وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مخالف‘ دونوں بڑی مشکل میں ہیں۔ وزیر اعظم کے اقتدار کو سنگین خطرہ لاحق ہے تو ان کے مخالفین کے لیے بھی یہ اب یا کبھی نہیں کا معاملہ ہے۔ ایک بڑا متحدہ محاذ بنا کر وہ میدان میں نکلے تھے، سو فیصد یقین تھا کہ ریاستی ادارے اپنی غیر جانبداری یعنی نیوٹرلیٹی برقرار رکھیں گے، تو وہ وزیر اعظم عمران خان کو اس طرح چاروں شانے چت گرا لیں گے کہ وہ بہ آسانی اُٹھ نہیں سکیں گے۔ چوٹوں کو سہلاتے ہوئے اُٹھ بھی گئے تو طویل عرصہ تک بستر سے لگے رہیں گے، چل پھر نہیں پائیں گے۔ واکر کے سہارے چند قدم چلنے بھی لگے تو فراٹے بھرنا ان کے نصیب میں نہیں ہو گا۔ ان کی سیاست کسمپرسی کی تصویر بن جائے گی، لیکن وزیر اعظم نے اپنے مخالفین کے ساتھ حامیوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ ان کے اندر کا کپتان جاگا اور اس نے چومکھی لڑنے کا فیصلہ کر لیا، اور دیوانہ وار میدان میں اتر آیا۔ قومی اسمبلی کے وفادار سپیکر وقت مہیا کرنے پر مامور ہو گئے، اور یہ جو سمجھا جا رہا تھا کہ8 مارچ کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع ہونے والی قرارداد دو سے تین ہفتوں کے درمیان نمٹا دی جائے گی، کم و بیش تین ہفتے گزر جانے کے باوجود معلق ہے۔ سپیکر کے تیور یہی بتاتے ہیں کہ جو کچھ ان کے بس میں ہو گا، وہ اپوزیشن کو بے بس کرنے کے لیے کر گزریں گے۔ اپوزیشن جو بھی دھمکیاں دے، جو بھی دبائو ڈالے، تاریخ کے جو بھی حوالے دے، سپیکر اس سے متاثر ہوئے ہیں نہ ہوں گے، انہیں تاریخ میں نام لکھوانے سے زیادہ کپتان کی خوشنودی مطلوب ہے۔
کپتان نے رابطہ عوام مہم چلا رکھی ہے، بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کر رہے، اور اپوزیشن رہنمائوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ الزام لگا رہے ہیں، پھبتیاں کس رہے ہیں، نام بگاڑ رہے ہیں، اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ان کے مخالف ان کی پارٹی کے لوگوں کو خرید رہے ہیں۔ سندھ ہائوس منڈی بنا ہوا ہے، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے والے ان کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں، اپنے خلاف مقدمات ختم کرانا چاہتے ہیں۔ ان کی پشت پر بین الاقوامی عناصر ہیں۔ وہ ان کے آلہ کار ہیں۔ کپتان کے میڈیا مجاہدین یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ انہیں امریکہ کو اڈے نہ دینے اور یورپی یونین کی غلامی اختیار نہ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے روس کا دورہ کر کے نئے امکانات تلاش کیے تھے، انہیں سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ اسلامی وزرائے خارجہ کی اسلام آباد کانفرنس نے بھی انہیں کمک پہنچائی ہے، اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسلاموفوبیا کے خلاف جو قرارداد منظور کی ہے، اُس کا سہرا بھی انہوں نے اپنے سر باندھ لیا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے اپنے جلسے کو انہوں نے امر بالمعروف کا نام دے دیا ہے، گویا وہ اللہ کے راستے میں آگے بڑھ رہے ہیں، اسلام دشمن اُن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس بھجوا دیا گیا ہے، ان کے قانونی دماغوں کی بھرپور کوشش ہے کہ ان کی جماعت کے منحرف اراکین کو تاحیات نااہل قرار دلوا دیا جائے، یا یہ تلوار ان کے سر پر اس طرح لٹکائی جائے کہ ان کے حوصلے پست ہو جائیں۔ سندھ ہائوس میں ان کے باغیوں نے پناہ لے کر کپتان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار دے دیا ہے، جسے وہ بڑی مہارت سے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک طرف وفاداریاں بدلنے والوں کی اخلاقی پوزیشن کا دفاع مشکل بنا ہوا ہے تو دوسری طرف انہیں پچکارا جا رہا ہے کہ واپس آ جائیں۔ یہ بات بھی پھیلا دی گئی ہے کہ سپیکر ان کا ووٹ شمار نہیں کرے گا، اس لیے وہ گناہِ بے لذت کا شکار ہو جائیں گے۔ لاٹھی ٹوٹ جائے گی اور سانپ بھی ان کے سامنے پھن لہراتا رہے گا۔ کپتان اسلام آباد میں ایک بہت بڑا اجتماع کرنے کی تیاری میں ہیں تاکہ یہ یقین دِلا سکیں کہ ان کی عوامی طاقت نہ صرف موجود ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا ہے، انہیں کمزور سمجھ کر وار کرنے والے کسی بھول میں نہ رہیں۔
