مصائب پر کڑھتا رہتا ہے، اور اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے وہ مسلسل ان کی طرف توجہ مبذول کراتے رہتے ہیں۔ نظامی صاحب نے استفسار کیا تھا کہ سپریم کورٹ محصور پاکستانیوں کی واپسی کا حکم کیوں نہیں صادر کرتی، کیوں اس کا ازخود نوٹس نہیں لیتی کہ وہ آج بھی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سوال جناب بھون کی خدمت میں پیش کیا گیا تو وہ بھی بے چین ہو گئے۔ ان کا دل بھی تڑپ اٹھا، انہوں نے فوراً کہا کہ ہم سپریم کورٹ بار کی طرف سے درخواست دائر کریں گے۔ ازخود نوٹس کا انتظار کرنے یا اس کی التجا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے رفقا سے مشورہ کرنے کے بعد وہ ان پاکستانیوں کا مسئلہ حل کرانے کے لیے کوشاں ہو جائیں گے۔ اس پر جناب نظامی کی طرح ہر سننے والے کا دِل باغ باغ ہوگیا۔ امید کی نئی شمع جل اٹھی۔ چار لاکھ کے لگ بھگ یہ افراد بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں قائم 117 کیمپوں میں نظر بندی کے ایام گزار رہے ہیں۔ 8x7 فٹ کی جھگیوں میں 25 سے 30 افراد تک دھکیل دیے گئے ہیں۔ ان جھگیوں کی چھت مضبوط ہے نہ دیواریں، گرمیوں میں یہ تندور بن جاتی ہیں تو سردیوں میں قلفی جمنے لگتی ہے۔ بوسیدہ کپڑوں کی دیواریں ہیں، ستر افراد کے لیے ایک غسل خانہ ہے، بارش ہو تو غلاظت ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دینے والا پاکستان اپنے مٹھی بھر شہریوں کے لیے دروازے کھولنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسمبلیوں میں قراردادیں پاس ہو چکیں، کئی منصوبے بنائے جا چکے، کروڑوں روپے کے فنڈ بھی قائم ہو چکے، لیکن پچاس سال گزرنے کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اب نگاہیں جناب احسن بھون، ان کے رفقاء، اور سپریم کورٹ کی طرف لگ گئی ہیں۔ محصورین کے ہاتھ ان کے حق میں دُعا کے لیے اٹھے صاف نظر آ رہے ہیں۔ مشرق کی طرف دیکھیے تو سہی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)