اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا سترھواں غیرمعمولی اجلاس چند روز میں اسلام آباد میں منعقد ہورہا ہے۔ یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ تمام برادر مسلم ممالک کے زعما پاکستان میں جمع ہوںگے، اور دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کے مسائل اور معاملات پرغور کریں گے۔ایک طرف اسلامی اتحاد کا یہ عظیم الشان مظاہرہ وحدت و اخوت کے جذبوں کو پروان چڑھانے کا باعث بن رہا ہے، تو دوسری طرف پاکستانی سیاست کا منہ زور گھوڑا قابو میں نہیں آرہا۔ وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں نہ صرف جمع کرائی جا چکی ہے، بلکہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بعد از خرابیٔ بسیار نوٹس بھی ارکان اسمبلی کو بھجوا دیے ہیں، ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ کس تاریخ کو اس قرارداد پر رائے شماری ہوگی، لیکن جوکچھ اسلام آباد میں ہورہا ہے، اس نے جذبات کو اِس قدر بھڑکا دیا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے اور ایسی صورتحال جنم لے سکتی ہے جس سے نکلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے، ایڑی اور چوٹی دونوں کو خراشیں آسکتی ہیں، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ گھائو بھی لگائے اور کھائے جا سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد بغاوت کا علم بلند کیے ہوئے ہے، دس بارہ تو منظرعام پر آچکے‘ اتنے ہی بلکہ کچھ زیادہ اپنی اپنی جگہ بیتاب ہیں۔ کسی بھی وقت کہیں جلوہ دکھا سکتے ہیں۔ ان ارکان کی ایک بڑی تعداد سندھ ہائوس میں براجمان تھی (یا شاید اب بھی ہے) کہ اُسے اپنے ''اغوا‘‘ کا خدشہ تھا۔ عدم تحفظ کے مبینہ احساس نے انہیں اسلام آباد کے اس جزیرے میں پناہ لینے پرمجبور کردیا، جووفاقی دارالحکومت میں تو واقع ہے لیکن سکّہ وہاں سندھ حکومت کا چلتا ہے۔ اسلام آباد میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے اپنے اپنے ہائوس ہیں، جہاںان کے ارکانِ اسمبلی اور افسرانِ بالا قیام کرتے، اورخود مختاری کے مزے لوٹتے ہیں۔ ہر صوبے کے اپنے اپنے محافظ انکی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، جس طرح غیرملکی سفارتخانوں پران ممالک کا پرچم لہراتا، اورانہیں میزبان ملک کی پہنچ سے دوررکھتا ہے، اُسی طرح صوبائی حکومتوں کی یہ ''اقامت گاہیں‘‘ بھی وفاقی دسترس سے باہر تصور ہوتی ہیں۔ سندھ ہائوس، سندھ حکومت کے اور سندھ حکومت آصف زرداری کے زیرسایہ ہے، اور زرداری صاحب ''گیٹ عمران آپریشن‘‘ کے اعلیٰ کمانڈر ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کواپنی جماعت کی حکومت کی پہنچ سے باہررکھنے کیلئے انہیں سندھ ہائوس کی پناہ گاہ فراہم کردی گئی۔ چودھری پرویزالٰہی نے اپنے ایک انٹرویو میں ان ''مسنگ پرسنز‘‘ کی نشاندہی کی، اورانہیں اپوزیشن کی حفاظتی تحویل میں محفوظ قرار دیا تو ڈھنڈیا پڑگئی، یہاں تک کہ سندھ ہائوس کے دروازے ٹی وی کیمروں اور اینکروں کیلئے کھول دیے گئے، ان کے سامنے آکر مبینہ قیدیوں نے اعلان کیاکہ وہ برضاورغبت یہاں مقیم ہیں۔ انہیں حکومت سے خطرہ تھا،اسلیے یہاں پناہ لینے پرمجبور ہوئے، اس پر پی ٹی آئی کے دو ارکان قومی اسمبلی اپنے ساتھ چالیس پچاس ساتھیوں کولیکر سندھ ہائوس پرچڑھ دوڑے اور دروازہ توڑ ڈالا۔اس پرپورے ملک میں اضطراب کی شدید لہردوڑ گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ کو پولیس کو حرکت میں لانا، اور اس جتھے کوتھانے پہنچانا پڑا، کئی وفاقی وزرا اس اقدام کا دفاع کرتے اور کئی نیم دلی سے اس سے برات کا اظہار کرتے پائے گئے، بہرحال معاملہ سنبھال لیا گیا، تادم تحریر اس طرح کی کسی حرکت کا اعادہ نہیںہونے پایا۔
تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیںابھی تک گومگو میں ہیں لیکن انکی طرف سے اشارے یہی مل رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کیساتھ آنکھ لڑائے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اسلام آباد میں اپنے اپنے حامیوں کواکٹھا کرنے کا اعلان کررکھا ہے، اسکے ساتھ ہی ساتھ کوشش ہو رہی ہے کہ جو ارکان پارٹی قیادت کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی کے اجلاس میں پہنچیں، اورغیر حاضررہنے سے انکارکر دیں، انہیں ووٹ ڈالنے ہی نہ دیا جائے۔ اس مقصد کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان ہمارے محترم ڈاکٹر بابر اعوان صاحب نے فرما دیا ہے۔ آئینی اورقانونی ماہرین کی بڑی تعداد یہ تسلیم کرنے پرتیار نہیں کہ کسی رکن کوووٹ ڈالنے سے روکا جا سکتا ہے یا ووٹ ڈالنے سے قبل ہی اسکے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ دستورکی دفعہ63اے کے الفاظ بڑے واضح ہیں، ان کے مطابق پارٹی لیڈرشپ کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے والا رکن (ایک مقررہ طریق کارکے مطابق) اپنی سیٹ سے محروم ہوسکے گا۔ دستورکے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ اگرکوئی رکن اپنی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرنے پرتل جاتا ہے، توپھر اسے اپنی نشست کی قربانی دینا پڑتی ہے، گویا وہ وزیراعظم کی قربانی مانگ کراپنی قربانی سے بچ نہیں سکتا۔ حکومت چاہتی ہے کہ ایسے رکن کو قبل ازوقت کارروائی کرکے غیرموثر کردیا جائے، وہ ووٹ کا حق استعمال ہی نہ کرنے پائے۔ اس دلیل کا وزن سپریم کورٹ ہی میں واضح ہوسکے گا، حکومتی ماہرین سے جوبھی اختلاف کیا جائے، کسی آئینی اور قانونی نکتے کو اٹھانے، اور عدالت میں لیجانے سے انہیں روکا جا سکتا ہے،نہ اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے،اگر معاملہ قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ تک ہی محدود رہے،اور جو کچھ یہاں کیا جا سکتا ہے، وہی کیا جائے تو اِس سے اچھی بات کوئی نہیں ہو سکتی۔لیکن اگر لاکھوں کے اجتماعات منعقد ہوںگے،اگر متحارب جماعتوں کے کارکن ملک بھر سے اکٹھے کر کے لائے جائیں گے، اور اگر منہ زور کارکنوں کے جتھے اپنے مخالفوں پر چڑھ دوڑنے کی شہ پائیںگے،تو پھر آئین کی پاسداری کیسے ممکن ہو گی؟
وزیراعظم کرکٹ کے انتہائی معتبر کھلاڑی کے طورپر دنیا میں جانے اورمانے جاتے ہیں، سپورٹسمین سپرٹ کی ضرورت ان سے زیادہ کون سمجھ اورسمجھا سکتا ہے؟ انہیں اورانکے حریفوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ قومی اسمبلی کے اندر ہونا ہے، اوروہیں ہونا چاہیے۔ ملک بھر سے اپنے لاکھوں بلکہ کروڑوں حامیوںکواکٹھا کرکے حکومت بھی لاسکتی ہے، اور اپوزیشن بھی۔ کوئی میچ تماشائیوں کو میدان میں داخل کرکے نہ کھیلا جا سکتا ہے، نہ جیتا جا سکتا ہے۔ کرکٹ قواعدوضوابط کے مطابق کھیلی جاتی ہے تو سیاست میں ہاتھوںاور پائوں کو کھلا کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ جس طرح گزرے کل کی اپوزیشن آج کی حکومت ہے،اُسی طرح آج کی حکومت کل کی اپوزیشن ہو سکتی ہے۔ اقتدار کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے،یہ عوام کی امانت ہے، وہ جس سے چاہیں واپس لے لیںاور جس کو چاہیں سونپ دیں۔ اس لیے حوصلہ رکھیے، دل بڑا کیجیے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کیجیے۔ کرکٹ کے میدان میں ہاکی نہیں کھیلی جا تی، نہیں کھیلی جا سکتی۔
بے خواب نیندیں
خاور سلیم آذر ایک نثرنگار کے طور پر خود کو متعارف کرا ہی چکے ہیں۔ ان کے نثرپاروں کا مجموعہ ''صحرا کے پھول‘‘ چھپ کراہل دانش کو چونکا چکا‘ اب انکی شاعری کا پہلا مجموعہ ''بے خواب نیندیں‘‘ تحسین کے پھول وصول کر رہا ہے۔تقریب ِ رونمائی کشف ِ درویش فائونڈیشن کے چیئرمین اعظم منیر کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔خلیل الرحمن قمر جیسے ڈرامہ نگار، نذیر قیصر جیسے شاعر،میاں منیر احمد جیسے سیاسی اور سماجی رہنما،خالد شریف جیسے ادب اور ادیب نواز،پہلوانوں کے سرپرست ندیم پہلوان، منفرد لہجے کے مالک منشا قاضی، اور الفاظ کا دریا بہانے والی محترمہ رقیہ غزل سب انہیں داد دے رہے تھے۔ پھولوںاور چادروں سے ان کو لاد دیا گیا تھا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)