یہ درست ہے کہ اپوزیشن نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں، وہ بھی اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہی ہے، اس کے حامی بھی پُرجوش ہیں، مولانا فضل الرحمن کے ڈنڈا بردار اپنی دیوانگی کا اظہار کررہے ہیں، مریم اور حمزہ بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد گرامی آصف علی زرداری اپنے پتّے پھینٹ رہے ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ کپتان عمران خان اپنے ورلڈ کپ سمیت موجود ہیں، اس کی نمائش بھی شروع ہے تاکہ محیرالعقول کپتانی کی یاددہانی کرائی جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے اتحادی ابھی تک واضح پوزیشن نہیں لے پائے، مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، جی ڈی اے، بلوچستان عوامی پارٹی‘ کسی کی طرف سے فیصلہ کن اعلان نہیں آیا۔ باخبر حلقوں اور مبصرین کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ آ بیٹھیں گے، لیکن ابھی تک انہوں نے سپنس برقرار رکھا ہوا ہے۔ کپتان کا دعویٰ ہے کہ وہ سرپرائز دیں گے، اپوزیشن کے چوہے بلوں میں گھس جائیں گے، اور ان کے اقتدار پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ ان کے مخالفین مطمئن ہیں کہ کپتان کی سیاست جو بھی ہو، ان کے اقتدار کو بچانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعظم اپنی جماعت کو متحد نہیں رکھ سکے، اپنے طاقتور ساتھیوں کو ناراض کر بیٹھے ہیں، گورننس کے بارے میں شکایات کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوا، مہنگائی کا طوفان بھی امڈا ہوا ہے، لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین نے وزیراعظم کو کمک فراہم کردی ہے، ایک سیاسی لیڈر کے طور پر انہوں نے جو کچھ کہا، اور جو کچھ کیا ہے، اُس نے اُن کی طاقت میں اگر اضافہ نہیں کیا تو کمی بھی نہیں آنے دی۔ اب دیکھتے ہیں کپتان سیاستدان وزیر اعظم عمران خان کو بچا پاتے ہیں یا وزیراعظم عمران خان، کپتان کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ مقابلہ ان دونوں کے درمیان ہے۔ دونوں کے مخالف تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔
آسان تفسیر قرآن
شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی نے نیاز مندوں کے پُرزور اصرار پر ''آسان تفسیر قرآن‘‘ کی آڈیو ریکارڈنگ شروع کرا رکھی ہے تاکہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں تک قرآن کریم کا پیغام پہنچ سکے، اور اس کے مطالب و معانی کی تفہیم ان کے لیے آسان ہو۔ ہمارے نظام تعلیم نے عربی اور فارسی تو کیا قدیم اردو سے بھی ہمارا ناتہ بہت کمزور کر دیا ہے، نتیجتاً یونیورسٹیوں کے طلبہ تک کلام اقبال کے ''اردو ترجمے‘‘ کی تلاش کرتے نظر آتے ہیں کہ حضرت علامہ کی اردو کو بھی لغت کے بغیر سمجھنا ان کے لیے ممکن نہیں ہو پاتا۔ قرآن کریم کی تفسیر کو آسان الفاظ میں ڈھال کر مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایک ایسا کام کیا ہے کہ جس کا اجر ان کو تاقیامت ملتا رہے گا۔ ان کے شاگردِ رشید مفتی راشد حسین نے حضرت کے ان دروس کو جو خطابی شکل میں ہیں، کتابی طور پر محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل سورۂ بقرہ کی تفسیر شائع ہو کر خراجِ تحسین حاصل کررہی ہے۔ مفتی راشد حسین کو ان کی محنت کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ امید ہے وہ اس کام کو تیزی سے پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے تاکہ ان کے استادِ گرامی جو جدید اور قدیم علوم کی ایک ایسی جامع شخصیت ہیں کہ پورے عالمِ اسلام میں ان کا کوئی ثانی نہیں، سے استفادہ ان سب لوگوں کے لیے ممکن ہو سکے جو اردو زبان کی معمولی سی بھی شدھ بدھ رکھتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)